یہ کیسا موت کا رقص ہے، ہر آنکھ اشک بار، ہر دل غم زدہ ہے،
مرنے والے کو نہیں پتہ اسے کیوں مارا گیا، اب تودرندوں سے نہیں انسانوں سے
خوف آتا ہے۔ سریلے ترانوں کے خالق کہاں ہیں جو یہ کہتے تھے کہ ریاست ہوگی
ماں کے جیسی۔۔۔ذرا ان جمہوری سرخیلوں کو بلاوٴ جو جمہوری دور کو دودھ اور
شہد کی بہتی نہروں سے تشبیہ د یتے ہیں، مگر ان کی طرز حکمرانی نے ملک میں
خون کی ندیاں بہا دیں، ملک میں کوئی ایسا گھر نہیں جہاں غیر فطری موت نے
دستک نہ دی ہو۔قبرستان آباد ہوگئے،لٹھے کا کاروبار چل نکلا، تابوت بنانے
والوں کی چاندی ہوگئی،گورکنوں کے گھر خوشحالی آگئی ہے، مردہ خانے کم پڑ گئے
ہیں،گھر ویران اور فلیٹ سستے، مگر قبروں کی قیمتیں چار گنا ہو گئی ہیں۔ کس
عزم سے ہم دہشت گردی کی جنگ لڑ رہے ہیں، مرنے والے بھی ہم، مارنے والے بھی
ہم۔
پھر انتخابات کا دنگل سجنے جا رہا ہے،پھر شعبدہ بازوں کے بازار لگیں گے،
پھر خوش کن نعروں کے ساتھ لوگوں کے جذبات سے کھیلا جائے گا، پھر انہیں روشن
مستقبل کی نوید سنائی جائے گی۔ ذرا ان شعبدہ بازوں کے سامنے ہلاکتوں کے ان
اعدادوشمار کوبھی پیش کریں، کہ ان کی شاندار حکمرانی، بہترین پالیسیوں اور
اعلیٰ ظرفی نے کتنے قبرستان آباد کر دیے۔ موت برحق ہے لیکن غیر فطری موت کا
اختیار شاید درندوں کو بھی نہیں، پھر ہم کس معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔
ملکی اور غیر ملکی تھنک ٹینکس اور ذرائع ابلاغ کے مطابق ملک بھر میں جاری
دہشت گردی کے واقعات میں ایک دہائی میں 46500پاکستانی شہری جاں بحق ہوئے جن
میں پانچ ہزار سے زائد سیکورٹی فورسز کے اہلکار شامل ہیں، رواں سال کے
ابتدائی دو ماہ میں1350افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔2013ء میں فرقہ
واریت کے40سے زائد پرتشدد واقعات میں تین سو سے زائد افراد جاں بحق جب
کہ1989 ء سے2013ء کے درمیاں فرقہ واریت کے لگ بھگ2785سے زائد واقعات
میں4450سے زائد افراد جاں بحق اور 8700سے زائد زخمی ہوئے۔ ڈرون حملوں سے
بھی موت کا جی بھر کھیل کھیلاگیا۔ 2004 ء سے2013ء کے درمیان 364 ڈرون حملوں
میں3573افراد جاں بحق جب کہ1463زخمی ہوئے،ان ہلاکتوں میں197بچے بھی شامل
ہیں جب کہ امریکی سینیٹر لینڈسے گراہم کے مطابق امریکا نے ڈرون حملوں
میں4700افراد ہلاک کیے۔ جن میں چند ہلاکتیں یمن کی ہیں باقی تمام
کارروائیاں پاک افغان سرحد پر کی گئی۔2001ء سے اب تک ڈاکٹروں پر32حملوں میں
30 سے زائد جاں بحق اور دو زخمی ہوئے۔2001ء سے2013ء کے دروان وکلاء پر13
قاتلانہ حملوں میں35وکلاء جاں بحق اور134زخمی ہوئے۔پاکستان میں92سے زائد
صحافیوں کو موت کی نیند سلادیا گیا ۔کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا نہ ختم ہونے
والاسلسلہ بھی جاری ہے۔ رواں برس کے ابتدائی دو ماہ میں 460افراد ٹارگٹ
کلنگ کا شکا رہوئے،ان میں50سے زیادہ تاجر قتل اور زخمی ہوئے۔گزشتہ پانچ
برسوں میں کراچی میں لگ بھگ 8ہزار افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے جن میں
صرف گزشتہ برس 2300 افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے۔رواں برس24فروری تک
8خودکش دھماکوں میں228افراد جاں بحق324 زخمی ہوئے۔ 2012ء میں365افراد
،2011ء میں628افراد ،2010ء میں167 افراد ،2009ء میں 949 افراد ،2008ء میں
893 افراد ،2007ء میں 765افراد،2006 ء میں 161 افراد خودکش دھماکوں مین
اپنی جان کھو بیٹھے۔یہ تو جانی نقصان کے کچھ اعداد وشمار تھے،معاشی
نقصان80ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے، سماجی اورنفسیاتی نقصان تو ایک الگ
المیہ ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس خون کی ہولی کے بعدکیا کسی کو سزا ملی یا کوئی
قاتل بھی تختہ دار پر لٹکا یا گیا۔ موت کا بازار گرم کرنے والے کہاں سے آئے
کہاں گئے، کچھ اتہ پتہ نہیں ۔الزام تراشی اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے
زیادہ بات بڑھ نہیں پائی۔انسانوں کے بنائے ہوئے آئین اور قوانین آسمانی
کتابیں اور صحیفے نہیں کہ انہیں تبدیل نہیں کیا جاسکتا،ان کا احترام شہریوں
پر فرض ہے، لیکن جو آئین اور قانون انسانی جان کو تحفط نہ دے سکے تو پھر ہم
کس چیز کی سلامتی کے ترانے گاتے ہیں، جس ماں کا جگرگوشہ چھن جائے اسے کس
وطن کا ترانہ یاد دلاتے ہیں، جس کا گھر اجڑ جائے اسے کس ملک کی سلامتی کا
احساس دلاتے ہیں اورکس جمہوریت کے گُن گاتے ہیں ۔ ملک بھر میں صرف 50قاتلوں
اور دہشت گردوں کو سر عام پھانسی دی جاتی ۔کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ اور
اسلام آباد میں کسی کھلے مقام پر دس دس افراد کو سرعام تختہ دار پر لٹکایا
جاتا اور اسے براہ راست ٹیلی ویژن پر دکھایا جاتا تو آج ہزاروں معصوم
شہریوں کی جان بچ جاتی، یہ بھی معلوم ہے کہ اس طرح کی پھانسی کا آئین میں
کوئی ذکر نہیں، ملکی اور غیر ملکی انسانی حقوق کی تنظیمیں وا ویلا مچاتی
ہیں، شہریوں اور بچوں کی نفسیات پر منفی اثرات کے مرتب ہونے کی باتیں کی
جاتی ہیں۔۔۔۔ذرا یہ بھی تو بتاوٴکہ ہر روز گاجر مولی کی طرح انسانوں کو
جوکاٹا جا رہا ہے،کیا اس کو ٹی وی نہیں دکھاتا، لگتا ہے کہ ایسے دل دوز
واقعات کو دیکھ کر ہماری آنکھیں پتھرا چکی ہیں، جب صورت حال انہونی شکل
اختیار کر جائے اور معاملات اور مسائل کا حل مروجہ قوانین اور طریقہ کار سے
نہ نکل سکیں تو پھر غیر معمولی راستے اپنائے جا سکتے ہیں۔ آپ آئین اور
قانون کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتے تو پھر قبرستان آباد ہوتے رہیں
گے۔سوال جمہوریت یا آمریت کا نہیں، سوال انسانی زندگی کا ہے جو سب سے مقدم
ہے، اگر غیر معمولی اقدام سے ملک میں سکون آسکتا ہے تو یہ سودا برا نہیں ،
سپریم کورٹ بھی ایسا حکم دے سکتی ہے۔ |