پی پی، اب پی پی نہیں رہی

ذوالفقارعلی بھٹو ایوب کابینہ سے مستعفی ہوکر ملک کے طوفانی دورے پر نکلے تو عوام نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا، وہ جہاں کا رخ کرتے لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ان کا منتظر ہوتا۔ وہ خودجاگیردار اور سرمایہ دار تھے۔ لیکن انہوںنے ان دونوں طبقات کے خلاف نعرہ بلند کرکے عوام کو اپنے گرد اکٹھا کرلیا۔ مزدور، کسان اور نوجوان ان کی محبت کے اسیر ہوگئے، ملکی تاریخ میں بھٹو وہ پہلے شخص تھے جو سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر سڑک پر لائے۔ ان کے جلسے حاضری اور جوش وجذبے کے لحاظ سے منفرد تھے، انہوںنے پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو ایک خاص مزاج میں ڈھالا، جوش وجذبے کا دوسرا نام جیالا پن تھا اور یہ جیالاپن پی پی کے کارکنوں کو دوسروں سے نمایاں کرتا تھا۔

بھٹو کی پھانسی کے بعد ان کی بیٹی بے نظیر نے بھی پارٹی کی روایات اور اس جیالاپن کو برقرار رکھا، بلاشبہ ضیا الحق کا دور حکومت پی پی کے لیے کڑی آزمائش تھا، اس زمانے میں جیالوں کی پیٹھوں پر کوڑے برسائے گئے، انہیں جیلوں میں ٹھونسا گیا، بہت سے جلاوطن ہوئے، خود بے نظیر بھٹو جیل میں رہیں۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود پیپلزپارٹی اور اس کا جیالاپن زندہ رہا۔ 1985ءکے انتخابات کا تو پی پی نے بائےکاٹ کیا تھا ،لےکن 1988ءمیں جب یہ میدان میں اتری تو لوگ اس کے جوش وجذبے کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔2007ءمیں بے نظیر بھٹو قتل ہوئیں تو ایسا لگا پی پی کی روایات اور جیالاپن بھی ان کے ساتھ ہی گڑھی خدابخش میں دفن ہوگیا۔

جیالے آصف زرداری کو اپنا قائد قرار دیتے ہیں، ان کے قدم سے قدم ملاکر چلنے کی بات کرتے ہیں، لیکن ان کی فیس ریڈنگ اور آواز کی لڑکھڑاہٹ سے صاف پتا چلتا ہے کہ ان کا دل زبان کا ساتھ نہیں دے پارہا، زرداری نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران پارٹی کو فرینڈز کلب کے طور پر چلانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے پارٹی مخلص کارکنوں کے لیے نوگوایریا بنتی چلی گئی۔ کل تک جن لوگوں کو پارٹی کا اثاثہ کہا جاتا تھا، زرداری نے انہیں کچرا قرار دے کر سائڈلائن کردیا۔ قدآور لوگ بونے ٹھہرے اور بونوں پر اہم اور منفعت بخش عہدے نچھاور کردیے گئے۔بے نظیر کے دور تک جن لوگوں کو کسی کھاتے میں نہیں سمجھا جاتا تھا، آج وہ پی پی رہنما ہیں۔ دوسری طرف بلاول نے بھی مخلص جیالوں کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا، انہوںنے ماں اور نانا کی طرح عوامی لےڈرہونے کا تاثر دینے کی کوشش کی، مگر ان کے اس عوامی انداز میں مصنوعی پن اتنا واضح ہے کہ جیالا اسے محض ڈرامہ بازی سمجھتا ہے۔

پیپلزپارٹی اس وقت مکمل طور پر آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے۔ ان دونوں درباروں میں اخلاص کی بجائے مال اور زرداری خاندان سے وفاداری کا سکہ چلتا ہے۔ زرداریوں کی اس پالیسی نے ملک کی سب سے بڑی عوامی جماعت کو شدید بحران سے دوچار کردیا ہے۔ قیادت اور کارکنوں کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ کارکنان قیادت سے شاکی ہیں تو دوسری طرف قیادت مخلص اور پرانے وفادار کارکنوں کو لفٹ کرانے پر تیار نہیں ہے۔ اس صورت حال سے دل برداشتہ ہوکر جیالوں کی غالب اکثریت گھروں میں بیٹھ گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی آج انتخابات کسی تانگہ پارٹی کی طرح لڑرہی ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ پی پی کو انتخابی مہم چلانے مےں مشکلات کا سامنا ہے، مگر ایسی بلکہ اس سے بڑھ کر مشکلات کا سامنا تو اسے ضیا دور میں بھی تھا۔ مگر اس وقت تو جیالے خوفزدہ ہوکر گھروں میں نہیں بیٹھے تھے۔ آج بھی جیالوں کا باہر نہ نکلنا خوف کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ اس کا اصل سبب قیادت سے ناراضی ہے۔

پی پی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ آصف زرداری چونکہ صدر ہیں اس لیے وہ انتخابی مہم نہیں چلاسکتے، بلاول کی جان کو خطرہ ہے اس لیے وہ عوام کے سامنے نہیں آئیںگے، ویسے جان کے خوف سے چھپنا پی پی کی روایت نہیں رہی ہے، چلیے مان لیتے ہیں کہ پارٹی بلاول کے حوالے سے کوئی رسک نہیں لینا چاہتی۔ لیکن کیا پی پی میں عبدالرحمن ملک کے سوا کوئی ایسا شخص نہیں تھا جو انتخابی مہم کی سربراہی کرتا۔ سابق وزیر داخلہ نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ”بلاول نے مجھے انتخابی مہم چلانے کے لیے بھیجا ہے“ بے چارے جیالوں کے دلوں پر یہ جملہ سن کر کیسی چھریاں چلیں ہوں گی!! آج ایک ایسا شخص ان کی پارٹی کی انتخابی مہم کی قیادت کررہا ہے جو ان کی قائد کے قتل میںشامل تفتیش ہے۔ جیالوں کی ایک بہت بڑی تعداد عبدالرحمن ملک کو پی پی کے دوستوں کی صف کی بجائے دوسری صف میں شامل سمجھتی ہے۔کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ اجلاس اور پالیسی ساز پریس کانفرنسیں رضاربانی، قائم علی شاہ، نثارکھوڑو، سراج درانی نہیں عبدالرحمن ملک کررہے ہیں۔ یعنی ایک ایسا شخص جس کا پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں، اب وہ پارٹی کے مستقبل کے فیصلے کررہا ہے۔

عمران خان ٹھیک کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی آصف زرداری کے خودکش حملے میں ہلاک ہوچکی ہے۔ زرداری خاندان کی جانب سے پارٹی کو فرینڈز کلب بنانے کا نقصان آج جیالے بھگت رہے ہیں۔ پی پی پانچ برس حکومت میں رہی لیکن اشتہاری مہم چلانے کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے علاوہ کوئی چیز اس کے پلے نہیں، زردار ی حکومت نے عوام کو مہنگائی، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ اور بدامنی ہی دی ہے، عوام سے ایک بار پھر بھٹو کے نام پر ووٹ مانگا جارہا ہے۔ لیکن لوگ پوچھتے ہیں، آج کی پی پی کا بھٹو سے کیا تعلق ہے؟ لوگوں کا پی پی حکومت کے بارے میں کیا تاثر بن چکا ہے اس حوالے سے ایک ایس ایم ایس پیش خدمت ہے:
سڑک پر بیٹھے ہوئے ایک بھکاری نے گزر نےوالوںسے کہا ”مجھے بھےک دو، ورنہ میں پی پی کو ووٹ دے دوں گا اور وہ دوبارہ اقتدار میں آگئی، تو تم لوگ بھی ایک دن میرے ساتھ بیٹھے ہوگے“۔

munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 103416 views i am a working journalist ,.. View More