خدا کے لئے ،زہر اُ گلنا بند کریں

میرے وطنِ عزیز کے شب و روز اور سےاسی حالات ان دنوں عجب و غریب کشمکش سے دوچار ہیں ، کس قدر دکھ اور تکلیف کا مقام ہے کہ میری پاک سر زمین ،اندرونی خلفشار،دہشت گردی ،کرپشن ،افراتفریح کی وجہ سے بھےانک دور سے گز ر رہی ہے ،رشوت کا دور دورہ ہے ،فرقہ واریت،لسانی جھگڑے ،صوبائی تعصب،کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں ،غریب کی طرف نظر جاتی ہے تو وہ پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے غربت کی چکی میں پِس رہا ہے ، ایک طرف تو غربت کا مارا اور ستایا ہوا ہے اس پر مزید ستم بالائے ستم یہ کہ طویل لوڈ شیڈنگ نے اس کی زندگی کو مزید عذاب سے دو چار کر رکھا ہے ۔

پاکستانی قوم کی بات کریں تو یہ ایک مستقل اور نہ ختم ہونے والے کرب میں مبتلا ہے ،اس قوم کی مسکراہٹ لبوں تک آتی ہے اور پھر واپس لوٹ جاتی ہے ، یہ مسکراہٹ چھیننے والے کوئی اور نہیں اسی ملک کے حکمران ہیں ،جو بظاہر ہمدردی اور خدمت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں ،ایک طویل عرصہ سے یہاں کافر کافر ،مسلم غیر مسلم،کی صدائیں بلند ہو تی رہی ہیں ،۔یہاں کے کچھ مذہبی جنونی فرقہ واریت کی آگ میں اس قدر اندھے ہو جاتے ہیں کہ، قبروں تک کی بے حرمتی کرنا ان کے نزدیک( نعوذباللہ) حصولِ ثواب کا زریعہ ہے۔

یہ واحداسلامی جمہوریہ ہے کہ جہاں فرقوں کو دائرہ اسلام سے باہر نکال کر اس پر فخر کیا جاتا ہے،خود کو بیشک اسلام کی الف تک کا بھی پتہ نہ ہو ،مگر مذہب کے ٹھیکیدار بننے کا شوق خوب پورا کر رہے ہیں ، مذہب کے نام پر خون کو ایسے ہی مذہبی جنونی جائز قرار دیتے ہیں ۔جبکہ اللہ تعالی نے تمام مذاہب کی بنیاد امن صلح ، بھائی چارے،اور پیار و محبت پر رکھی ہے۔کوئی بھی مذہب کشت و خون بہانے کی ہرگزاجازت نہیں دیتا۔ہر انسان کی جان و مال عزت و آبرو محترم ہے ۔مگرپاکستان کا کون سا ایسا طبقہ ہے کہ جس کی جان و مال عزت و آبرو سلامت ہے۔

ملک و ملت کی خدمت کا جزبہ لے کر آنے والے نامزد امیدواروں کا مذہب سے لگاﺅ اور علم بھی سب کے سامنے روزروشن کی طرح واضح ہو گیا ہے۔۔ ،اسلام سراسر امن و محبت کا مذہب ہے ،مگر اسلام کے دشمن اسی کا نام استعمال کر کے خودکش حملے کرتے ہیں ،دہشت گردی پھلاتے ہیں،اسلام کی خدمت کرنے کی بجائے اس کو بدنام کرنے اور اسلام سے متنفر کرنے پرتُلّے ہوئے ہیں ،ان حالات میں ہم کس طرح امن و سلامتی کا پرچار کر سکتے ہیں ۔ہر شخص کی بغل میں چھری اور منہ میں رام رام ہے ،کوئی کیسے ، ؟کسی سے بھی اپنے آپ کو محفوظ سمجھے۔؟؟
اک د ھند فضا پر طاری ہے
ہر دل دھڑکن سے عاری ہے
جنگل ہوتا یا جنگل کا قانون ہوتا تو تب ہم کہہ سکتے تھے کہ فلاں جانور انسان کا بچہ اغوا کر کے لے گیا ، فلاں جانور نے انسان کے ٹکڑے کر دیئے ،فلاں جانور نے انسان پر حملہ کر کے اُسے بری طرح زخمی کر دیا ،۔۔۔مگر شاید جانوروں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں ،بعض حالا ت میں ایک بڑا صاحب حیثیت،جانور بھی مجبور اور لاچار جانور کو کھانے سے گریز کرتا ہے ،یا اس کو اس کے حال پہ چھوڑ دیتا ہے،۔

