یہ ایک نیا نظام حکومت تھا جو فرنگی نے اپنی پوری اجتماعی
ذہنی قوت سے برصغیر پر مسلط کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے انگریزی نظام تعلیم
کے ذریعہ اس کے نفاذ کا تانا بانا مضبوط کیا۔ مجبوری تھی اور اضطراری کیفیت
میں فرنگی استبدادی دور میں ہمارے مسلم قائدین نے اسی نظام کے تحت انگریزوں
اور ہندﺅں کے دانت کھٹے کیئے۔ جبکہ کالی بھیڑیں یعنی منافقین بھی منافقین
مدینہ طیبہ کی طرح خائب و خاسر ہوئے۔انگریز کی غلامی میں تو مسلمانان ہند
کی مجبوری تھی جس کی وجہ سے انہیں اس کافرانہ نظام کے تحت اپنے حقوق کی
جدوجہد کرنی تھی لیکن پیارے پاکستان کے وجود میں آجانے کے بعد ہما رے پیارے
پاکستان میں کافرانہ نظام حکومت کی جگہ اسلامی طرز حکومت نہ لایا گیا۔ جس
کا وعدہ حضرت قائد اعظم نے فرمایا تھا۔ وہ تو سارے کام نیک نیتی اور خلوص
کے ساتھ سرانجام دے کر اپنے رب کے پاس چلے گئے لیکن انکے کئی دیرینہ رفقا
موجود تھے انہوں نے مسلمانوں سے کیئے وعدے پورے کیوں نہ کیئے ؟ کیا وہ وہی
کھوٹے سکے تھے جن کا ذکر خود قائد نے فرمایا تھا؟ میں یہ کہنے میں حق بجانب
ہوں کہ کھوٹے سکوں نے ہی پاکستان کو پاکستان نہ بننے دیا۔ جو کھرے سکے تھے
انہیں چلنے نہ دیا۔ آئین 1956 اور قرارداد مقاصد ہی برصغیر کے مسلمانوں کے
خوابوں کو شرمندہ تعبیر کر دیتا مگر۲۲ خاندانوں اور فوجی آمروں نے کوئی بیل
منڈھے چڑھنے ہی نہ دی۔ ہر اس شعبے کو بری طرح سبو تاژ کیا جس سے قومی ترقی
اور ملک کا استحکام وابستہ تھا۔ جدید دور میں قومی زبان ہی ترقی کی ضمانت
دے سکتی ہے لیکن فرنگی کے غلاموں نے قوم کو انگریزی ذریعہ تعلیم میں
الجھائے رکھا۔ کسی قوم کی تباہی کے لیئے یہی کافی ہے کہ اس سے اسکی قومی
زبان چھین لی جائے۔ انگریز کی اس منطق کو صرف جاپانی ہی سمجھے کہ انہوں نے
انگریزی پر لعنت بھیجی ۔ اور آج امریکہ اور یورپ کی سڑکوں پر جاپان کی
ٹیکنالوجی فراٹے بھرتی نظر آتی ہے۔پینسٹھ سالہ پاکستان جوانی کی منزل سے نا
آشناآدھا دھڑ کٹنے کے بعدبھی زندہ ہے اور اب تو عمران خان صاحب نے اسے
جوانی کی نئی امنگو ں سے ہمکنار کرنے کے لیئے نجانے کون سی معجون مقوی تیار
کی ہے کہ وہ اسے بالکل نیا نویلہ بنانے کا وعدہ کرتے ہیں۔نسخے کی تیاری کے
لیئے کچھ مفردات جناب چیف جسٹس آف پاکستان اور الیکشن کمیشن کے پاس ہیں۔ جو
انہوں نے آزمائے اورچھے نتائج برآمد ہوئے مگر حکمران ٹولے معاونت نہیں کرتے۔
نئے لوگ انتخابی مہم میں سابقہ حکمرانوں کو رگیدیں تو یہ ان کا حق ہے مگر
جو پہلے مختلف ادوار میں اقتدار کے مزے چکھ چکے وہ عوام کو بڑے سہانے خواب
بلکہ سبز باغ دکھا رہے ہیں۔ لیکن ہم نے عوام کے تبصرے سنے تو بات سامنے آئی
کہ ان لوگوں نے باریاں باریاں باندھی ہوئی ہیں ۔مقاصد اقتدار دونوں کے ایک
جیسے ہیں۔ موجودہ بڑے پارٹی گدی نشین کہتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت کو فوجی
آمروں نے سبوتاژ کیا جس کی وجہ سے ملک ترقی نہیں کرسکا۔مہنگائی میں اضافہ
ہوا۔ بجلی،گیس اور ریلوے کے نظام کی تباہی بھی کسی نہ کسی پر ڈالی گئی، یہ
حقیقت نہیں، لیکن اس پر بھی بات ہے کہ فوجی آمروں نے مسلم لیگیں ہی بنائیں۔
ملک کے انہی نام نہاد سیاست دانوں نے جنرل ایوب خان، جنرل ضیاءالحق مرحوم
اور جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دیا۔ ذاتی مفادات اور لوٹ مار کے لیئے ان
آمروں کا صرف ساتھ ہی نہیں دیا بلکہ انکے تمام تر سیاہ کارناموں میں یہ
برابر کے شریک رہے۔ ان فوجی آمروں نے کتنی ملکی دولت پر ڈاکہ ڈالا؟ اس بارے
میری معلومات کے مطابق کسی جنرل کا نام قومی خزانہ لوٹنے والوں میں شامل
نہیں ۔ لیکن ہمارے سیاست دان ذرا اپنا نامہ اعمال دیکھیں۔ انہیں شرم نہیں
آتی کہ جب عوام کے سامنے سٹیج پر آکر عوام اور ملک کی تقدیر بدلنے کی بات
کرتے ہیں۔ انکے کرائے کے لوگ انکے حق میں نعرہ بازی بھی کرتے ہیں۔ کس قدر
ظالم ہیں کہ اب یہ لوگ عوام کی ہڈیاں چبانے کا مصمم ارداہ کرچکے ہیں۔خدا
راب عوام اپنی جان ان شکاریوں سے بچائیں۔
خیر بقول جناب شیخ رشیداحمد صاحب کے کہ عوام کی سوچ میں جب تک تبدیلی نہیں
آئے گی ملک کی تقدیر نہیں بدلے گی اور میں عوام میں کوئی خاطرخواہ تبدیلی
نہیں پاتا۔ چلیں الیکشن ہوجائیں گے کوئی جماعت حکومت سازی کے لیئے خاطر
خواہ نشستیں حاصل نہیں کرسکے گی۔ اب اگر بڑی پارٹیوں نے مخلوط حکومت بنائی
تو نتیجہ جناب نواز شریف صاحب کی پنجاب حکومت کا نکلے گا جب اراکین اسمبلی
پانچ سات کے ٹولے کی صورت میں آتے اور لوٹ مار کے منصوبے پیش کرتے جب میاں
صاحب انکار کرتے تو اراکین صاحبان فائلیں بغل میں لے کر کہتے اچھا میاں
صاحب ہمارے کام نہیں ہوتے اب ہم اپنا راست ڈھونڈیں گے(فارورڈ بلاک بنا کرپی
پی کے اراکین اسمبلی کے ساتھ ساز باز کرتے)۔ تو اکثر ایسا ہوا کہ میاں صاحب
نے کڑوے گھونٹ پیئے ۔ بالآخر حکومت توڑنی پڑی۔ دوسری حکومت ابھی ختم ہونے
والے دور میں تین صوبوں میں بلیک میلنگ کی بنیاد پر حکومت چلتی رہی اور جو
کچھ مرکز میں ہوا ۔ اس جمہوری دور کے نتائج عوام بھگت رہے ہیں۔ اب کیا
ہوگا؟ایک فریق ملک اور قوم کو لوٹتا رہا تو دوسرا خاموش رہا تاکہ جمہوریت
کی آڑ میں لوٹ مار مکمل کرلیں اور پھر اقتدار کی بار ی دوسرے فریق کو
ملے۔کیا عوام بار بار انسانیت کے دشمنوں کو اپنے اوپر مسلط کریں گے؟ملک بھر
میں میڈیا کی بھرپور آگہی مہم سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ عوام ایک بڑی
تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔ لیکن تبدیلی زبان سے نہیں آپکے ووٹ سے آئے گی۔
اسلام کے قلعے کی حفاظت، اسلامی نظام کے نفاذ، مستحکم اسلام نظام عدل کے
نفاذ ،عوام کے حقوق کے تحفظ اور طالع آزما لٹیروں سے نجات کے لیئے آپ عوام
کے ووٹ ہی موئثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ووٹ کو دھڑے بازی میں کھیل تماشا
اور نعرہ بازی کی نظر نہ کریں ۔ بروز قیامت آپ سے اس بارے پوچھا جائے گا کہ
آپ نے لٹیروں، غاصبوں، بے نمازیوں اور دین کے مخالفوں کو کیوں کامیاب کرکے
اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے وطن کو ناپاک لوگوں کے حوالے کیا۔ اللہ
تعالی سے ملتجی ہوں کہ وہ اس ملک کے عام کو حقیقی صادق اور امین افراد کو
منتخب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ |