حلقہ این اے سترہ ایبٹ آباد میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک
انصاف کے مابین کانٹے دار مقابلہ .... جیت کس کی؟
نوٹ :مولانا عبدالقدوس محمدی معروف عالم دین اور نامور مذہبی اسکالر ہیں ،آپ
قومی اخبارات میں مختلف سیاسی ،مذہبی اور عالمی حالات پر گزشتہ کئی برسوں
سے ”اجالا“ کے عنوان سے کالم لکھتے اور تجزیہ کار کے طور پر ٹی وی ٹاک شوز
میں شریک ہوتے ہیں ۔آپ وطنِ عزیز کے سترہ ہزار دینی مدارس کے بیس لاکھ
طلباءوطالبات کی نمائندہ تنظیم وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے مرکزی
میڈیا ڈائریکٹر بھی ہیں ۔ان دنوں اگرچہ وفاقی دارلحکومت میں قیام پذیر ہیں
تاہم حلقہ این اے سترہ ایبٹ آباد کے ایک گاؤں مسینہ کلاں یونین کونسل پٹن
کلاں سے آبائی تعلق کی وجہ سے حلقے کے سیاسی نشیب فراز پر ان کی گہری نظر
ہے ۔انہوں نے حلقے کی سیاسی صورتحال کا بے لاگ تجزیہ کیا ہے جو قارئین کی
نذر ہے ۔آپ مولانا عبدالقدوس محمدی سے ان کے فون نمبر 03009569780اور ای
میل ایڈریس [email protected]پر تبادلہ خیا ل بھی کر سکتے ہیں اور فیڈ
بیک بھی دے سکتے ہیں ۔
پاکستان کے پرفضااور تاریخی مقام ایبٹ آباد میں بھی ان دنوں ملک کے دیگر
حصوں کی طرح سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں ۔ایبٹ آباد کا حلقہ این اے 17ایک
ایسا حلقہ ہے جسے سابق ایم این اے اور سابق وزیراعلیٰ صوبہ سرحد سردار
مہتاب احمد خان عباسی کا حلقہ کہا جاتا ہے اس حلقے میں سردار مہتاب ناقابل
شکست سمجھے جاتے رہے ہیں ۔ہم نے جب سے ہوش سنبھالاسردار مہتاب کی اس حلقے
میں حکمرانی دیکھی۔سردار مہتاب کے ساتھ اس علاقے کے لوگوں نے اس حد تک وفا
کی کہ انہیں بار بار فتح سے ہمکنار کروایا ۔بیک وقت قومی اور صوبائی اسمبلی
کی سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوتے رہے ۔سردار مہتاب جس نشست کو چھوڑ کر اس پر
کسی بھی گمنام شخص کو منظر عام پر لاتے لوگ اسے بھی کامیاب کروا دیتے
۔سردار مہتاب کے حوالے سے حلقے کے عام میں مثبت اور منفی دونوں طرح کے تاثر
پائے جاتے ہیں ان کے بارے میں ایک طرف تو یہ ہے کہ انہوں نے کبھی اپنی
جماعت سے بے وفائی نہیں کی ،اپنی وفاداری تبدیل کی نہ انہیں اس کی ضرورت
پیش آئی بالخصوص پرویز مشرف دور میں انہوں نے اٹک قلعے میں قید وبند کی جو
صوبتیں جھیلیں ان کی وجہ سے ان کے بارے میں عوامی ہمدردیوں میں اضافہ ہوا
۔اسی طرح سردار مہتاب کے بارے میں یہ بھی ایک مثبت پہلو ہے کہ ان کے دامن
پر کرپشن ،بدعنوانی یا بدکرداری کا کوئی داغ دکھائی نہیں دیتا تاہم ان سے
اکثر لوگوں کو یہ گلہ ہے کہ انہوں نے عوامی حمایت اور تعاون کا حق ادا نہیں
کیا ۔ان کے حلقے کے عوام نے انہیں بار بار کامیاب کروایا ،وزارت عظمیٰ کے
منصب تک پہنچایا لیکن انہوں نے اپنے حلقے کے لوگوں کے لیے کچھ نہیں کیا ۔ان
