محترم بھائی فرقان خان السلام
علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ امید ہے کہ خیریت سے ہونگے اور اللہ کے دین کے
لیے اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہونگے۔ محترم بھائی مجھے بڑی خوشی ہے کہ آپ
کے اندر دین کا درست فہم عام کرنے کی لگن ہے اللہ آپ کی اس سعی کو کامیاب
کرے۔آمین
برادر میں ایک بار پھر معذرت کے ساتھ آپ سے کچھ اختلاف کرنے کی جسارت
کرونگا پہلی بات تو یہ کہ میں آپ کو یہ ساری باتیں میل بھی کرسکتا تھا لیکن
آُپ نے ایک اوپن فورم پر اپنا مؤقف پیش کیا ہے اور میں اس سے اختلاف رکھتا
ہوں تو میں بھی مجبوراً اپنا مؤقف اس فورم پر پیش کرونگا۔ اس بات کو محسوس
نہ کیجئے گا کیوں کہ میں نے یہ دیکھا ہے کہ آپ کچھ جذباتی واقع ہوئے ہیں
اور عام سی باتوں کو بھی اپنے اوپر فرض کرلیتے ہیں اس لیے خدارا اس بات کو
یہ مت سمجھئے گا کہ میں کوئی آپ سے پرخاش رکھتا ہوں اس لیے آپ کی بات کی
مخالفت کررہا ہوں اور چونکہ آپ نے اس آرٹیکل میں بنیادی بات ہی یہ کہی ہے
کہ قرآن کو سمجھنا اور پڑھنا کسی مخصوص گروہ کا حق ہے اس لیے میں اپنی بات
کی وضاحت کے لیے کسی عالم کا کوئی حوالہ نہیں دونگا بلکہ عقلی طور اس کا
جائزہ لیکر اس کی روشنی میں بات کرونگا، پھر اگر آپ کو کسی بات سے اختلاف
ہو تو میں آپ کی تشفی کے لیے بھی اور اپنی اصلاح کے لیے بھی ہر وقت حاضر
ہوں۔
پہلی بات تو یہ کہ آپ نے ایک صاحب علم کا حوالہ دیا ہے لیکن یہ واضح نہیں
کیا یہ صاحب علم کون ہیں؟؟ اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ بات کرنے والا خود
کون ہے کیوں کہ ہماری تاریخ یہ بتاتی ہے کہ آئمہ کرام نے کئی احادیث کو صرف
اس لیے مسترد کردیا اور کئی کو ضعیف قرار دیا کہ اس کے راویان مستند نہ تھے
اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ دین کی تشریح کرنے والا
بذات خود کون ہے؟ اس بات کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہوجاتی ہے کہ آج کل
اسلام میں تفرقہ پھیلانے کےلیے دین کی من مانی تعبیرات کی جارہی ہیں اور
پاکستان میں ایک لابی بے عمل فنکاروں کو بھی سامنے لاکر اسلامی احکام کی
تشریح ان سے بیان کراتی ہے۔ دیکھیں بات یہ نہیں ہے کہ ایک فنکار اسلامی
احکام کی تشریح نہیں کرسکتا بلکہ بات یہ ہے کہ ایک فرد کے اپنے وجود پر
اسلام کا کوئی اثر نہیں ہوتا اس کا چہرہ سنت نبوی سے مزین نہیں ہوتا۔اس کے
شب و روز اللہ کی معصیت میں گزرتے ہیں۔ وہ پوری دنیا کے سامنے کبائر کا
ارتکاب کررہا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دین کی تشریح بھی پیش کرتا ہے۔؟
اس کے علاوہ غامدی فکر کو بھی فروغ دیا جارہا ہے اور معذرت کے ساتھ یہ بات
بھی عرض کردوں کہ تاریخ کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اسلام میں جب بھی
کوئی فتنہ پیدا ہوا ہے اس نے سب سے پہلے عام مسلمانوں کی یہ باور کرایا ہے
کہ علماء تنگ نظر ہیں ان کی سوچ محدود ہے اس لیے ان کو زیادہ اہمیت نہ دی
جائے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اگر آپ اس بات کو محسوس نہ کریں تو یہ
بات بھی عرض کروں کہ قادیانی فتنہ نے بھی سب سے پہلے علماء پر ہی حملہ کیا
اور ان پر گھناؤنے الزامات لگائے۔( فرقان بھائی یہ بات محض حوالے کے لیے
بیان کی گئی ہے اس کو ذاتیات پر مت شمار کیجئے گا مجھے یقین ہےکہ آپ مجھ سے
زیادہ باعمل مسلمان ہیں )
آپ کی بات بجا کہ قرآن کی تعبیر و تشریح کسی مخصوص گروپ کا حق نہیں ہے لیکن
بھائی میرے کیا نعوذ باللہ ہمارے نزدیک قرآن کی اہمیت ایک عام زبان سے بھی
کم ہے کہ ہم انگریزی کی تعلیم حاصل کرنا چاہیں تو اس کے لیے بڑے بڑے سینٹر،
اچھے اچھے اساتذہ اور ماہر فن کی خدمات حاصل کریں۔ یہاں تک کہ اگر ہمارے
گلی محلے میں کوئی لینگویج سینٹر قائم ہوتا ہے تو عموماً ہم اس کو اہمیت
نہیں دیتے کہ یہ غیر مستند ہے ہم انگریزی سیکھنے کے لیے تو مستند اور اعلیٰ
تعلیمی اداروں میں جائیں، قابل اساتذہ سے رابطہ کریں لیکن قرآن کے ساتھ یہ
ظلم کہ کوئی بھی فرد اٹھ کر یہ کہے کہ میں اس کی تشریح کرسکتا ہوں اور کسی
عالم کی ضرورت نہیں ہے؟ یہاں تک کہ عربی زبان کی بنیادی تعلیم کو بھی ضروری
نہیں سمجھا جاتا ہے۔ ایسا کیوں؟
دیکھیں اگر ہمارے ہاتھ پر بندھی ہوئی ایک سو ڈیڑھ سو روپے کی معمولی گھڑی
بھی خراب ہوجاتی ہے تو ہم خود سے کوئی کام نہیں کرتے بلکہ ایک گھڑی ساز کے
پاس جاتے ہیں۔لیکن دین کے ساتھ ہمارا کیا معاملہ ہے؟
لیکن آپ نے ایک صاحب علم کی
جو یہ بات کی ہے کہ ( آج سے بارہ یا تیرہ سو برس پہلے کے مفسرین کے اقوال
کو حرف آخر مان لیا جائے تو اسلامی سوسائٹی ایک آہنی قفس میں بند ہو کر رہ
جائے گی اور زمانے کے ساتھ ساتھ نشونما کا اسے موقع نہیں ملے گا۔ یہ پھر
ایک ابدی اور عالمگیر دین نہیں رہے گا بلکہ جس زمان و مکان میں اس کا نزول
ہوا تھا، یہ اسی تک محدود رہے گا۔ ) میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں لیکن اس
سے یہ مطلب کہاں نکلتا ہے کہ کوئی بھی فرد اپنی جانب سے قرآنی آیات کی
تعبیر کردے ایک گلوکار ایک وقت میں گانا گائے،شمیوزک کے ساتھ ڈانس کرے
نامحرمات کے ساتھ، گانے میں محبوبہ کے جسم کی تعریف بیان کرے اس کے خدوخال
بیان کرے اور پھر اس کے ساتھ ہی وہ ایک انتہائی عالم و فاضل کی طرح لوگوں
میں دین کی تبلیغ بھی کرے؟
اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ہے کہ اگر ہر فرد ہر گروہ قرآن کو اپنے فہم و
علم کے مطابق پیش کرے گا تو لامحالہ ان میں اختلافات بھی پیدا ہونگے اور
معذرت کے ساتھ یہ نہیں ہوسکتا کہ تمام کے تمام ہی گروہ جو اسلامی احکامت کی
الگ الگ تشریح پیش کر رہے ہوں وہ سارے درست ہوں ان میں کوئی غلط ہوگا اور
کوئی درست لیکن اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ لازمی بات ہے کہ اس کا فیصلہ کوئی
عالم دین ہی کرے گا جس نے اپنی زندگی کے چودہ پندرہ سال اس دین کے علم کو
سیکھنے میں صرف کیے ہونگے۔ دیکھیں اس بات کو سمجھنے کے لیے بھی میں ایک
مثال دیتا ہوں، آپ بھی ماشاء اللہ جدید تعلیم یافتہ ہیں آپ بھی امتحانات
میں شرکت کرتے رہے ہیں آپ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ امتحان میں
پوچھے گئے سوال کا اگر ہر طالب علم اپنے فہم کے مطابق جواب دیگا تو کیا وہ
درست مانا جائے گا؟ یقیناً اس بات کا جواب یہی ہوگا کہ نہیں بلکہ صرف اس
طالب علم کا جواب درست مانا جائے گا جس نے متعلقہ مضمون کے پوچھے گئے سوال
کا جس طرح اساتذہ نے معروف تعریف بیان کی ہوگی اس کے مطابق جواب دیگا وہی
جواب درست ہوگا نا! یا ہر طالبعلم چاہے کچھ بھی لکھ دے وہ درست ہوگا؟ اگر
ہر طابعلم جو اپنے فہم کے مطابق امتحانی پیپر حل کر کے آئے اور اس کے
جوابات کو درست مان لیا جائے کہ جی کوئی بات نہیں اس نے اپنے فہم کے مطابق
جو لکھا درست لکھا ہے تو میرے خیال میں ہر سال جو ہزاروں طالبعلم امتحانات
میں فیل ہوتے ہیں وہ فیل نہ ہوں۔ غور کریں کہ جب ایک عام سے دنیاوی مضمون
میں تو مستند اساتذہ کی بیان کردی کتابوں سے استفعادہ کیا جائے اور اس کے
مطابق بیان کیا گیا جواب درست مانا جائے تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ قرآن
جسی عظیم کتاب کا کوئی بھی فرد اپنے فہم کے مطابق تشریح و تعبیر کرے وہ
درست مان لی جائے۔ یہاں یہ بھی ایک ظلم ہے کہ کمپیوٹر کے معاملے میں ہم ایک
ماسٹرز آف کمپیوٹر کی بات کو ہم دوسروں کی بات سے زیادہ اہمیت دیں گے اس
لیے کہ اس نے کمپیوٹر کا علم حاصل کیا ہے۔ ہم کسی مرض کے علاج کے لیے ایک
عام آدمی کی بات کے بجائے ایک ڈاکٹر کی بات کو زیادہ اہمیت دیں گے کیوں کہ
اس نے طب کا علم حاصل کیا ہے ۔ہم سڑک کی تعمیر یا پل بناتے وقت ایک انجینر
کو بلاتے ہیں اس کی بات کو اہمیت دیتے ہیں لیکن دین کے ساتھ ہمارا معاملہ
یہ ہے کہ کسی بھی مسئلہ پر ہم من مانی تعبیر پیش کر کے کہہ دیں کہ جی مجھے
یہ بات اچھی طرح معلوم ہے اور کسی عالم کی ضرورت نہیں ہے اور ہمارا وہ عالم
دین جس نے اپنی زندگی اس دین کے علم کے حصول میں گزار دی ہمارے نزدیک اس کی
کوئی اہمیت نہیں ہے۔کیا یہ ظلم نہیں ہے۔؟
اگر ہم آپکی اس بات کو درست مان لیں تو پھر آج طالبان کی یا صوفی محمد کی
مخالفت کیوں کی جارہی ہے؟ آپ کے نظریہ کے مطابق اس نے قرآن کی جو تعبیر
درست سمجھی اس کا وہ حامی ہے اس کا وہ پرچار کررہا ہے۔ طالبان نے قرآن کی
جو تعبیر اپنے فہم و فراست کے مطابق سمجھی ہے اس پر وہ عمل کرتے ہیں پھر اس
بات پر اعتراض کیوں؟ پھر اس نظریہ کی روشنی میں تو آپکا صوفی محمد کے
جمہوریت کو غیر اسلامی و غیر شرعی قرار دینے کے بیان اعتراض کرنا اور اس کی
مذمت میں کالم لکھنا بلکل غلط ثابت ہوتا ہے۔ پھر آج جو لوگ بشمول متحدہ
قومی موومنٹ نظام عدل کی مخالفت کر رہے ہیں وہ غلط کر رہے ہیں۔ کیوں کہ
طالبان نے اور صوفی محمد نے اپنے فہم کے مطابق جو درست سمجھا اس کی انہوں
نے جدوجہد کی اور ایک منتخب پارلیمنٹ کے باشعور اور پڑھے لکھے ممبران نے
اکثریت کے ساتھ اس کی تائید کی ہے پھر اعتراض کس بات کا ؟ اور اگر یہ بات
درست ہے تو پھر جناب الطاف حسین صاحب کو ایک علماء و مشائخ کنونشن بلانے کی
ضرورت کیوں پیش آئی؟ دیکھیں اگر ہم یہ کہیں کہ طالبان یا صوفی محمد غلط ہیں
تو ثابت بھی کرنا ہوگا اور پھر اس کا فیصلہ بالآخر علماء کرام ہی کریں گے
اور میں دعوے کے ساتھ یہ بات کہتا ہوں کہ آپ کے بیان کردہ یہ صاحب علم بھی
طالبان، صوفی محمد، یا کسی بھی مذہبی گروہ کی بات سے اگر اتفاق نہیں کریں
گے تو وہ بھی اس کو غلط ثابت کرنے کے لیے تاریخ سے اور قدیم علماء کی تفسیر
سے ہی رجوع کریں گے تو پھر؟ جب ہم نے علماء ہی سے رجوع کرنا ہے تو ان کو بے
توقیر کیوں کیا جارہا ہے؟ پھر سب کی توپوں کا رخ اسلام پسندوں کی جانب کیوں
ہے؟ پھر اسلام پر یہ ظلم کیوں کیا جارہا ہے؟
میری یہ باتیں حرف آخر نہیں ہیں اور ان سے کسی کو اختلاف ہوسکتا ہے اللہ
مجھے اور آپ کو دین کے احکامات پر عمل کرنےکی توفیق عطا فرمائے۔آمین |