’یہ جمہوریت ہے نافرمانی یا ناراضگی نہیں

پاکستان میں ماضی میں ہونے والے عام انتخابات کےموقع پر کنبے کے سربراہ یا بزرگ کی مرضی سے ووٹ دینے کا رجحان دیکھا جاتا رہا ہے لیکن 11 مئی کو ہونے والے انتخابات میں یہ رجحان بدلتا دکھائی دے رہا ہے۔

اس مرتبہ ایک ہی گھر کے مکین کسی ایک سیاسی جماعت کو ووٹ دینے پر متفق نظر نہیں آ رہے۔ جہاں بیوی ووٹ دینے کے معاملے پر شوہر کی ’باغی‘ ہیں وہیں ایسے بچے بھی ہیں جو والد یا والدہ کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ ان کی پسند کے امیدوار یا جماعت کو ووٹ دے دیں۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ انیس سو ستّر کے انتخابات کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب آزاد انداز میں ووٹ دینے کا رحجان پنپتا نظر آ رہا ہے۔

صائمہ اسد بھی ان خواتین میں ایک سے ہیں جو ووٹ دینے کے معاملے پر اپنے شوہر کے فیصلے سے اختلاف کر رہی ہیں۔ وہ خود تحریک انصاف کی حمایت کررہی ہیں جبکہ ان کے شوہر کا تعلق مسلم لیگ نون کے ساتھ ہے۔

صائمہ اسد کا کہنا ہے کہ جب سے ان کی شادی ہوئی وہ اسی جماعت کو ووٹ دیتی تھیں جس جماعت کو ان کے شوہر ووٹ دیتے رہے ہیں لیکن اس بار وہ ایسا نہیں کر رہیں۔ ان کے بقول انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق اس جماعت یا امیدوار کو ووٹ دیں گی جو ملک کی بہتری کے لیے کام کرے گا۔

ان انتخابات میں بچے بھی والدین کی رائے سے اتفاق نہیں کر رہے اور وہ اپنے والدین کی مرضی کے برعکس اپنی پسند کے امیدوار یا جماعت کو ووٹ دے رہے ہیں۔

جس طرح ان انتخابات میں کچھ بچے والدین کی مرضی کے مطابق امیدوار نہیں چن رہے اسی طرح کچھ بہن بھائی بھی انتخابی اختلافات کا شکار نظر آتے ہیں۔

ثناء خان کے بھائی اور ان کی بہن تحریک انصاف کو ووٹ دے رہے ہیں لیکن خود نثاء خان مسلم لیگ نون کی حامی ہیں ۔ ان کاکہنا ہے کہ وہ ہر صورت میں اپنی پسند کی جماعت کو ووٹ دے دیں گی کیونکہ انتخابات کا مطلب ہی ووٹ کے ذریعے اپنی رائے یا پسند کا اظہار ہے۔

سینیئر صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ گھرانے امیدواروں اور جماعتوں کے چناؤ میں بٹ گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے 1970 کے انتخابات میں اس طرح کا رحجان نظر آیا تھا تاہم بعد میں ووٹ ’پرو بھٹو‘ اور ’اینٹی بھٹو‘ میں تقسیم ہوگیا تھا۔

سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عکسری رضوی کہتے ہیں کہ جمہوریت کے لیے یہ رحجان اچھا ہے کہ لوگ سوچ کر ووٹ دیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت اس رحجان میں جوش کا عنصر غالب ہے حالانکہ اس رحجان میں خوش مندی اور منطق کی ضرورت ہے۔

سہیل وڑائچ نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ ووٹ دینے کا جو رحجان ان انتخابات میں نظر آرہا ہے اور وہ زیادہ دیر نہیں چلے گا اور انتخابات کے بعد نئی سمت اور راہوں کا تعین ہوگا۔

Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 258538 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More