حضرت مولانامحمدیوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ
ؓ میں تحریر کرتے ہیں حضرت ابو ایوب انصاری ؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ مدینہ
میں تھے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ ابو سفیان کا تجارتی
قافلہ (شام کی طرف سے بہت سامال لے کر ) آ رہا ہے۔ کیا آپ لوگ چاہتے ہیں کہ
ہم لوگ اس قافلہ کا مقابلہ کرنے کے لیے (مدینہ سے) نکلیں؟ شاید اللہ تعالیٰ
اس قافلے کا سارا سامان بطور مال غنیمت دے دے۔ ہم نے کہا جی ہاں (ہم نکلنا
چاہتے ہیں) چنانچہ آپ تشریف لے چلے اور ہم بھی (آپ کے ساتھ) نکلے۔ جب ہم
ایک یا دو دن چل چکے تو آپ نے ہم سے فرمایا قریش کو تمھارے نکلنے کی خبر ہو
گئی ہے (اور وہ تم سے لڑنے کے لیے تیار ہو کر آگئے ہیں) تو قریش کے اس
لشکر(سے لڑنے) کے بارے میں تم لوگوں کی کیا رائے ہے؟ ہم نے کہا نہیں اللہ
کی قسم ! ہم میں ان سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے ہمارا تو تجارتی قافلہ سے
مقابلہ کا ارادہ تھا۔ آپ نے پھر فرمایا قریش کے اس لشکر (سے لڑنے) کے بارے
میں تم لوگوں کی کیا رائے ہے؟ ہم نے وہی جواب دیا پھر حضرت مقداد بن عمرو ؓ
نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ ! ہم آپ سے اس موقع پر وہ نہیں کہیں گے جو
(ایسے موقع پر) موسی ؑ کی قوم نے ان سے کہا تھا کہ تو جا اور تیرارب اور تم
دونوں لڑو۔ ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ حضرت ابو ایوب ؓ کہتے ہیں کہ (حضرت مقداد
ؓ کے اس ایمان افروز جواب پر ) ہم انصار کو تمنا ہوئی کہ ہم بھی حضرت مقداد
ؓ جیسا جواب دیتے تو بہت زیادہ مال ملنے سے زیادہ محبوب ہوتا۔ اس بارے میں
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر یہ آیت نازل فرمائی۔
ترجمہ۔ جیسے نکالا تجھ کو تیرے رب نے تیرے گھر سے حق کام کے واسطے اور ایک
جماعت اہل ایمان کی راضی نہ تھی۔
قارئین روز ازل سے حق و باطل ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں اہل حق تعداد میں
چاہے کم ہی کیوں نہ ہوں ان کے دلوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت نازل
ہوتی ہے اور وہ بڑی سے بڑی ابلیسی قوت سے ٹکراتے ہوئے کوئی بھی خوف محسوس
نہیں کرتے۔ قرآن و حدیث کھول کر دیکھ لیجئے کہ اہل ایمان طاقت میں ظاہری
طور پر کم ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی مدد سے بارہا باطل قوتوں کے
مقابلے میں فتح سے ہمکنار ہوئے۔ 1965کی جنگ کے وہ واقعات پاکستانی ادب اور
تاریخ کا حصہ ہیں کہ جن میں گرفتار ہونے والے بھارتی پائلٹس اور فوجیوں کا
یہ کہنا تھا کہ ہم پاکستانی فوجوں کا مقابلہ تو کر سکتے تھے لیکن اس نورانی
مخلوق کا کیسے مقابلہ کرتے کہ جو اچانک سامنے آ کر ہمیں تباہ و برباد کر
رہی تھی یہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد نہیں تواور کیا ہے کہ 1965کی جنگ
میں باوجود ظاہری طور پر بھارت سے انتہائی کم قوت رکھنے والی پاکستانی فوج
فتح یاب رہی یقینا اہل ایمان کے لیے ان باتوں میں کئی سبق موجود ہیں دوسری
