پنجاب اسٹیبلشمنٹ پر تحفظات

1893میں برٹش حکومت کے ساتھ افغانستان کے امیر عبدالرحمن اور مورٹیمر ڈیورنڈ نے نے تقسیم افغانستان کے سو سالہ معائدے پر دستخط کئے۔یہ معائدہ تاریخ میںڈیورنڈ لائن کے نام ے شہرت پایا۔معائدے کی رو سے برٹش بلوچستان میں پختون علاقے شامل اور شمال مغربی سرحد علاقے انتظامی طور پر جداکردئے گئے جبکہ اس کی مزید تقسیم فاٹا اور پاٹا کے قبائلی علاقے جات بنا کر کردی گئی۔جہاں فاٹا میں 1901ءکے تحت ایف سی آر کا نفاذ کردیا گیا جو تقسیم ہندوستان بننے کے بعدبھی موجود ہے اور آج تک پاکستانی حکومت کی رٹ وہاں قائم نہیں ہو سکی۔ پشاور کاافغانستان کے شہر ہونے کا دعوی اسی ڈیورنڈ لائن کے معائدے کی مدت کے خاتمے کے بعد قوم پرستوں کے بنیادی ایجنڈے پر شامل ہے۔خدائی خدمت گار کی روح رواں خان عبدالغفار خان کی تحریک آزادی کا بنیادی نقطہ بھی یہی ڈیورنڈ لائن کا معائدہ تھا کہ انگریز ہندوستان سے جانا چاہتا ہے تو جائے لیکن تین جنگوں کی شکست کے بعد جب وہ افغانستان پر تسلط حاصل کرے میں ناکام رہا اور ایک معائدے پر عارضی سرحد متعین کرکے انتظامی معالات مخصوص مدت تک کے لئے سنبھالے تواب استصواب رائے میں ، بھارت یا پاکستان کے علاوہ پختون عوام کی یہ مرضی بھی شامل کی جائے کہ وہ اپنی سابقہ جغرافیائی حیثیت میں واپس جانا چاہتے ہیں کہ نہیں ۔لیکن کانگریس کی جانب سے دستبرداری کے بعد خدائی خدمت گاروں کا "لر و بر یو افغان"یعنی پختونستان کا خواب پورا نہیں ہوسکا ۔چونکہ پختون سرحدی علاقوں کی اہمیت کا اندازہ بین الاقوامی قوتوں کو تھا اس لئے انھیں "ملَک" اور پولیٹیکل ایجنٹوں کے ہاتھوں اس قدر کمزور بنا دیا گیا کہ پاکستان کی تشکیل کے بعد بھی انھیں شخصی آزادی نہیں مل سکی۔ارباب اختیار کی جانب سے مسلسل ایسی پالیساں بنائی جاتی رہیں کہ پاک ، افغان سرحد کی عوام سراٹھانے کے قابل نہ رہے اوراپنے وسائل پر ہمیشہ بے اختیار رہے۔پاکستان مخالف نظریات کے حامل شخصیات کا یہ ماننا ہے کہ ان تمام سازش میں پنجاب اسٹیبلشمنٹ کا سب سے اہم رول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیشلسٹ پختون لیڈروں کی جانب سے پنجاب اسٹیبلشمنٹ کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کیا جاتا رہا ہے اور اپنے وسائل پر پنجاب اسٹیبلشمنٹ کے قبضے کے خلاف واحد حل ڈیورنڈ لائن کے معائدے کے مطابق عمل درآمد کےلئے اقوام متحدہ کا پلیٹ فارم تک استعمال کرنے کا عندیہ دیا جا چکا ہے ۔افغانستان میں اقوام متحدہ کی موجودگی اور شدت پسندوں کے خلاف کاروائیوںمیں پاکستانی حکومت کی جانب سے مطلوبہ نتائج نہ دئےے جانے کی صورت میں "مستحکم افغانستان "کے نام پر اپنے علاقے واپس لئے جانے کےلئے پاک افغان جنگ کا خدشہ اور" حق ملکیت" کےلئے بعد از جنگ اقوام متحدہ کی "ثلاثی قرارداد "کے بعد کسی بھی قسم کا غیر متوقع نتیجہ آنے کی صورت میں پاکستانی حکومت اتنی استعداد نہیں رکھتی کہ وہ بین الاقومی قوتوں کی جنگ برداشت کرسکے۔