کے حلقے میں آج نہ کوئی تعلیمی ادارہ ہے ،ننہ کوئی ہسپتال ،سڑکیں ادھڑی
ہوئی ،پسماندگی اپنی تمام حدود کو پھلانگتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔اسی طرح
سردار مہتاب کے بارے میں جو منفی رائے ہے وہ یہ بھی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے
خاندان کو نوازتے رہے ۔کبھی اپنے چچازاد بھائی ،کبھی بہنوئی اور کبھی بیٹے
اور دیگر رشتہ داروں پر نوازشات کی بارش کرتے رہے کسی کو ایم این اے اور
کسی کو ایم پی اے بنایا ۔اور علاقے کے دیگر تمام لوگوں اور باصلاحیت
نوجوانوں کو نظر انداز کرتے رہے ۔یوں سردار مہتاب کی نیک نامی ،شرافت اور
وفا کی وجہ سے ان کے بارے میں ہمدردی اور ان کی اقربا پروری اور حلقے کو
پسماندہ رکھنے کی وجہ سے ان کے بارے میں غم وغصہ پایا جاتا ہے ۔
اس سے قبل کے انتخابات میں سردار مہتاب کے بارے میں عوامی گلے شکوے ان کی
حمایت تلے دب جایا کرتے تھے لیکن اب کی بار صورتحال ذرا مختلف دکھائی دیتی
ہے ۔یوں بھی محسو س ہوتا ہے کہ لوگ گزشتہ تین عشروں کی سردار مہتاب گروپ کی
حلقے پر بے ثمر اجارہ دار ی سے اکتا بھی گئے ہیں۔اس لیے اس الیکشن میں
سردار مہتاب کوخاصی مشکلات کا سامنا ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ
پہلی دفعہ اس حلقے میں مقابلے کی فضا دکھائی دے رہی ہے ۔اس دفعہ حلقہ این
اے سترہ میں متعدد امیدوار انتخابات کے اکھاڑے میں اترے ہیں لیکن اصل دنگل
ڈاکٹر اظہر جدون اور سردار مہتاب کے درمیان ہوگا ۔ڈاکٹر اظہرجدون اگرچہ
حلقے کی سیاست میں نووارد ہیں لیکن انہوں نے اس سے قبل آزاد امیدوار کی
حیثیت سے تیس ہزار سے زائد ووٹ حاصل کرکے پہلی مرتبہ اپنی موجودگی کا احساس
دلایا تھا ۔ اب کی بار ان کے پاس پاکستان تحریک انصاف کا ٹکٹ بھی ....یہ
ٹکٹ ان کی لیے رحمت بھی ثابت ہو سکتا ہے اور زحمت بھی ....رحمت اس طور پر
کہ ”سونامی ،سونامی “ کی جو رَٹ لگائی جا رہی ہے اور” تبدیلی ،تبدیلی “ کے
جو پرفریب نعرے لگائے جا رہے ہیں ان کی وجہ سے نوجوانوں اور سادہ لوح لوگوں
کا ووٹ ان کو پڑ سکتا ہے جبکہ زحمت اس طور پر کہ ایک تو تحریک انصاف میں
تقسیم اور تفریق کی خلیج بھی پائی جاتی ہے ۔پہلے تو پاکستان تحریک انصاف کے
ٹکٹ کے مسئلے پر خاصی کھینچا تانی رہی اور خدا خدا کر کے قرعہ ڈاکٹر اظر کے
نام نکلا ۔یہ داخلی تقسیم وتفریق بھی ڈاکٹر اظہر جدون کے لیے مسائل پید اکر
سکتی ہے جبکہ عمران خان کی مذہب بیزار پالیسیاں ،ان کے ہمنواؤں کی طرف سے
کبھی قرآن کریم اور کبھی دیگر مقدس حوالوں سے طنز وتمسخر کا جو طرز عمل ہے
اور پھر قادیانیوں کے سامنے کاسہ گدائی پھیلانے کے معاملے پر اس حلقے
کااسلام پسند اور روایت پرست ووٹر بلے پر مہر لگانے میں تردد محسوس کر ے گا
اور ڈاکٹر اظہر جدون کی ذاتی حیثیت ،ان کی رفاہی وفلاحی خدمات عمران خان کی
مغرب زدہ سیاسی کلچر کی بھینٹ بھی چڑ ھ سکتی ہے ۔
حلقہ این اے سترہ ایبٹ آباد کے شہری اور دیہی دو حصوں میں منقسم ہے اور پھر
چونکہ اس خطے میں برادری ازم ووٹوں پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔اس لیے
اس حلقے کی جغرافیائی حیثیت کو بھی سامنے رکھنا ہوگا ۔اس حلقے میں شامل
دیہی اور پہاڑی علاقوں میں عباسی برادری کی اکثریت ہے اس کے علاوہ
سراڑہ،ڈھونڈ(جو خود کو عباسی یاسردار کہلواتے ہیں ) ،گجر، اعوان، قریشی اور
کڑلال برداریاں بھی آباد ہیں جبکہ شہر اور مضافا ت میں جدون برادری کی
اکثریت ہے ۔اس طرح ماضی میں ہمیشہ شہری اور متصل حلقوں میں امان اللہ جدون
،فرید خان جدون اور ڈاکٹر اظہر جدون جیسے کسی بھی جدون امیدوار کا پلڑہ
بھاری رہتا تھا جبکہ دیہی اور پہاڑی علاقوں میں سردار مہتاب کا طوطی بولتا
تھا لیکن اب کی بار ذرا صورتحال مختلف ہے اور یہ تفریق اور تقسیم گڈ مڈ
ہوتی ہوئی محسوس ہورہی ہے ۔اس الیکشن میں ایک طرف امان اللہ خان جدون جو
مسلم لیگ (ق ) کے دور حکومت میں وزیر بھی رہے وہ بالکل غیر محسوس طریقے سے
حلقے کی سیاست سے بالکل آو ¿ٹ ہو گئے ۔اب ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ
انہوں نے ڈاکٹر اظہر جدون کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے ۔اسی طرح سردار
گلزاز عباسی جو پاکستان پیپلز پارٹی کے ایبٹ آباد کے صدر ہیں اور مسلسل
ہارنے کے حوالے سے ایک منفرد ریکارڈ رکھتے ہیں لیکن اپنے علاقے مولیا ،بکوٹ
وغیرہ میں ان کا اثر ورسوخ بھی ہے وہ بھی ڈاکٹرا ظہر جدون کے حق میں
دستبردار ہو چکے ہیں ۔اس طرح ڈاکٹر اظہر جدون کی پوزیشن خاصی مستحکم ہو چکی
ہے ۔لیکن دوسری طرف سردار مہتاب بھی اس حلقے کا ایک ایسا قلعہ ہے جسے بہت
آسانی سے سر نہیں کیا جاسکتا ۔سردار مہتاب ایک گھاگ اور سینئر سیاستدان ہیں
جو بہت سے داؤ پیچ جانتے ہیں ۔سید یوسف رضا گیلانی کی برطرفی کے بعد ہونے
والے وزارت عظمی ٰ کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن)کی طرف سے سردار
مہتاب کو وزارت عظمی ٰ کے امیدوار کے طور پر سامنے لانے کو بھی ان کے حامی
بڑی مہارت سے کیش کروا رہے ہیں اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ آنے والے دور
میں حکومت ،پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ہے اور سردار مہتاب کے سر پر وزارت
علیا یا وزارت عظمیٰ میں سے کوئی ایک ہما ضروربیٹھے گا۔ اس طرح ان کے
حامیوں کا مورال بھی خاصا بلند ہے۔ یوں آمدہ الیکشن میں اس حلقے میں کانٹے
دار مقابلے کی توقع کی جارہی ہے جو بنیادی طور پر سردار مہتاب اور ڈاکٹرا
ظہر جدون کے مابین ہو گا تاہم تحریک صوبہ ہزارہ کے بابا حیدر زمان ،متحدہ
دینی محاذ کے حاجی ایاز خان جدو ن اور جماعت اسلامی کے حبیب الرحمن عباسی
حصہ بقدر جثہ وصول کرنے میں کامیاب رہیں گے ....بہرحال فیصلہ گیارہ مئی کو
ہوگا کے جیت کس کا مقدر بنتی ہے اس سے پہلے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ |