بھارتی دہشتگرد سربجیت سنگھ نے پاکستان کے مختلف شہروں
میں دھماکے کروائے اور درجنوں پاکستانی شہریوں کا قاتل بنا۔ یہ صرف ایک
الزام ہی نہیں بلکہ سربجیت نے اس کا خود بھی اعتراف کیا اور اس بات کا بھی
اقرار کیا کہ اس نے یہ دھماکے بھارتی انٹیلی جنس ‘را’ کے کہنے پر کیے۔
سربجیت سنگھ کو مرنے کے بعد بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کی جانب سے قوم
کا بہادر بیٹا اور قومی ہیرو قرار دیا گیا۔ بھارت کے مشرقی پنجاب میں گاؤں
بکھی وند میں سربجیت سنگھ کی چتا کو جلانے کی رسومات میں اعلٰی سیاسی قیادت
نے شرکت کرکے اس کو خراج تحسین پیش کیا۔ حکومت کی جانب سے تین روزہ سوگ کا
اعلان بھی کیا گیا۔
ان سب اقدامات کے بعد بھارتی وزیرخارجہ پھر پاکستان کو یہ دھمکی دیتے ہیں
کہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان حالات خراب ہو سکتے ہیں۔کیا بھارت کی جانب
سے کیے جانے والے مندرجہ بالا اقدامات خطے میں کشیدگی کا باعث نہیں۔
۱۹۹۱ میں سربجیت کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ جنرل مشرف نے اس کی سزائےموت
پر عمل درآمد روک دیا تھا۔ انصار برنی نے ‘امن کی آشا’ کوتقویت دینے کے لیے
جب سربجیت کو بھارت لے کر گئے تو ان پر اس کے ورثا کی جانب سے 25 کروڑ
مانگنے کا الزام لگایا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ ان اقدامات سے جب اچھے تعلقات
میں اضافہ نہ ہو سکا تو اس کی حادثاتی موت کو بنیاد بنا کر حالات کو خراب
کیوں کیا جا رہا ہے۔۔۔۔۔
سربجیت سنگھ کی لاش بھارت پہنچنے کے بعد مقبوضہ کشمیر کی کوٹ بھلوال جیل
میں برس ہا برس سے قید ایک پاکستانی شہری ثنااللہ کو بھی سر میں چوٹ لگا کر
زخمی کیا گیا جو کہ جانبر نہ ہو سکا۔ اس سے قبل اجمال قصاب اور افضل گرو کے
ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا معاملہ پیش آیا۔ وہ بھارتی تنظیمیں جو کہ‘ سربجیت
سنگھ کے معاملے کو بہت اچھال رہی ہیں وہ ثنااللہ کے معاملے میں کیوں خاموش
ہیں۔ سربجیت سنگھ کی موت پر 1965 کی جنگ میں قید ہونے والے پاکستانی سپاہی
مقبول حسین کو جب بھارت نے رہا کیا تو وہ زہنی اور جسمانی طور پر مفلوج تھا
اور اس کی ذبان کٹی ہوئی تھی۔ سپاہی مقبول حسین کے علاوہ بھارتی جیل میں ان
گنت پاکستانی قیدی اب بھی موجود ہیں اور روزانہ وحشیانہ سلوک کا نشانہ بن
رہے ہیں۔
سربجیت کی موت کو موضوع بنا کر پاکستان پر انگلیاں اٹھانے والے بھارتی
میڈیا نے کبھی بھارتی جیل میں قید بے گناہ قیدیوں کے متعلق کبھی آواز نہ
اٹھائی۔ ایک دہشتگرد کو بھارتی حکومت کی جانب سے قومی ہیرو قرار دینے پر
کبھی سوال نہ کیا بلکہ ان اقدام کو مزید سراہا گیا۔بھارتی وزارت خارجہ کی
جانب سے سربجیت کی حادثاتی موت کو حالات خراب ہونے کا ذمہ دار ٹھہرایا جا
رہا ہے لیکن ثنا اللہ ‘اجمل قصاب اور افضل گرو کی موت کسی کھاتے میں
نہیں۔۔۔۔۔۔۔ |