میری قوم کے نوجوان

کسی دانا کا قول ہے : ”اس قوم کی ترقی کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی جس قوم کے نوجوان ذمہ دار اور محنتی ہوں اور کسی قوم کی بربادی کے لیے یہی بات کافی ہے کہ اس قوم کے نوجوان بے فکر اور کاہل ہوجائیں۔“ شیخ عبدالعزیز بن باز کہتے ہیں: ” کسی بھی قوم کے نوجوان ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتے ہیں، جو اپنی قوم میں نئی زندگی اور انقلاب کی روح پھونکنے کا کام کرتے ہیں، وہ ثمر آور توانائی، تازہ دم اور خداداد صلاحیتوں سے مسلح ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر قوموں کی بیداری اور ان کے انقلاب کا سہرا نوجوانوں کے ہی سر جاتا ہے۔“ قرآن مجید میں اصحاب کہف کا ذکر کچھ یوں ہے: ” جبکہ کچھ جوانوں نے غار میں پناہ لی اور یہ دعا کی کہ پروردگار ہم کو اپنی رحمت عطا فرما اور ہمارے لیے ہمارے کام میں کامیابی کا سامان فراہم کردے۔“

تاریخ گواہ ہے کہ ہر انقلاب میں نوجوان طبقہ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ نوجوانوں میں کام کرنے کا جذبہ اور انقلاب لانے کی امنگ ہوتی ہے۔ یہ مضبوط عزم اور بلند حوصلہ ہوتے ہیں ان کی رگوں میں گرم خون اور سمندر کی سی طغیانی ہوتی ہے۔ یہ پہاڑوں کی سی ہمت رکھتے ہیں۔ ان کی قابلیت و ذہنی صلاحیتیں انہیں حالات کا رخ موڑ دینے، مشکلات جھیلنے اور مسلسل جدوجہد کے ساتھ ساتھ وقت اور جان و مال کی قربانی دینے کا ذہن اور حوصلہ عطا کرتی ہیں اور ان کو وقتاً فوقتاً اس کے لیے ابھارتی رہتی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ فرعون جیسے ظالم و جابر کے خلاف موسیٰ علیہ السلام کی دعوت پر ”لبیک“ کہنے والے چند نوجوان ہی تھے جنہوں نے مصائب کی پرواہ نہ کرتے ہوئے علم حق بلند کیا۔

انہی خصوصیات کی بنا پر شاعر مشرق علامہ محمد قبال نوجوانوں سے بہت زیادہ پر امید تھے۔علامہ اقبال کی ساری امیدیں جوانوں سے وابستہ نظر آتی ہیں۔ ان کا شاہین کا تصور بڑا واضح ہے۔ انہوں نے اپنے بیٹے جاوید کے نام جو نظمیں لکھی ہیں درحقیقت ان میں جوان نسل کے لیے ایک اجتماعی پیغام ہے۔ وہ جوانوں کے لیے دعا کرتے ہیں:
جوانوں کو مری آہ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا! آرزو میری یہی ہے
مرا نور بصیرت عام کر دے
اسی طرح انھوں نے کہا ہے:
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

مجموعی طور پر دیکھا جائے توعلامہ اقبال نوجوان نسل کوجمودکے دور سے نکل کرآگے بڑھنے کے لیے انگیخت کرتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنے زمانے کے جمود کا غم کرتے ہوئے نوجوان نسل کو تبدیلی اورارتقا میں اپنا کردار ادا کرنے کی طرف راغب کیا ہے۔نوجوان اصلاح اور انقلاب کو لاتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ نوجوانوں کی کثرت اور مذکورہ نوعیت کی تحریکیں ایک ساتھ رونما ہوتی ہیں۔ پروٹسٹنٹ اصلاح کو تاریخ میں نوجوانوں کی غیر معمولی تحریکوں کی مثال کہا جاتا ہے۔ جیک گولڈ سٹون کا تجزیہ ہے کہ سترہویں صدی کے درمیانی عرصے میں آبادی میں اضافے سے یورشیا میں اور اٹھارویں صدی کے آخری عشروں میں مغربی معاشروں میں دو انقلابی لہریں اٹھیں۔ اٹھارویں صدی کے آخری عشروں میں جمہوری انقلاب کے زمانے میں نوجوانوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا تھا۔ یورپی معاشروں میں انڈسٹریلائزیشن اور نقل مکانی کی وجہ سے نوجوانوں کا سیاسی اثر کم ہوگیا ہے لیکن نوجوانوں کی تعداد بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں بڑھ گئی جس کی وجہ سے یورپ میں کئی تحریکوں کو افرادی قوت حاصل ہوگئی ہے۔

