کیا اس ملک کی سیاست انگڑائی لے گی اور کیا پی ٹی آئی و پی ایم ایل این ایک دوسرے
کو سخت ٹکر دے سکتے ہیں۔ اس وقت قومی سیاست کے نشیب و فراز سمجھنے اور امکانات کا
دور تک تعاقب کرنے والے لوگ اس مسئلہ پر سنجیدہ غور و فکر کے عمل سے گزر بھی رہے
ہیں اور مثبت اور منفی دونوں پہلوﺅں پر تبصروں و تجزیوں کے حوالے سے اپنے اپنے
خیالات کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ کیا سیاست کا نیا قبلہ معرضِ وجود میں آئے گا یا
نہیں؟ اس پر گو کہ ابھی ابہام موجود ہے کیونکہ اس ٹکراﺅ کا نتیجہ گیارہ مئی سے لیکر
بارہ مئی تک آجائے گا۔ جو سیاسی جماعتیں ان دونوں سے کبیدہ خاطر ہیں ان میں سے بعض
کو یہ خوش فہمی بھی لاحق ہے کہ آئندہ پارلیمانی الیکشن کے نتائج سے قبل ہی پاکستانی
بساط سیاست پر ایک نیا محاذ جلوہ گر ہو چکا ہے جسے سونامی کی عرفیت حاصل ہے۔ خوش
امیدی اور نا امیدی پالنے والوں کا ماننا ہے کہ چونکہ ان دونوں جماعتوں کا عوام میں
سیاسی اثر و رسوخ زیادہ ہے اس لئے سیاست کے اُفق پر نئی تخلیق کا طلوع خارج از
امکان ہرگز نہیں۔ ہر چند کہ یہ بھی تجزیہ لگایا جا رہا ہے کہ چھوٹی جماعتوں کے بغیر
کوئی بھی حکومت بنانے کی پوزیشن حاصل نہیں کر سکے گا۔ ویسے آج کل پنجاب میں سونامی
اور شیر کا بڑا چرچا ہے۔ ایک ایک دن میں پانچ پانچ جلسے کئے جا رہے ہیں۔ اور دونوں
جماعتیں تبدیلی کا نعرہ لگا رہی ہیں۔ اس پر بھی لوگوں کا ابہام ابھی باقی ہے کہ جو
نئی جماعت ہے جسے عرفِ عام میں سونامی کہا جاتا ہے وہ تبدیلی کا نعرہ زیادہ لگا رہی
ہے۔ جبکہ دوسری جماعت نے تو حقیقتاً کئی کئی باریاں لے رکھی ہیں اور تبدیلی آئی
نہیں۔ اس لئے لوگوں کا جھکاﺅ سونامی کی طرف زیادہ ہے۔ بہرحال فیصلہ تو ووٹوں کی
گنتی سے ہی ہونا ہے اور اب وہ وقت بھی زیادہ دور نہیں جب گنتی شروع ہونے والی ہے۔اس
وقت صورتحال یہ ہے کہ دونوں محاذوں کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں ۔ دونوں ایک دوسرے پر
سبقت لے جانے کے لئے ایک دوسرے پر طرح طرح کے الزامات کی بوچھاڑ اور نئے نئے وعدے
بھی کر رہے ہیں۔ عوام کو امید ہے کہ بعد از انتخاب قومی سیاست اور قومی حکومت کا
رُخ بھی یکلخت بدل جائے گا۔
امکانات اور اندیشوں پر غور و فکر جاری ہے ۔ اور میڈیا پر دونوں بڑی پارٹیوں کی
جذباتی تقریروں کی کٹ پیس بھی پیش کی جا رہی ہیں جو ان لیڈروں نے جوشِ خطابت میں
کچھ کا کچھ تقریر کر دیا۔جیسے کہ سونامی خان نے شیر کو ووٹ ڈالنے کا عندیہ دیا۔اسی
طرح شریف صاحب نے لوڈ شیڈنگ پرتقریرکرتے ہوئے یہ کہہ دیاکہ اب ہر گھرمیں موم بتی
روشن ہوگی۔واہ ری سیاست تیرے سارے کھیل نرالے۔ملک کی چھوٹی پارٹیاں اپنا الیکشن مہم
چلا نہیں پا رہے ہیں کیونکہ انہیں حملوں کی تھریٹ ہیں اور کئی بار اس تھریٹ کو عملی
جامہ بھی پہنایا جا چکا ہے جسکی وجہ سے معصوم انسانی جانوں کا زیاں بھی ہوا۔لیکن
محسوس ایسا ہی ہو رہاہے کہ ملک بھرمیں انتخابات کے بعد کوئی بھی سیاسی جماعت اکیلے
حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔ اور انہیں چھوٹی جماعتوں کو ملا کر حکومت کے
تخت تک رسائی ممکن ہو سکے گی۔ ہر چند کہ یہ اپنی جگہ بالکل سچ ہے کہ ملک کو بہترین
قیادت کی ضرورت ہے جو عوامی توقعات پر کھری اُتر سکے ۔ عوام اور جماعتوں کے درمیان
نظریاتی ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی ایک فریق کو زیادہ سیٹیں حاصل ہو
سکیں۔ اگر دو تہائی اکثریت کے ساتھ کوئی جماعت حکومت بناتی ہے تو اسے ممکنہ قیامِ
وقت اور دیرپا سیاسی اثر و رسوخ کے امکانات ممکن ہونگے حالانکہ ملک کا موجودہ اور
سابق سیاسی منظر نامہ اس حقیقت کا گواہ بھی ہے کہ یہاں سیاست میں کم از کم مشترکہ
پروگرام نہیں چل سکتا کیونکہ ہماری جماعتوں میں اَنا پا پَس بہت زیادہ ہے اور اسی
پَس کی وجہ سے ایک دوسرے پر الزامات کی بھرمار کرتے رہتے ہیں۔ ملک بھر میں ایسے کئی
درجن سیاسی جماعتیں ہیں جنہیں ہم علاقائی جماعتیں کہہ سکتے ہیں اور ایسی جماعتیں اس
وقت سیاسی پناہ کی تلاش میں بھی سرگرداں ہیںجوسونامی یا شیر میں ضم ہونے کو تیار
ہیں۔ مگر جن کو شامل ہونا تھا وہ کب کا لوٹا بن کر شامل ہو چکے ہیں ۔ ابھی تو نتیجہ
آنے تک ان جماعتوں کے دھڑوں کی شمولیت فی الوقت کوئی بھی گوارا نہیں کرے گا۔ ہاں
مگر اتنا ضرورہے کہ نتیجہ آنے کے بعد ان کی قسمت کا ستارہ بھی چمکے گا۔ شمال سے
جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک بساطِ سیاست پر جلوہ گر سیاسی جماعتوں میں کم از کم (بلکہ
انتخابی مہم کے حوالے سے دیکھا جائے تو صرف پنجاب سے) اس وقت تک سونامی ہی ایسی
پارٹی دکھائی دیتی ہے جن کی نظریاتی ہم آہنگی دوسری جماعتوں کے ساتھ اگر قائم ہوگیا
تو ملک کا قومی منظر نامہ یقینا تبدیل ہو سکتا ہے ۔ دوسری جماعت کو مصلحت آمیز
فیصلوں کی وجہ سے اور موقع پرستانہ حکمتِ عملیاں زیادہ عزیز رہی ہیں اس لئے عوام کی
نظر ان پر کچھ کم ہے اور لوگ تبدیلی کا نعرہ بھی اسی لئے لگا رہے ہیں کہ نئے لوگ
آئیں اور اس ملک کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔
ویسے الیکشن کمیشن اور نگراں حکومتوں کو اس طرف توجہ دینا چاہیئے کہ ہمارے ملک میں
انتخابی مہم دو مختلف انداز میں کیوں ہے۔ پنجاب میں سیاسی گہما گہمی انتہائی عروج
پر ہے جبکہ بقیہ تینوں صوبوں میں انتخابی مہم دھماکوں کی زد پر ہیں۔ آج حالات یہ
ہیں کہ انتخابی عملے کے افراد بھی اُن علاقوں میں تعیناتی کی صورت میں وہاں جاکر
اپنے فرائض انجام دینے سے ببانگِ دہل انکار کر دیا ہے۔ پھر بھی فخرو بھائی اور
نگرانوں کا نعرہ ہے کہ انتخابات شفاف، آزادانہ اور منصفانہ کرئیں گے۔ ایک صوبے میں
انتخابی مہم کی تیز رفتاری اور دوسرے صوبوں میں انتہائی نا گفتہ بہ صورتحال کی
موجودگی الیکشن کمیشن کے اس نعرے کی نفی کرتا ہے کہ الیکشن شفاف ہونگے۔ ابھی چند
روز الیکشن میں باقی ہیں اور ان ارباب کو چاہیئے کہ ٹھوس حکمتِ عملی وضع کرکے دوسرے
صوبوں کی جماعتوں کو بھی الیکشن مہم بھرپور چلانے کی راہ ہموار کریں ۔ ایسی صورتحال
میں جب تحفظ کا احساس نہ ہو تو عوام بھی کثرت سے ووٹ ڈالنے نہیں نکلیں گے اور شرح
تناسب بہت کم ہو جائے گا ۔ اور اگر یہ ریشو کم ہوا تو بھی الیکشن شفاف نہیں کہلائے
گا۔ جاگئے فخرو بھائی! اور جاگیں نگران بھی کیونکہ اب بات آپ کی عزت پر آن پڑی
ہے۔اگر اسی صورتحال میںالیکشن ہوئے تو گیارہ مئی کے بعدعوام آپ پر بھی انگلیاں
اٹھانے سے باز نہیں رہیں گے۔ ایک عام فرد کو یہ تمام صورتحال کا اندازہ ہو رہا ہے
تو آپ کو کیوں یہ تمام صورتحال نظر نہیں آتا۔ سامنے آئیں اور دلیل کے ساتھ واضح مو
¿قف دیں ۔ آپ تو ویسے بھی اب عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں ڈر اور خوف ہونا نہیں
چاہیئے۔ آپ کے کندھوں پر بڑی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے جس سے عہدہ برآں ہونا آسان
نہیں۔ اور یہ کام آپ کی ساری زندگی کی محنت کا ثمر ہو سکتا ہے اگر شفاف الیکشن کرا
دیں۔ وگرنہ یہاں تو بہت لوگ ڈھیر سارے منصب پر بُرا جمان ہوئے اور چلے گئے مگر کسی
نے کچھ بھی نہ کیا ، کہیں ایسا ہی نہ ہو کہ آپ کا نام بھی انہیں لوگوں کی صف میں
گِنا جائے۔
لہٰذا یہ خواب فی الوقت مت دیکھئے کہ کوئی نیا سیاسی محاذ طلوع ہوگا اور اسے عوام و
خواص میں پذیرائی ملے گی۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آنکھیں جو دیکھتی ہیں نتیجہ اس
کے بالکل برعکس آتا ہے۔ چونکہ ہم لوگ بھی عوام کی بھلائی کے لئے ہی لکھتے ہیں اور
جو کچھ آج تک کے جلسوں میں ہم سب دیکھ رہے ہیں اس لئے عوام کی خاطر یہ سطر تحریر
کرنے میں پس و پیش نہیں کر سکتے کہ لگتا ہے کہ تبدیلی آکر ہی رہے گی۔ اس کی ایک بڑی
وجہ یہ بھی ہے کہ جتنے بھی پرانے حکمران اب تک عوام پر حکمرانی کر چکے ہیں انہوں نے
عوام کو کچھ بھی ڈیلیور نہیں کیا۔ سوائے مہنگائی، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ ، قتل و
غارت گری، بے امن و امانی ، اور بھتہ خوری کے؟ |