مگر انسانوں کی اس بستی میں کوئی قانون نہیں ،یہاں تو مرے کو مار کر بھی تسکین نہیں ملتی ، دکھ تو اسی بات کا ہے کہ ہم معاشرے میں موجودکچھ انسان نما جانوروں کے بیچ میں رہ رہے ہیں ،جو کہ کمزور نہتے ،بے بس اور لاچار انسانوں پرحملہ آور ہیں ۔۔۔کبھی بظاہر شیر کا روپ دھارتے ہیں مگر اندر سے بھیڑیے ہیں ،اور گیدڑکی طرح بزدل ہیں ،اور یہ ہی انسان جب کبھی ہاتھ میں تیر پکڑتا ہے تو اپنے ہی لوگوں کو لہو لہو کر دیتا ہے ، انسانی حقوق پر ایسا تاک کے نشانہ باندھتا ہے کہ اسے بنیادی انسانی ضروریات سے ہی محروم کردیتا ہے ۔اور اب اس کے ہاتھ میں بلا آگیا ہے ،بجائے امن و آشتی پیار و محبت کا درس دینے کہ اس بلے کو ہوا میں لہرا لہرا کے ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے کہ اس سے مار مار کر معاشرے کو سدھارا جائے گا ۔۔ان سب عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے کہ جو کام پیار و محبت اور ہمدردی خلوص سے لیا جا سکتا ہے وہ تشدد سے نہیں کیا جا سکتا ۔ایسا لگتا ہے کہ گویا انسانیت کہیں کھو سی گئی ہے۔

کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنے منشور میں اخلاقیات پر زور نہیں دیا،جبکہ یہ ہمارے مذہب کا بنیادی جزو ہے ،اگر اچھے اخلاق اپنائیں گے تو ہی ترقی کریں گے،جب دلوں میں نفرتیں ،کدورتیں ،دشمنیاں پروان چڑھیں گی تو کیسے قدم منزل کی طرف روں دواں ہوں گے ،؟

سیاست دان ایک دوسرے کے خلاف زہر اگل رہے ہیں ۔بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ کے مصداق سپو ٹر اور کارکن جس قسم کی زبان ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر رہے ہیں اس سے تو سر شرم سے جھک جاتا ہے ،ایسی زبان کا استعمال ہرگز ایک مہذب معاشرے کا طرہ امتیاز نہیں ، ملک میں چہار جانب اس قدر ایک دوسرے کے خلاف زہر اُگلا جا رہا ہے کہ حیرت اور تکلیف ہوتی ہے۔

خدا کے لئے ،نرم اور پاک زبان کا استعمال کریں،الیکشن ضرور لڑیں ،مگر آپس میں تو نہ لڑیں۔یوں لگتا ہے کہ جیسے دشمن ملک کی فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہیں ،نہ ان میں وسعت حوصلہ ہے ،نہ ایک دوسروں کی تکلیف اور ان کے دکھ دور کرنے کی ہمت ہے، نہ ہی سچ کا پرچار ہو رہا ہے ،بس ایک اقتدار کی ہوس ہے ،ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا جذبہ ہے ۔نہ خوفِ خدا رہا ہے نہ ہی آخرت کا ڈر ہے ،ایسے میں دعویٰ ہے ملک و قوم کی خدمت کا ۔۔ارے بھئی ! جب آپ ہی ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر پا رہے تو اتنے بڑے ملک کی بھاگ دوڑ کس طرح سنبھالیں گے،یہ بات عقل و سمجھ سے ماورا ہے ۔

کوئی سمجھائے کہ ہم سمجھائیں کیا ۔۔ یوں لگتا ہے کہ ہر سیاست دان اب بس یہ ہی کہتا نظر آتا ہے کہ
یہ صرف میرا پاکستان ہے
اس کی ہر اینٹ ہما ری ہے
تم اپنا حصہ لوٹ چکے
اب ہٹو ہماری باری ہے
مریم ثمر
Saima Maryam
About the Author: Saima Maryam Read More Articles by Saima Maryam: 49 Articles with 52675 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.