قارئین کرام سید ابوالاعلیٰ
مودوی کی شہرہ آفاق کتاب َ َ الجہاد فی الاسلام َ َ کے دیباچے میں سے لیا
گیا ایک اقتباس آپ لوگوں کی خدمت پیش کررہے ہیں۔اس کتاب کا مطالعہ ہم نے
پہلے بھی کیا تھا لیکن موجودہ صورتحال میں ایک بار پھر اس کا مطالعہ شروع
کیا ہے۔ یہ کتاب کم و بیش ستر بہتر سال پہلے لکھی گئی تھی لیکن اس کے
مندرجات پر غور کریں تو ایسا لگتا ہے کہ گویا آج کے ماحول کی بات کی جارہی
ہے اور ایک لحاظ سے بات درست بھی ہے کیوں کہ اسلام کے خلاف سازشیں تو ہر
دور میں ہوتی رہی ہیں۔ اسلام کی تعیلمات پر حملہ ہر دور میں ہوتا رہا ہے
اور اس وقت کے حالات میں اور آج کے حالات میں ایک مماثلث یہ ہے کہ اس وقت
بھی انگریز سامراج نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے اسلام کے ایک اہم
فریضہ جہاد کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی اور آج اسی جہاد کو دہشت گردی کا
نام دیا جارہا ہے۔ ۔یہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسلام کی تعلیمات کے بارے
میں معذرت خواہانہ رویے کے بجائے لوگوں کے سامنے من و عن بیان کردی
جائیں۔سید ابوالاعلیٰ اس کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ : دور جدید میں
یورپ نے اپنی سیاسی اغراض کےلیے اسلام پر جو بہتان تراشے ہیں ان میںسب سے
بڑا بہتان یہ ہے کہ اسلام ایک خونخوار مذہب ہے اور اپنے پیروں کو خونریزی
کی تعلیم دیتا ہے -اس بہتان کی اگر کچھ حقیقت ہوتی تو قدرتی طور پر اسے اس
وقت پیش ہونا چاہیے تھا جب پیروان اسلام کی شمشیر خارا شگاف نے کرہ ارض میں
ایک تہلکہ برپا کررکھا تھا اور فی الواقع دنیا کو یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ
شاید ان کے یہ فاتحانہ اقدامات کسی خونریز تعلیم کا نتیجہ ہوں مگر عجیب بات
ہے کہ اس بہتان کی پیدائش عروج اسلام کے غروب ہونے کے بہت عرصہ بعد عمل میں
آئی -اس خیالی پتلے میں اس وقت روح پھونکی گئی جب اسلام کی تلوار تو زنگ
کھا چکی تھی مگر خود اس بہتان کے مصنف، یورپ کی تلوار بے گناہوں کے خون سے
سرخ ہو رہی تھی اس نے دنیا کی کمزور قوموں کو اس طرح نگلنا شروع کردیا تھا
جیسے کوئی اژدھا چھوٹے چھوٹے جانوروں کو ڈستا اور نگلتا ہو-اگر دنیا میں
عقل ہوتی تو وہ سوال کرتی کہ جو لوگ خود امن و امان کے سب سے بڑے دشمن
ہوں-جنہوں نے خود خون بہا بہا کر زمین کے چہرے کو رنگین کر دیا ہو، جو خود
دوسری قوموں پر ڈاکے ڈال رہے ہوں، آخر انہیں کیا حق ہے کہ اسلام پر وہ
الزام عائد کریں جس کی فرد جرم خود ان پر لگنی چاہیئے؟ کہیں اس تمام
مورخانہ تحقیق و تفتیش اور عالمنہ بحث و اکتشاف سے ان کا یہ منشاء تو نہیں
کہ دنیا کی اس نفرت و ناراضی کے سیلاب کا رخ اسلام کی طرف پھیر دیں جس کے
خود اُن کی اپنی خونریزیوں کے خلاف امنڈ کر نے کا اندیشہ ہے؟ لیکن انسان کی
یہ کچھ فطری کمزوری ہے کہ جب وہ میدان میں مغلوب ہوتا ہے تو مدرسہ میں بھی
مغلوب ہوجاتا ہے، جس کی تلوار سے شکست کھاتا ہے اس کے قلم کا بھی مقابلہ
نہیں کرسکتا، اور اسی لیے ہر عہد میں دنیا انہی افکار و آراء کا غلبہ رہتا