یہی صورتحال بلوچستان میں ہے جہاں قبائلی سرداروں کی جانب سے" حقوق بلوچاں" کے لئے جاری جد وجہد آزاد بلوچستان کی تحریک میں تبدیل ہوچکی ہے اور ان کے منشور کے مطابق بلوچستان کی آزادی کے بعد پشتونوں کا حق ہوگا کہ وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔کم و بیش کچھ ایسی صورتحال سندھ میں بھی ہے ، جہاں سندھو دیش کی تحریک کو قوم پرست جماعتوں نے سیاسی جماعتوں کی نا اہلیوں کی وجہ سے متحرک کیا ہوا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور سندھ علیحدگی پسندوں کے غیر فطری اتحاد کے علاوہ کچھ حلقے ان خدشات کو ابھارتے ہیں کہ پنجاب اسٹیبلشمنٹ کو اپنی حرکات کی بناءپر خدشہ ہے کہ پختون علاقے جدا نہ ہو جائیں اس لئے صوبہ ہزارہ کا" شوشہ" کھڑا کرکے، گلگت بلتستان صوبے کی آڑ میں کشمیر تک پنجاب کی سرحد کو محفوظ بنانے حکمت عملی وضع کی گئی ہے۔سندھ قوم پرست جماعت، یا بلوچستان آزادی کی تحاریک یا خیبر پختونخوا یا قبائلی علاقے جات میں جاری بین الاقوامی مفادات کی جنگ ، ان سب کا یکساں مقصد پاکستان کی وحدت اور یکجہتی کو نقصان پہنچانا ہے۔ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ شودر کوئی قوم نہیں ، بلکہ کسی قوم کی وہ کمزری اور حماقت ہے جو محکومیت سے غلامی کا باعث بنتی ہے و رنہ چندر گپت ، اشک ، کنشک جیسے حکمران شودر تھے ۔برہمن یا آریہ قوم نہیں ، بلکہ طاقت اور دانائی سے بھرپور وہ جوہر ہے جو آزادی سے حاکمیت کا باعث بنتی ہے۔ورنہ انگریزوں کے دور میں ہند کے برہمن اور تاتاریوں کے غلبہ کے وقت اکثر آریہ اقوام شودر سے بدتر مقام حاصل کرچکی تھیں۔مقام افسوس یہ ہے کہ کسی بھی حکومت نے محروم طبقے اور علاقوں کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ نہیں دی ، بلکہ ان کی تمام تر کوشش ا س امر پر رہی کہ کس طرح عوام پر مسلط رہنے کے لئے پالیسیاں مرتب کیں جائیں تاکہ ان میں خوئے غلامی سے آزادی کا ہنر پیدا نہ ہوسکے ، غلام در غلام ، اور غلام در غلام نسل کی آبیاری ہی مراعات یافتہ طبقے کا بنیادی ایجنڈا ہے۔ بد اعتمادی ، اور احترام ِ انسانیت کے فقدان نے اعتبار کے جذبے کو روند کر رکھ دیا ہے۔یہ ناقابل یقین تصور ہوگا کہ خدانخواستہ بیرونی جارحیت کے ناپاک قدم پاک سرزمیں پر اترے اور محب ِ وطن بلوچی ، سندھی صف اول کے مجاہد نہ بنیں۔یقینی طور پرپختون بھی اپنی سرشت اور خرود بود و فطرت کے مطابق بیرونی جارحیت کے خلاف کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرے گا۔کیونکہ ا س کے نزدیک ان کا وطن وہی ہوتا ہے جہاں وہ رہتا ہے ، جیتا و مرتاہے۔لیکن حکومت کی جانب سے عوام دشمن پالیسیوں کا تسلسل جاری اور ایسی فضا قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی رہے جس میں عوام کا استحصال ہو تو علیحدگی پسند قوتوں کی شر انگیزی کو دنیا کی کوئی طا قت نہیں روک سکتی،بلوچستان میں اندرونی مداخلت میں بیرونی ہاتھوں کی کار فرمائی سے پیشتر اپنے ہاتھوں سے اپنے لوگوں کا خون صاف کیا جائے۔سندھ میں چند مفادات کے خاطر ملک کی قسمت داﺅ پرلگانے سے گریز کیا جائے جس سے علیحدگی پسندوں کو عوام کی حمایت حاصل ہوجائے مگسی ، بلوچ ، تودرانی پٹھان قومیت سے تعلق رکھتے ہیں لیکن خود کو سندھ میں رہنے کی وجہ سے فخر سے سندھی کہتے ہیں اگر پاکستان کی بنیادوں میں لاکھوں انسانوں کا جانوں کی قربانی شامل نہ ہوتی تو ایک کے بعدتمام دیواریں کب کی کرچکی ہوتیںارباب اختیار ہوش کے ناخن لیں عوام دشمن پالیسیوں کو ترک کردیں کیونکہ اسی میں مملکت کی بقا شامل ہے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 659533 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.