کالم نگار خواجہ اسلم رضا
11مئی کو تبدیلی آئے گی انقلاب آئے گا۔نیا پاکستان بنے گا پرانا پاکستان
بدلے گا روٹی کپڑا مکان ملے گا ۔عوام جشن منائیں گے عوام یوم نجات منائیں
گے وغیر وغیرہ گزشتہ کچھ ماہ سے ہر روز یہ جملے عوام سینکڑوں بار سنتے ہیں
اس میں کوئی اور جملہ مبنی بر حقائق نہیں صرف اس کے کہ عوام جشن منائیں گے
گیارہ مئی کو ملکی تاریخ میں ایک بار پھر الیکشن ڈرامہ سجے گا تبدیلی
انقلاب اور روٹی کی امید لگائے عوام کو چوپایوں کی طرح سیاسی غنڈے ہانک
ہانک کر پولنگ اسٹیشنوں تک لے جائیں گے اور میلہ مویشاں سجایا جائے گا شام
ڈھلے تھکے ہارے بھوک اور افلاس کے مارے بچارے لوگ کسی پارٹی کی فتح کا جشن
اپنے افلاس کو بھول کر منائیں گے سڑکوں پر جیوے جیوے زندہ بادمردہ بادویلکم
ویلکم آوے ہی آوے کے نعرے گونجیں گے اس میلے میں عوام بھوکے پیٹ لطف اندوز
ہوں گے کیوں کہ آئندہ کچھ سالوں کے لیے ان کو یہ موقع بھی نہیں دیا جائے گا
میلہ مویشیاں یعنی الیکشن ڈرامے کے ٹھیک ایک یا دوماہ بعد یہی لوگ گرمی کی
وجہ سے بلبلا اٹھیں گے بھوک سے تلملائیں گے غربت و افلاس کی وجہ سے روئیں
گے بچوں کو بیچیں گے اور حکمرانوں کو بدعائیں دیں گے اور سنے دیکر بزدلوں
اور بے غیرتوں کی طرح گھروں میں دب کر اگلے میلے کا انتظار کریں گے شاید
میں بہت سار ے لوگوں کی دل آزاری کا مرتکب ہورہا ہوں لیکن یہ تلخ حقیقت ہے
کہ قوموں کی حالت انتخاب سے انقلاب سے بدلتی ہے انقلاب کبھی پولنگ بوتھ سے
نہیں نکلتا کبھی ووٹ کی پرچی سے نہیں آتا بلکہ اس کے لیے صالح اور نیک
جذبات چاہیے مقدس دستور چاہے گرم لہو چاہیے سر چاہیے افسوس صد افسوس ہم خون
بھی دیتے ہیں اورسر بھی دیتے ہیں مگر حق لے لیے نہیں بلکہ باطل کے لیے دیتے
ہیں کیوں کہ باطل کو ہمارے سامنے حق بنا کر پیش کیا جاتا ہے کراچی سے خیبر
تک مملکت خداداد کے ہر گوشے سے علماء و سکالرز بھی قوم کو اسی عظیم گمراہی
کی طرف لے جارہے ہیں اسلام کے ٹھیکدار غلط تشریحات کر کے سادہ لوح مسلمانوں
کو غلط راہ پر ڈال رہے ہیں ایک کمزور مسلمان ہونے کے باوجود بات بڑے وثوق
اور چیلنج سے کہتا ہوں کہ موجودہ جمہوریت اور نظام کا اسلام سے کوئی اس
نظام کے خلاف بغاوت سنت شبیریؓ کے مترادف ہے مجھ سمت پوری قوم کو یہ جان
لینا چاہیے کہ الیکشن کے نام پر میلے اور ڈرامے سجا کر چہرے تو بدلے جاسکتے
ہیں مگر سسٹم میں تبدیلی بیلٹ باکس نہیں لاتا ۔ا لغرض اگر قوم کو تبدیلی
اور انقلاب کی خواہش ہے تو قوم کو انتخاب سیاسی نعروں اور دھرنوں کو چھوڑ
کر نیک اور صالح جذبات کے ساتھ اس یزیدی نظام سے بغاوت کرنی ہو گی ورنہ ہوس
کے پجاری سیاست کے مداری ایک بار پھر عوام کو کامیاب بنانے میں کامیاب ہوں
گے اور جب ہمیں سمجھ آئے گ وقت بیت چکا ہو گا یہی سرطان زدہ نظام اور اس کے
مہرے ہم پر قابض ہوں گے ہم گو گو ،، اور کم کم ،، کے نعرے لگاتے رہیں گے
غریب عوام کے حالات نہیں بدلیں گے سرمایہ پرستی اور جاگیرداری کو زوال نہیں
آئے گا کیوں کہ اس فرسودہ نظام سیاست کو ہم نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے
ہم ہی اس کو سہارا دیتے ہیں یاد رکھیے جس دن ہن نے اس کے نیچے سے کندھے
نکال لیے وہی دن انقلاب کا آغاز ہو گا وہی شب ظلمت کی شب آخر ہوگی ۔
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی۔ |