جانب ایسا بھی ہوا کہ مسلمان ظاہری طور پر طاقت میں زیادہ ہوئے لیکن ایمانی
کیفیت میں ڈگمگاہٹ ہونے کی وجہ سے وہ شکست سے دو چار ہوئے۔ ان باتوں سے یہ
ثابت ہوتا ہے کہ یہ دنیا صرف تھری ڈی نہیں ہے بلکہ شاید اس کی چوتھی سمت
بھی موجود ہے جسے ترقی یافتہ ممالک کے لوگ ”مافوق الفطرت یا سپر نیچرل“عمل
کہتے ہیں اور ایمان کی دنیا میں اسے معجزہ یا کرامت کہا جاتا ہے۔ ویسے تو
پاکستان کا بننا بھی بیسویں صدی کی سب سے بڑی کرامت ہے کہ کس طرح قائداعظم
محمد علی جناح ؒ نے علامہ محمد اقبال ؒ حکیم الامت کے خوابوں کو عملی شکل
دی حالانکہ مسلمان شدید ترین پسماندگی اور بیچارگی میں مبتلا تھے جبکہ مد
مقابل حریف انگریز اور ہندو طاقت سے لیس تھے۔ اس سب کے باوجود برصغیر کے
مسلمانوں نے لاکھوں کی تعداد میں شہداءکی شکل میں قربانیاں پیش کیں اور ان
شہداءکے متبرک خون نے 27رمضان المبارک کی شب پاکستان کی بنیاد رکھ دی۔ ہم
یہ بات پہلے بھی کئی مرتبہ دوہرا چکے ہیں اور آج بھی دوہرا رہے ہیں کہ
پاکستان ایک عام ملک نہیں ہے پاکستان دنیا کی قیادت کرنے کے لیے بنا ہے
انشاءاللہ تعالیٰ ۔ اگر چہ گزشتہ 65سالوں کی تاریخ اور بقول قائداعظم محمد
علی جناح ؒ ”ان کی جیب کے کھوٹے سکوں“ نے جو حشر اللہ تعالیٰ کی اس عطا
کردہ نعمت کے ساتھ کیا وہ اس ملک کو کئی بحرانوں سے دو چار کرتا رہا اور آج
بھی کئی چیلنجز سے برسر پیکار کر رہا ہے اس کے باوجود اپنے ایمان کی روشنی
میں ہم اپنے یقین سے یہ بات کہیں گے کہ مشکل گھڑیاں جلد ختم ہوں گی اور
پاکستان میں بہت جلد ایک ایسی شخصیت اقتدار سنبھالے گی جو ماضی کی تمام
غلطیوں کی تصیح کرتے ہوئے پاکستان کو ترقی اور انقلاب کی منزل کی طرف لے کر
جائے گی۔ اولیاءاللہ کی پیش گوئیاں موجود ہیں کہ نیلی آنکھوں والا ایک فوجی
جرنیل پاکستان کا اقتدار سنبھالے گا ، نیلی آنکھوں والا یہ فوجی جنرل
انتہائی سخت گیر ہو گا، قوم کے مزاج کو بھی درست کرے گا اور تمام کرپٹ نظام
کو درست کرتے ہوئے یہ فوجی جنرل انقلاب کی روح کے مطابق پاکستان میں نظام
عدل قائم کرے گا یہ تمام پیش گوئیاں مختلف کتابوں میں موجود ہیں۔
قارئین یہ تو چوتھی سمت کے حوالے سے ہمارے خوش یقینیا ں کہہ لیجئے یا خوش
فہمیاں ، وقت ہی بتائے گا کہ ہمارا حسن گماں درست ہے یا تلخی ایام کے وہ
کڑوے گھونٹ جو بیس کروڑ کے قریب پاکستانی صبح شام پیتے ہیں لیکن ہماری اللہ
بزرگ و برتر سے یہ دعا ہے کہ آزمائش کی گھڑیاں جلد از جلد ختم ہوں اور
پاکستان اپنے وجود کے مقاصد حاصل کرنے کی طرف گامزن ہو پاکستان کا قیام دو
قومی نظریے کی بنیاد پر ہوا تھا اور لاکھوں مسلمانوں نے اسلام کی خاطر بننے
پر اس سلطنت پر اپنی جانیں قربان کی تھیں۔ بصورت دیگر مولانا ابوالکلام
آزاد سے لے کر دیگر علماءکرام کی صاحب بصیرت قیادت تو یہ نظریات بھی رکھتی
تھی کہ قیام پاکستان کی وجہ سے ہندوستان کے مسلمانوں کی متحدہ عددی قوت بٹ
جائے گی اور پاکستان میں قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی ”جیب کے کھوٹے سکے“
جاگیردار، وڈیرے اور سرمایہ دار برسر اقتدار آ کر مزید تباہی اور بربادی کا
