کیا کروں جانبداری کا ٹھپا لگا یا جائے یا سیاسی مخالف
کہا جائے حقیقت آخر حقیقت ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ حقیقت اپنے آپ کو منوا
لیتی ہے 17سال سے جاری عمران خان جو جنگ لڑ رہا ہے وہ اس ملک کے نوجوانوں
کی جنگ ہے پہلے تو تحریک انصاف کو سرے تسلیم ہی نہیں کیا گیا 30اکتوبر جب
عمران خان نے لاہور مینار پر پاکستان پر اپنی بھرپور سیاسی قوت کا مظائر ہ
کیا تو سب پریشان ہو گئے تھے ان کو چپ لگ گئی تھی اقتدار خطرے میں محسوس ہو
نے لگا تھا آج کچھ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نواز آئندہ حکومت بنا
رہی ہے اور مقابلہ پی پی پی اور نواز لیگ کا ہے تو میں انہیں سمجھانے کی
کوشش کرتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے اب نواز شریف کی باری نہیں آنے والی
بوکھلاہٹ کا شکار ہیں وہ سب جوباریاں لگاتے تھے ان کی پارٹیا ں فیملی
لیمٹیڈ ہیں میرٹ نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے وہا ں ہو کیا گیا ہے آپ لوگوں
کو اپنی انکھوں پر کیوں پٹی باندھے بیٹھے ہو دیکھو تو سہی پارٹی انتخابات
کروا کر عمران خان نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کی پارٹی میں میرٹ ہے وہ
جمہوریت پر یقین رکھتا ہے ۔فیصلہ کرنے کی خداداد صلاحتیں ہیں اس میں فیصلہ
کرتا ہے اور اس کو ٹھیک ثابت کرتا ہے مخالفین کم نہیں ایک بڑ ی تعداد مخالف
ہے مگر نوجوان وہ نوجوان جن کو اپنی نوکری فکر نہیں اس ملک کے مستقبل کی
فکر ہے وہ اس کے ساتھ ہیں جنون دیکھنے کے قابل ہے ان کا اسی لیے اسی لیے
میں کہتا ہوں بہت مشکل ہے بہت مشکل کہ آپ عمران خان کو شکست دے سکیں چونکہ
کپتان نے تو ہارنا سیکھا ہی نہیں اور اس کے بقول وہ17سال سے اس میچ کا
انتظار کر رہا ہے مقابلہ ہو گا اور سخت مقابلہ لیکن فتح تو آکر حق اور سچ
کی ہوتی ہے نا !تو انساف پسندوں کو فتح سے کوئی نہ روک پائے گا اب جیئے
بھٹو اور شیر آیا شیر آیا کہ نام پر ووٹ نہیں ملنے والے اب پاکستان بدل گیا
ہے یہاں کے لوگوں کا مزاج بدل گیا ہے اب وہ ووٹ اپنے مفادات کے لیے نہیں
بلکہ پاکستان کے مفادات کے لیے دیں گے نالیاں پکی کروانے کے لیے نہیں لوڈ
شیڈنگ اور امن و امان کے مسائل کو حل کروانے کے لیے ہو گا دو بھائی مل کر
ایک جلسہ کرتے ہیں تو کپتان ایک دن چار جلسے کرتا ہے تجزیہ نگاروں کا کہنا
ہے کہ کپتان کی الیکشن کمپین نے بھٹو کی کمپین کو بہت پیچھے چوڑ دیا ہے ۔ہم
ایک ہی سوراخ سے کئی مرتبہ ڈست جا چکے ہیں اب اس کے متحمل نہیں ہو سکتے ووٹ
کی طاقت کا استعمال سوچ سمجھ کر نہ کیا تو پانچ سال پھر ایسے ہی روتے روتے
گزریں گے ۔میڈیا میں الیکڑانک ہو یا پرنٹ سب میں نواز لیگ کو کوریج میں
برتری حاصل نظر آ رہی ہے جنگ اخبار کے ایک بڑے کالم نگار جس کا ہدف اصل روز
سے ہی عمران خان رہا ہے عمران خان کو مشتعل خان اور تحریک انصاف کو
جانبازوں کو طفلان انقلاب بھی کہا یہاں تک کہ جہاں تک کی ان سے امید ہی
نہیں تھی لیکن برداشت اور برداشت کا وہ مظائرہ کیا انصافین نے کہ ان کے
حوصلے کو داد دی جانی چاہی -
پوری کوشش کی تھی پوری کوشش کی کے ملک کی تاریخ کے اس اہم ترین انتخابات
میں پاکستان بھر میں جا کرعوام کا جوش جنون دیکھوں ان تبدیلی رضا کاروں سے
ملوں جو کپتان کا پیغام عام کرنے میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں ان بلوچ کے
ان بہادر نوجوانوں سے ملتا جو انتہائی کشیدہ حالا ت کے باوجود بھی انصاف کا
پیغام عام کرنے لگے ہیں خیبر پختون خواہ کہ ان نڈر نوجوانوں سے ملتا جو بم
دھماکوں کے دھویں میں امن کا پیغام دے رہے ہیں اور قوم کو ایک نئی صبح کا
پیغام دے رہے ہیںسندھ کے ان جوانوں سے ملتا جو ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں
کے باوجود بھی ڈٹے ہوئے ہیں کہ ہم عمران خان کو پیغام عام کرنے سے نہیں
رکیں گے ان لاکھوں کشمیریوں سے ملتا جنہوں نے پاکستا ن کے انتخابات میں آہم
ترین کردار ادا کر کہ اپنا ووٹ تحریک انصاف کے حق میں استعمال کر نا ہے اس
عظیم عورت سے ملتا جس نے اپنا زیور عمران خان کو بیج دیا کہ پارٹی فنڈ میں
شامل کیا جائے اور ساتھ میں پیغام دیا کہ ''پتر عمران اس ملک نوں اناں
چوراں تو بچا لے''اس بوڑھے چچا سے ملتا جس نے کہا کہ بتا نہیں زندگی مزید
کتنا وقت مہلت دے گی لیکن عمران خان کو ملک کا وزیر آعظم دیکھنا چاہتا
ہوںپشاور کے اس انقلابی نوجوان عاشق خان سے ملتا جس نے تحریک انصاف کے جلسے
میں شرکت کے لیے 100کلو میٹر سے زائد کا سفر پید ل تہہ کیا اور اپنا موبائل
اور میموری کارڈ بیچ کا رات گزاری لیکن بد قسمتی ہے کہ طبیعت ناساز ہے کچھ
مصروفیت کی وجہ سے بھی ایسا نہ ہو سکے گا لیکن ایک چیز حقیقت ہے اور اٹل
حقیقت کہ اگر جعلی ٹھپے لگانے والے کامیاب نہ ہوئے تو کپتان کو جیتنے سے
کوئی نہ روک پائے گا ۔
ایک نظم اور پھر اختتام کہ
وہ دن بھی آنے والا ہے
جب جشن منایا جائے گا
انصاف کی فتح کا سورج
اس روز چمکنے والا ہے |