تجسس انسانی فطرت کا خاصہ رہا ہے اور اس کے بل بوتے پر انسانی ذہن نے مختلف
ادوار میں جو کار ہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ان کو دیکھ کر عقل دنگ رہ
جاتی ہے۔ اسکے باعث امکانات کے اسرار کھلتے ہیں اور انسانی سوچ کو بلند
فضاؤں میں پرواز کی لذت حاصل ہوتی ہے۔ اب جبکہ شعوری بالیدگی کا دور دورہ
ہے اور نئے نئے انکشافات نے پرانے اور دقیانوسی تصورات کی جگہ لے لی ہے دور
حاضر کے مسلسل سائنسی انکشافات نے حقائق بیان کر کے شعوری پستی کی آنکھیں
چکا چوند کر دی ہیں۔ اگر پچھلی ابتدائی صدیوں کے انسان کو آج کے دور کے
سلسلہ زندگی کو دیکھنے کا موقعہ ملے تو وہ سو فیصد غیر یقینی حالت میں چلا
جائے گا کیونکہ پرانے وقتو ں میں ایک انسان کیلئے ہوا میں اڑنا، سمندر کے
پانی میں سفر کرنا دور دراز کے فاصلے گھنٹوں میں طے کرنا یا پھر لاکھوں کلو
میٹر دور بیٹھے شخص کو اپنی آنکھوں کے سامنے نہ صرف دیکھنا بلکہ بات بھی کر
لینا یا پھر زمین کے کسی بھی کونے سے دوسرے کونے میں پلک جھپکتے میں بات کر
لینا یا پھر اسے پیغام بجھوا دینا کسی حیرت انگیز بات سے کم نہیں۔ مگر آج
کے انسان نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ یہ زمین ساری کی ساری اس کی دسترس میں آ
گئی ہے اور یہ دنیا اب ایک چھوٹے سے بچے کے آگے صرف Mouse کی ایک Click کے
فاصلے پہ ہے۔ جبکہ فاصلے سمٹ چکے ہیں اور دنیا ایک Global Villiage کی شکل
اختیار کر چکی ہے ۔ یہاں تک کہ دنیا کے ایک کونے میں سرکنے والے پتھر کی
بازگشت دوسرے کونے میں سنائی دیتی ہے۔ مگر ہمارے دنیا کو ماپنے اور جاننے
کے پیمانے وہی صدیوں پرانے ہیں؟
یہ بات بہت اہم ہے کہ اگر اس پرانی صدی کے انسان کو ہماری اس دنیا میں رہنے
کا موقع ملے تو اس کیلئے یہ سب کچھ جو وہ دیکھے گا کسی طلسم ہوش ربا سے کم
نہیں ہوگا۔ مزید براں یہ سارے طلسمات ایک عام انسان کی دسترس میں ہیں کہ وہ
نا صرف گھر بیٹھے دور دراز کے حالات اور دنیا کی خبر رکھ سکتا ہے بلکہ زمین
کے کسی بھی کونے میں ہونے والے حالات اسکی نظروں کے سامنے ہیں لہٰذا اس
انسان کیلئے ہوا میں اڑنا اور دور دراز کے رابطے کیلئے پریشان ہونا اور دور
کی خبریں حاصل کرنے کیلئے تگ و دو کرنا کتنا مضحکہ خیز ہوگا؟ پہلے وقتوں
میں یہ سب باتیں شخصی کمالات کے زمرے میں آتی تھیں اور ان کی ضرورت بھی تھی
کیونکہ وسائل محدود تھے اور کسی کو بھی ٹیلی فون، ٹیلی ویژن، جہاز، گاڑی کی
سہولیات میسر نہ تھی بلکہ ان کا تصور بھی نہ ہوگا اب جبکہ یہ سب کچھ ہو چکا
تو ان علوم پر وقت ضائع کرنا جن سے یہ کمالات حاصل ہوں مندرجہ بالا جائزہ
کے پس منظر میں کتنا مضحکہ خیز ہوگا؟
اب روایتی شخصیت پرستی کا دور ختم ہو چکا ہے پہلے اگر راکھ کی ایک چٹکی
کوئی خاص آدمی کسی عام آدمی کو دیتا تھا تو وہ آنکھیں بند کر کے منہ میں
رکھ لیتا تھا کہ یہ کوئی خاص آدمی کا کمال ہے اور واقعی شفا بخشی بھی نظر
آتی تھی مگر آج سائنسی ترقی علوم کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو گئی کہ راکھ
کے اندر بھی شفا بخشی کی صلاحیت موجود ہے جیسا کہ ہومیو پیتھک طریقہ علاج
میں Carbo Veg کے نام کی راکھ سے دوا بھی موجود ہے۔ ارتقا ء کا دھارا اب
کسی دوسری طرف گامزن ہے ۔ یہ شعوری بالیدگی کا دور ہے اب بہت سے طلسمات کا
جادو ٹوٹ چکا ہے۔ پہلے پہل بہت سی باتیں جن کو جادوئی تصور کیا جاتا تھا اب
ان کی بھی کوئی نہ کوئی طبعی توجیہہ بھی کی جا سکتی ہے۔ ع اس موڑ سے آگے
منزل ہے مایوس نہ ہو دراتا جا
اس زمین پر ظہور انسانی سے ہر دور کے لوگوں کا چند ایک سوالات سے واسطہ
پڑتا رہا ہے جیسا کہ اس کائنات کا بنانے والا کون ہے؟ زمین پر زندگی کا
آغاز کیسے ہوا؟ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ہم کیوں پیدا ہوئے اور کیو ں مر جاتے
ہیں؟ آیا ان سب معاملات کے پس پردہ کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی ہے یا پھر
سارا عمل خود بخود ہو رہا ہے۔ ہر دور کے لوگوں میں کائنات کے خالق کو جاننے
کا جوش و خروش پایا جاتا ہے (یہاں ایک اصول واضح کرتا چلو ں کہ اگر کوئی
شخص کسی مسئلے کا حل تلاش نہ کر سکے تو پھر اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس
مسئلے کو مختلف زاویوں سے جانچے۔ یعنی تمام امکانات کا جائزہ لے) اکثر
اوقات دیانتداری سے مسئلہ کو حل کرنے کی کاوش خودبخود ہی مسئلہ کو آسان بنا
دیتی ہے۔ لہٰذا انہی خطوط پر چلتے ہوئے لوگوں میں معاملات زندگی کو سمجھنے
کی سوجھ بوجھ پیدا ہو گئی ہے۔ یہ جاننے کیلئے کہ اس کائنات کا خالق کون ہے۔
لوگوں نے اس کائنات (آفاق) کی تخلیق سے متعلق تحقیق کرنا شروع کر دی۔
کائنات کے راز کو جاننے کیلئے مختلف روش اختیار کی گیں۔
لوگو ں کے ایک گروہ نے آفاق کو اپنا مر کز چن کر کائنات کے اسرار کو جاننے
کیلئے اسکا ظاہری مطالعہ شروع کر دیا نتیجہ نا صرف قوانین اور مظاہر قدرت
کو جانا بلکہ انتہائی مفید مشینری، الیکٹرانکس کے آلات و دیگر ایجادات کا
ایک ڈھیر لگا دیا۔ ان تحقیقات کی بدولت سائنس نے ترقی کی اور نت نئی
ایجادات کا لا متناہی سلسلہ چل پڑا لہذا مستقل جستجو نے طبعی (Physical)
اور زیستی(Biological) قوانین کے راز فاش کرنے شروع کر دیئے۔ سائنس اور
ٹیکنالوجی میں پیش رفت کے باعث آج کا جد ید دور ان لوگوں کی مستقل تحقیقات
اور جدوجہد کا نتیجہ ہے جنہوں نے اس کائنات کا ظاہری مطالعہ کیا۔ یہ تحقیق
اپنی مسلسل پیش رفت کے باعث قدرت کے رازں کو مسخر کرنے پر گامزن ہے ۔
علاوہ ازیں لوگوں کے دوسرے گروہ نے بجائے اس کے کہ زندگی کی حقانیت کو آفاق
میں تلاش کیا جائے خود انہوں نے ایک دوسری روش اختیار کی۔ ان لوگوں کی سوچ
تھی کہ اگر اس ظاہری کائنات کا کوئی خالق ہے تو ان کے وجود (جسم )کا بھی
کوئی خالق ہوگا؟ لہٰذا اس سوچ سے وہ بھی اس تخلیق کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور
ہیں۔ اپنی توجہ کائنات کے ظاہری وجود سے ہٹا کر اپنے وجود ( نفس) کے اسرار
کی کھوج میں لگا دی۔ اس طرح انہوں نے آفاق سے ہٹ کہ مطالعہ نفس میں دلچسپی
لی اور اپنی ذات پہ تجربات کا ایک سلسلہ شروع کیا تا کہ اپنے اندر کے رازِ
حقیقت کو سمجھا جائے اس طرح سے علم نورانی اور تصوف کے سلسلے نے وجود پکڑا
یہاں یہ بات واضع کرتا چلوں کہ تمام تجربات انسان کے اپنے (Software ) یعنی
ذہن (MIND) پہ کئے گئے نہ کہ جسم پہ۔ (جاری) |