مسلمان نوجوان اسلامی احیا میں بھرپور کردار ادا کررہے ہیں۔ جب ستر کی دہائی میں احیا کا آغاز ہو اور اس میں شدت آگئی تو عین اسی دوران بڑے مسلمان ملکوں میں پندرہ سے چوبیس سال کی عمر کے افراد کا تناسب مجموعی آبادی میں بہت زیادہ ہوکر بیس فیصد سے بھی بڑھ گیا تھا۔ بیشر ملکوں میں ستر اور اسی کی دہائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا تھا، وہ مجموعی ملکی آبادی کے بیس فیصد سے بھی تجاوز کرگئے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق اکیسویں صدی کی ابتداءمیں سعودی عرب میں نوجوانوں کی تعداد بیس فیصد سے تھوڑی ہی کم ہوگی۔ ستر کے عشرے کے آخری سالوں میں ایران کی آبادی میںنوجوانوں کا تناسب بیس فیصد تک پہنچ گیاتھااور 1989ءمیں ایران میں انقلاب برپا ہوا ۔اسی طرح نوے کی دہائی میں الجیریا کی آبادی میں نوجوانوں کا تناسب اتنا ہی بڑھ گیا تھا جس کے نتیجے میں ایف آئی ایس نے عوامی مقبولیت جیت کر انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔

زمانہ قریب میں مشرق وسطیٰ یکے بعد دیگرے کئی ممالک میں آنے والے انقلابات میں بھی نمایاں کردار نوجوانوں کا ہی رہا ہے۔ ایک نوجوان کی موت سے شروع ہونے والے انقلاب کی اس لہر نے یمن، بحرین، لیبیا اور پھر شام کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔نوجوانوں نے مسلسل کوشش جاری رکھی اور کئی آمر حکمرانوں کا تختہ الٹ دیا۔ آج مشرق وسطیٰ آمر حکمرانوں سے پاک نظر آتا ہے۔ مصر میں اس وقت اخوان المسلمین کی حکومت ہے،1928ءمیں اپنے چھے نوجوان ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس جماعت کی بنیاد رکھنے والا استاد حسن البناءرحمةاللہ بھی ایک بائیس سالہ نوجوان ہی تھا۔ مصری نوجوانوں نے ایک لمبا عرصہ مشقت برداشت کی لیکن اپنے مشن کو نہیں چھوڑا، آج انہی کے دم سے مصر میں اخوان کی حکومت قائم ہے۔سیموئل پی وٹنگٹن لکھتے ہیں کہ مصر میں اسلام پسندوں نے نوجوانوں کا ایک ایسا نیٹ ورک تشکیل دے دیا، جو ہر قسم کی خدمت کرتے ہیں۔ اکثر انقلابی تحریکوں کی طرح یہاں بھی نوجوان طلبہ ہی بنیادی کردار ادا کررہے ہیں۔ اسلام پسندی اکثر نوجوانوں میں مقبول ہے۔مصری اسلام پسندوں کا تجزیہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان میں کئی خصوصیات ہیں۔یہی خصوصیات دیگر مسلمان ممالک میں بھی موجود ہےں۔ ان کے پاس نوجوان ہوتے ہیں جن کی عمر بیس سے تیس سال کے دوران ہوتی ہے۔یہ نوجوان طلبہ ہی اسلام پسندوں کو لیڈر فراہم کرتے ہیں۔انہی لوگوں نے ایران میں بنیادی کردار ادا کیا تھا اور الجیریا، ترکی اور انڈونیشیا میں تحریکوں کی یہی لوگ امداد کرتے ہیں۔

پاکستان پلاننگ کمیشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت آبادی کی شرح میں 1.57 فیصد سالانہ اضافہ ہو رہاہے۔ اس وقت دو تہائی پاکستانیوں کی تعداد 30 سال سے کم عمر کے افراد پر مشتمل ہے۔ صرف یمن اس سلسلے میں آگے ہے جہاں 24 سال سے کم عمر کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ہر3 پاکستانیوں میں سے ایک 14سالہ عمر کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کی آبادی دہائیوں تک جوان رہے گی۔ اس کے علاوہ 2020ءتک پاکستان میں 15 سے 24 سال تک عمر کے نوجوانوں کی تعداد میں 20 فیصد اضافہ متوقع ہے جبکہ 2030ءتک پاکستان میں 24 سال سے کم عمر نو جوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی۔

جس ملک کے پاس نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد ہو اس کے باوجود اس ملک کا ترقی کی بجائے پستی کی طرف جانا یقیناً بہت نقصان کا باعث اور قابل حیرت بات ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہمیشہ نوجوانوں کو غلط استعمال کیا گیا ہے۔ ہرسیاست دان ہربار کسی نئے ہی نعرے سے میرے ملک کے نوجوانوں کو گمراہ کرتا ہے، ان کے ہاتھوں سے کتاب چھین کا اپنا سیاسی جھنڈا اور اسلحہ تھما دیا جاتا ہے ۔ ہمارے سیاست دان بات بات پر محمد علی جناح کا نام تو لیتے ہیں لیکن انکے نقش قدم پر نہیں چلتے۔قائد محمد علی کو طالب علموں کا مستقبل عزیز تھا ، اس لیے انہوں نے کبھی طالب علموں کو سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھایا۔انہوں نے ہمیشہ نوجوانوں کی کردار سازی پہ زور دیا،وہ ہمیشہ طالب علموں کو براہ راست سیاست میں حصہ لینے سے منع کرتے تھے۔جبکہ ہمارے ملک میں تقریباً ہر لیڈر نے نوجوانوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ملک کی حقیقی تعمیروترقی کے لیے کسی نے بھی ان سے کام نہیں لیا۔ اگر ان نوجوانوں سے ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے کام لیا جاتاتو آج ہمارا ملک دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے پیچھے نہ رہتا۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701335 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.