ہے جو تلوار بند ہاتھوں کےقلم سے پیش کیے جاتے ہیں- چناچہ اس مسئلہ میں بھی
دنیا کی آنکھوں پر پردہ ڈالنے میں یورپ کو پوری کامیابی ہوئی اور غلامانہ
ذہنیت رکھنے والی قوموں نے اسلامی جہاد سے متعلق اس کے پیش کردہ نظریہ کو
بلا تحقیق و تفحص اور بلا ادنیٰ غور و خوض اس طرح قبول کرلیا کہ کسی آسمانی
وحی کو بھی اس طرح قبول نہ کیا گیا ہوگا۔
گزشتہ اور موجودہ صدی میں مسلمانوں کی طرف سے بارہا اس اعتراض کا جواب دیا
گیا اور اس کثرت کے ساتھ اس موضوع پر لکھا جاچکا ہے کہ اب یہ ایک فرسودہ
اور پامال سے مضمون معلوم ہوتا ہے- مگر اس قسم کی جوابی تحریرات میں مَِیں
نے اکثر یہ نقص دیکھا کہ اسلام کے وکللاء مخالفین سے مرعوب ہوکر خودبخود
ملزموں کے کٹہرے میں جا کھڑے ہوتے ہیں اور مجرموں کی طرح صفائی پیش کرنے
لگتے ہیں-بعض حضرات نے تو یہاں تک کیا کہ اپنے مقدمہ کو مضبوط بنانے کے لیے
سرے سے اسلام کی تعلیمات اور قوانین ہی میں ترامیم کر ڈالی،اور شدت مرعوبیت
میں جن جن چیزوں کو انہوں نے اپنے نزدیک خوفناک سمجھا انہیں ریکارڈ پر سے
ہی غائب کردیا تاکہ مخالفین کی نظر اس پر نہ پڑ سکے-لیکن جن لوگوں نے ایسا
کمزور پہلو اختیار نہیں کیا ان کے ہاں بھی کم از کم یہ نقص ضرور موجود ہے
کہ وہ جہاد وقتال کے متعلق اسلامی تعلیمات کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان نہیں
کرتے اور بہت سے پہلو اس طرح تشنہ چھوڑ جاتے ہیں کہ ان میں شک و شبہ کی بہت
کچھ گنجائش باقی رہتی ہے- غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے اصلی ضرورت اس امر
کی ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ اور قتال بغرض اعلائے کلمہ الہٰی کے متعلق
اسلام کی تعلیمات اور اس کے قوانین کو بے کم وکاست اسی طرح بیان کر دیا
جائے جس طرح وہ قرآن مجید، احادیث نبوی، اور کتب فقہیہ میں درج ہیں- اُن
میں سے کسی چیز کو نہ گھٹایا جائے نہ بڑھایا جائے، اور نہ اسلام کے اصلی
مشاء اور اسکی تعلیم کی روح کو بدلنےکی کوشش کی جائے، میں اس طریقہ سے
اصولی اختلاف رکھتا ہوں کہ ہم اپنے عقائد و اصول کو دوسروں کے نقطہء نظر کے
مطابق ڈھال کر پیش کریں- دنیا کا کوئی ایک مسئلہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں
تمام لوگ ایک نقطہ نظر پر متفق ہوں-ہر جماعت اپنا ایک الگ نقطہ نظر رکھتی
ہے اور اسی کو صحیح سمجھتی ہے،(کل حزب بما لدیھم فرحون ) پس ہم دوسروں کے
نقطہ نظر کی رعایت سے اپنے اصول و عقائد کو خواہ کتنا ہی رنگ کر پیش کریں
یہ ناممکن ہے کہ تمام مختلف الخیال گروہ ہم سے متفق ہوجائیں اور سب کو
ہمارا وہ مصنوعی رنگ پسند ہی آجائے-اس لیے زیادہ بہتر طریقہ یہ ہےکہ ہم
اپنے دین کے عقائد اور احکام کو، اس کی تعلیمات اور اس کے قوانین کو ان کے
اصلی رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کردیں، اور جو دلائل ہم ان کے حق میں رکھتے
ہیں انہیں صاف صاف بیان کردیں، پھر یہ بات خود لوگوں کی عقل پر چھوڑ دیں کہ
خواہ انہیں قبول کریں یا نہ کریں، اگر قبول کریں تو زہے نصیب، نہ قبول کریں
تو ہمیں اس کی پرواہ نہیں -یہ دعوت و تبلیغ کا صحیح اصول ہے جسے ہمیشہ اے
ارباب عزم لوگوں نے اختیار کیا ہے۔خود انبیاء علیھم السلام نے بھی اسی پر
عمل کیا ہے۔
میں بھی ایک عرصہ تک اس ضرورت کو محسوس کررہا تھا ،مگر احساس ضرورت سے بڑھ
کر عمل کیجانب کوئی اقدام نہ کرسکتا تھا کیوں کہ اس کام لے لیے بڑی فرصت
درکار تھی اور فرصت ہی ایک ایسی چیز تھی جو کسی اخبار نویس کو میسر نہیں
آتی
لیکن دسمبر ١٩٢٦ کی آخری تاریخوں میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے مجھے
مشکلات سے قطع نظر کرکے اقدام عمل پر مجبور کردیا٠ یہ واقعہ شدھی تحریک کے
بانی سوامی شردہا نند کے قتل کا واقعہ تھا جس سے جہلاء اور کم نظر لوگوں کو
اسلامی جہاد کے متعلق غلط خیالات کی اشاعت کا ایک نیا موقع مل گیا ،کیونکہ
بد قسمتی سے ایک مسلمان اس فعل کے ارتکاب کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا
اور اخبارات میں اس کی جانب یہ خیالات منسوب گئے تھے کہ اس نے اپنے مذہب کا
دشمن سمجھ کر سوامی کو قتل کیا ہے، اور یہ کہ اس نیک کام کے کرنے سے وہ جنت
کا حقدار ہے-حقیقت کا علم تو خدا کو ہے مگر منظر عام پر جو کچھ آیا وہ یہی
واقعات تھے -ان کی وجہ سے عام طور پر اسلام کے دشمنوں میں ایک ہیجان پیدا
ہوگیا انہوں نے علمائے اسلام کے اعلانات اور اسلامی جرائد اور عمائد ملت کی
متفقہ تصریحات کے باوجود اس واقعہ کو اس کی طبعی حدود تک محدود رکھنے کے
بجائے تمام امت مسلمہ کو بلکہ خود اسلامی تعلیمات کو اس کا ذمہ دار قرار
دینا شروع کردیا اور اعلانیہ قرآن کریم پر اس قسم کے الزمات عائد کرنے لگے
کہ اس کی تعلیم مسلمانوں کو خونخوار و قاتل بناتی ہے، اس کی تعلیم امان و
امان سلامتی کے خلاف ہے اور اس کی تعلیم نے مسلمانوں کو ایسا متعصب بنا دیا
ہے کہ وہ ہر کافر کو گردن زدنی سمجھتے ہیں اور اسے قتل کر کے جنت میں جانے
کی امید رکھتے ہیں- بعض دریدہ ذہنوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ دنیا میں جب
تک قرآن کی تعلیم موجود ہے امن قائم نہیں ہوسکتا اس لیے تمام عالم انسانی
کو اس تعلیم کو مٹانے کی کوشش کرنی چایئے- ان خیالات کی نشرواشاعت اس کثرت
سے کی گئی کہ صحیح الخیال لوگوں کی عقلیں بھی چکرا گئیں اور گاندھی جیسے
شخص نے جو ہندو قوم میں سب سے بڑے صائب الرائے آدمی ہیں،اس سے متاثر ہوکر
بتکرار اس خیال کا اظہار کیا کہ : اسلام ایسے ماحول میں پیدا ہوا ہے جس کی
فیصلہ کن طاقت پہلے بھی تلوار تھی اور آج بھی تلوار ہے
اگرچہ یہ تمام خیالات کسی تحقیق اور علمی تفحص پر مبنی نہ تھے، بلکہ طوطی
کی طرح وہی سبق دہرایا جارہا تھا جو “استاد ازل“ نے سکھا رکھا تھا، مگر ایک
غیر معمولی واقعہ نے ان اوہام میں حقیقت کا رنگ پیدا کردیا تھا جس سے
ناواقف لوگ آسانی کےساتھ دھوکا کھا سکتے تھے۔ چونکہ ایسی عام بدگمانیاں
اشاعت اسلام کی راہ میں ہمیشہ حائل ہوتی ہیں اور ایسے ہی مواقع ہوتے ہیں جن
میں اسلام کی صحیح تعلیم کو زیادہ صفائی کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے
تاکہ غبار چھٹ جائے اور آفتاب حقیقت زیادہ روشنی کے ساتھ طلوع ہو ۔ |