سبب بنیں گے۔ تاریخ کے ماہرین مختلف تجزیات میں مولانا ابوالکلام آزاد اور
دیگر علماءکرام کی اس رائے کو پاکستان کی 65سالہ عملی قابل ترس تاریخ کی
روشنی میں سو فیصد درست قرار دیتے ہیں لیکن نجانے کیوں ہم پھر بھی ایمان
رکھتے ہیں کہ پاکستان کا وجود اور پاکستان کا قائم ہونا ایک بہت بڑی کرامت
ہے وقت کی ایک سنت ہے کہ یہ ایک سا نہیں رہتا ایک وقت تھا کہ جب یونانی
پوری دنیا پر حکومت کرتے تھے۔ پھر ایک وقت آیا کہ جب رومن ایمپائر کے ٹکڑے
ٹکڑے ہوگئے ایک وقت تھا کہ ایران سے دنیا کی تقدیر کے ظاہری فیصلے صادر
ہوتے تھے لیکن وہ وقت بھی آیا کہ جب تبدیلی کے ستاروں نے اپنے فیصلے صادر
کیے اور ایران کی سلطنت قصہءپارینہ بن کر رہ گئی اسی طرح ماضی قریب میں یہ
دنیا ”بائے پولر ورلڈ“کی اصطلاح بن کر درانتی کا نشان رکھنے والے سرخوں اور
انکل سام کے کھیل کا میدان بنی ہوئی تھی لیکن وقت نے ایک مرتبہ پھر تبدیلی
کا پیغام دیااور سرخ انقلاب کا پیغام دینے والے افغانستان کے پہاڑوں سے
ٹکرا کر اتنے ٹکڑوں میں تقسیم ہوئے کہ آج ان کا نام لیوا بھی کوئی نہیں ہے
اس وقت دنیا ایک آنکھ رکھنے والے دجالِ وقت انکل سام کی چیرہ دستیوں کا
نشانہ بنی ہوئی ہے لیکن آج ہماری یہ بات نوٹ کر لیں کہ انشاءاللہ تعالیٰ
تبدیلی کے ستارے ایک مرتبہ پھر حکم صادر کر چکے ہیں اور انکل سام بھی اپنے
انجام سے دو چار ہونے والے ہیں۔
قارئین اس بہت لمبی تمہید کا ہمارے آج کے کالم کے موضوع کے ساتھ انتہائی
گہرا تعلق ہے یہ 1998-99کی بات ہے کہ جب پاکستان میں میاں محمد نواز شریف
وزیراعظم تھے بھارت نے پانچ ایٹمی دھماکے کرتے ہوئے پوری دنیا کو جارحیت کا
پیغام دیا اور پاکستانی سیاسی اور فوجی قیادت کو صبح شام یہ دھمکیاں دینا
شروع کر دیں کہ اب پاکستان اپنی چھٹی سمجھے اور آج یا کل بھارت پاکستان پر
حملہ کرنے والا ہے پوری قوم اس وقت ایک ہیجانی کیفیت کا شکار ہوئی اور
سیاسی قیادت سے کروڑوں پاکستانیوں نے یک زبان ہو کر ایک ہی مطالبہ کیا
پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا جواب دیا جائے دوسری جانب
ماضی کے پاکستان کے انتہائی محبوب دوست اور 1971کی پاک بھارت جنگ میں
”ساتویں بحری بیڑے کے مالک“انکل سام سے لے کر برطانیہ، یورپ اور دنیا کے
تمام ترقی یافتہ ممالک بشمول پاکستان کے قریبی ایشیائی دوست جاپان تک نے
میاں محمد نواز شریف اور سیاسی و عسکری قیادت سے ہاٹ لائن پر رابطہ کرتے
ہوئے صبر کرنے کا درس دیا اور ایٹمی دھماکوں کا جواب نہ دینے کی صورت میں
پاکستان کو کھربوں ڈالرز قرضوں یا امداد کی پیشکش بھی کی۔ راقم نے ایف ایم
93ریڈیو آزاد کشمیر کے مقبول ترین پروگرام ”لائیو ٹاک ود جنید انصاری“میں
استاد محترم سینئر صحافی راجہ حبیب اللہ خان کے ہمراہ ایٹمی پاکستان کے
خالق اور فخر امت مسلمہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ایک انٹرویو کیا اور ان سے
اس بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے بھی اس وقت کی کیفیت کا تذکرہ کیا جو
ایک ڈرامائی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے میاں محمد نواز شریف چونکہ دو تہائی
اکثریت لے کر پاکستان کے وزیراعظم بنے تھے اس لیے انہوں نے جرا ءت سے کام
لیا اور دنیا جہان کی لالچوں کو ٹھکرا کر ایٹمی ماہرین کو ایٹمی دھماکے
کرنے کا حکم دے دیا 1974سے ایک ناقابل تسخیر جوہری پاکستان کا خواب دیکھنے
والے عظیم سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم نے بلوچستان چاغی کے
پہاڑوں پر بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ کامیاب ایٹمی دھماکے
کر کے پہاڑی سلسلے کو چاندی جیسا رنگ دے دیا اور پوری پاکستانی قوم ایک
مرتبہ پھر ”پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔۔۔لا الہ الااللہ “ کے نعرے لگاتی ہوئی
سڑکوں پر نکل آئی وہ دن ایک نئے پاکستان کا دن تھا ایک ایسا پاکستان جو
1947کے بعد ایک مرتبہ پھر وجود میں آیا کیا یہ کسی کرامت سے کم ہے کہ وہ
پسماندہ ترین ملک جو بقول ڈاکٹر عطا الرحمن تعلیم کے میدان میں دنیا کی صف
میں 128ویں نمبر پر کھڑا ہے، جہاں سوئی سے لے کر ہوائی جہاز تک امپورٹ کی
جاتی ہے اس ملک میں دنیا کی حساس ترین ٹیکنالوجی کے تحت ”زرے کا جگر چیر کر
“ خورشید کا سماں پیدا کر دیا گیا۔ یہ کرامت ثابت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ
نے اس ملک سے کوئی بڑا کام لینا ہے بقول علامہ اقبال ؒ ہم یہی کہیں گے۔
اعجاز ہے کسی کا یاگردش زمانہ!
ٹوٹا ہے ایشیا میں سحر فرنگیا نہ!
تعمیر آشیاں سے میں نے یہ راز پایا
اہل نوا کے حق میں بجلی ہے آشیانہ!
یہ بندگی خدائی، وہ بندگی گدائی
یا بندہ خدا بن ، یا بندئہ زمانہ!
غافل نہ ہوخودی سے کر اپنی پاسبانی
شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ!
اے لا الہ کے وارث باقی نہیں ہے تجھ میں
گفتارِ دلبرانہ، کردارِ قاہرانہ!
تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تیرا جذب قلندرانہ!
رازِ حرم سے شاید اقبال بے خبر ہے
ہیں اس کی گفتگو کے اندازِ محرمانہ!
قارئین یہ تو ماضی کی وہ باتیں ہیں جو ہم سب جانتے ہیں اب کچھ باتیں سینہ
گزٹ اور کڑیوں سے ملنے والی کڑیوں کی روشنی میں کرتے چلیں 1999میں میاں
محمد نواز شریف نے امریکہ کو یہ معلومات فراہم کیں کہ پاکستان کی فوجی
قیادت ملک میں جمہوری حکومت کا تختہ الٹنا چاہتی ہے وجہ اس کی کیا تھی وہ
بھی آج سب کے سامنے ہے کارگل کا محاز فوجی سپہ سالار جنرل پرویز مشرف نے
بقول میاں محمد نواز شریف ان کے علم میں لائے بغیر کھولا اور پاکستان اور
بھارت کے درمیان غیر اعلانیہ جنگ عروج پر پہنچی تو میاں محمد نواز شریف نے
امریکہ کی مدد سے بھارت کے ساتھ صلح کرتے ہوئے جنگ کی آگ بجھا دی اب
امکانات موجود تھے کہ دو تہائی اکثریت بھاری بھرکم مینڈیٹ رکھنے والے
جمہوری وزیراعظم میاں محمد نواز شریف ”کمانڈو سپہ سالارِ افواج پاکستان
“جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں کی انکوائری سرکاری سطح پر کرواتے کہ
انہوں نے سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر اس نوعیت کی جارحانہ حرکت
کیوں کی میاں محمد نواز شریف کے ان ارادوں کا جنرل پرویز مشرف کو علم ہوا
تو انہوں نے” ملٹری کُو“کا منصوبہ تیار کیا۔ دروغ بر گردنِ راوی میاں
برادران کو اس فوجی بغاوت کا علم ہو گیا اور انہوں نے انکل سام سے رابطہ
کرتے ہوئے تمام شواہد ان کے سامنے پیش کیے جس کے جواب میں پاکستان کے
دیرینہ پکے اور سچے دوست امریکہ نے میاں برادران کی پیٹھ ٹھونکی اور ”سب
اچھا ہے “کا پیغام دے کر ہر حالت میں ان کی ”سلامتی و عافیت“ کی گارنٹی
اٹھائی۔ قصہ مختصر خدشات کے عین مطابق جنرل مشرف نے جمہوری حکومت کا تختہ
الٹا اور بعدازاں میاں برادران کو جیلوں میں ڈالنے کے بعد جب یہ عندیہ دیا
کہ میاں محمد نواز شریف کو ”سپہ سالار افواج اسلامی جمہوریہ پاکستان جنرل
پرویز مشرف “ کو طیارے کے حادثے میں قتل کرنے کی سازش تیار کرنے کی پاداش
میں سزائے موت دلوائی جائے گی تو اس دوران انکل سام ایک مرتبہ پھر حرکت میں
آئے اور انہوں نے بل کلنٹن کا تین روزہ دورہ بھارت تشکیل دیا جس کے دوران
تھوڑے سے وقت کے لیے بل کلنٹن اسلام آبادپہنچے اور بقول شاہدین کے بل کلنٹن
نے فوجی ڈکٹیٹر اور پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک جنرل پرویز مشرف سے
ہاتھ ملانا بھی پسند نہ کیا۔ بل کلنٹن کے اس پر اسرار اور انتہائی قلیل
وقتی چند گھنٹوں کے دورے کے فوراً بعد پلان بی تیار ہوا اور میاں صاحبان کو
سعودی حکمرانوں کا مہمان قرار دے کر پاکستان سے سعودی عرب ایکسپورٹ کر دیا
گیا جنرل مشرف دس سال تک برسر اقتدار رہے اور انکل سام کو ان کی ڈکٹیٹر شپ
پر کسی بھی قسم کا کوئی اعتراض نہ رہا کیونکہ جنرل مشرف انکل سام کی
دوستانہ دھمکی آمیز دعوت پر ”دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ“ میں فرنٹ لائن
سٹیٹ کے طور پرپاکستان کو لے آئے تھے یہ علیحدہ بات کہ انگاروں کی اس وادی
میں پاکستان کو جھونکنے کی پاداش میں لاکھوں پاکستانی شہید ہوئے اور مملکت
پاکستان کا فکری تشخص تباہ و برباد ہو کر رہ گیا۔
قارئین وقت نے ایک مرتبہ پھر کروٹ لی اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید پاکستان
پہنچیں ان دنوں عدلیہ کی بحالی کی تحریک عروج پر تھی 27دسمبر کو لیاقت باغ
کے مقام پر دختر مشرق بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔ آپ سب کو یاد ہو گا
کہ راولپنڈی جنرل ہسپتال جس کا آج کل نام بے نظیر بھٹو شہید ہسپتال ہے وہاں
پہنچنے والے سب سے پہلے سیاسی قائد میاں محمد نواز شریف تھے ان کی آنکھوں
میں آنسو تھے اور ان کا کہنا تھا کہ میں بی بی شہید کا مشن پورا کروں گا۔
آخر وہ مشن کیا تھاکہ جس کی وجہ سے بے نظیر بھٹو کو انتہائی بے دردی کے
ساتھ شہید کیا گیا ؟کیا بی بی شہید کا وہ مشن پاکستان کو ایک غیرت مند خود
مختار ملک بنانا تھا جو انکل سام کی گرفت سے آزاد ہو ؟ کیا وہ مشن انکل سام
کے مفادات کے خلاف تھا ؟ اس مشن میں ایسی کون سی نئی بات تھی کہ بے نظیر
بھٹو شہید کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے؟ جب تک ان تمام رازوں سے پردے
نہیں ہٹتے تب تک جنرل مشرف ، انکل سام، آصف علی زرداری، سیاسی و عسکری
قیادت اور دیگر تمام سٹیک ہولڈرز سوالیہ نشانوں کی زد میں رہیں گے ۔
قارئین محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی شہادت کے نتیجہ میں پاکستان میں پیپلز
پارٹی برسرا قتدار آئی اور ”کھپے والی سرکار“ آصف علی زرداری کی صدارت میں
اس حکومت نے بھٹو شہید کے فلسفے کے مطابق ”روٹی، کپڑا اور مکان“ عوام تک
پہنچانے کے لیے پانچ سال بھرپور کوششیں کیں لیکن ان کی کوششیں ترقی ِ معکوس
کی جانب گامزن رہیں اور عوام ان تینوں نعمتوں سے محروم ہوتے چلے گئے۔
قارئین بے نظیر بھٹو شہید کے نام پر ان کے خون کے صدقے میں بننے والی پیپلز
پارٹی کی حکومت پانچ سالوں میں اپنی شہید قائد کے قاتلوں کے نام بھی قوم کے
سامنے پیش نہ کر سکی انہیں کیفر کردار تک پہنچانا تو بہت دور کی بات ہے۔ آج
جنرل مشرف پاکستان واپس آئے ہوئے ہیں اور مقدمات بھگت رہے ہیں ۔راقم کے
”خبری یا مخبر“ کے مطابق آج سے چند ہفتے قبل تک مسلم لیگ ن کی قیادت جنرل
مشرف کے بارے میں انتہائی سخت زبان استعمال کر رہی تھی لیکن جیسے ہی میاں
محمد نواز شریف اور موجودہ چیف آف آرمی سٹاف یکے بعد دیگرے سعودی عرب عمرہ
کی ادائیگی کر کے آئے۔ مسلم لیگی قیادت کی زبان کی سختی کم ہوتے ہوتے اب
نرمی میں تبدیل ہو چکی ہے ۔ راقم کے ”خبری یا مخبر“ کا یہ بھی کہنا ہے کہ
انکل سام نے ایٹمی پاکستان کا اعلان کرنے والے سابق وزیراعظم میاں محمد
نواز شریف اور عسکری قیادت میں پائی جانے والی تمام غلط فہمیاں بھی دور کر
دی ہیں اور انتخابات میں میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن کی
فتح کی دستاویز پر دستخط ہو چکے ہیں یہ تمام باتیں ہم ظن و تخمیں او ر
اندازوں کی وادی میں گھوڑے دوڑاتے ہوئے آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں اور ہم دعا
کرتے ہیں کہ یہ تمام باتیں محض افواہیں ہوں اور ان کا سچائی سے کوئی تعلق
نہ ہو۔ لیکن ایک بات جو سچ ہے اور حق ہے وہ ہم ضرور کہیں گے انکل سام ہر گز
ہر گز پاکستان کے دوست نہیں ہیں اور ان کے کسی بھی پاکیزہ سے پاکیزہ منصوبے
میں صیہونی سازشیں موجود ہوتی ہیں اور یہودی مسلمانوں کے کھلے دشمن ہیں
یہود و نصاریٰ کی اس ازلی دشمنی کی خبر اللہ بزرگ و برتر قرآن پاک میں دیتے
ہیں ہم دعا گو ہیں کہ میاں محمد نوازشریف یا کوئی بھی شخصیت جو پاکستان کا
اگلا وزیراعظم بن کر سامنے آئے وہ انکل سام نہیں بلکہ رحمان کا بندہ ہو۔
اسی میں اس ملک ، بیس کروڑ عوام اور امت مسلمہ کی بقا ہے اللہ پاکستان کی
آزمائشیں ختم کرے اور اس عظیم وطن کو حکیم الامت علامہ اقبال ؒ کے پاکیزہ
خوابوں کا عملی نقشہ بنائے آمین۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ایک شخص کے گھر ڈاکہ پڑا پولیس کو اطلاع دی گئی پولیس انسپکٹر نے مونچھوں
پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس آدمی سے پوچھا ”میری بات کا سوچ سمجھ کر جواب دینا
، جس وقت یہ واردات ہوئی اس وقت کیا بجا تھا “
اس شخص نے خوب سوچ کر جواب دیا
”تین ڈنڈے میرے سر اور ایک میری بیوی کے سر پر“
قارئین جمہوریت اور آمریت کی اس آنکھ مچولی اور دھوپ چھاﺅں کے اس سفر میں
مظلوم پاکستانی عوام کے سروں پر ہمیشہ ڈنڈے ہی برسے ہیں۔ اللہ مستقبل بہتر
کرے آمین ۔ |