جمعیت علماءاسلام بھی نشانے پر

انتخابات سر پر آپہنچے،صرف تین دن بعد ہی بلند و بانگ نعروں کی قلعی کھل جائے گی ، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا،ہر سیاستدان اپنے حلقے میں مدمقابل کو چت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ایک ایک دن میں کئی کئی جلسے عوام کو اپنا گرویدہ بنا کر ووٹ ہتھیانے کے لیے سرتوڑ کوشش کی جارہی ہے،لیکن انتخابات کے اس سارے ماحول میں خوف و دہشت کا راج بھی نمایاں نظر آرہا ہے۔کئی دن سے سیاسی جماعتوں کے امیدواروں اور دفاتر پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ان حملوں میں کئی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کئی عمر بھر کے لیے اعضاءگنوا چکے ہیں۔

اس کی تازہ مثال گزشتہ دو دنوں میں جمعیت علماءاسلام کے جلسوں پر چند گھنٹوں میں ہونے والے دو انتہائی تباہ کن دھماکے ہیں۔پہلا دھماکا وسطی کرم ایجنسی کے علاقے سیواک میں جے یو آئی ف کے امیدوار منیر اورکزئی خان کے انتخابی جلسے میں ہوا، اس افسوسناک واقعے میں پچیس سے زائد افراد جاں بحق اور نوے کے لگ بھگ افراد زخمی ہوئے۔ جلسہ ایک مقامی مدرسہ میں منعقد کیا گیا تھا جس میں لگ بھگ تین ہزار افراد شریک تھے۔ دھماکا جے یو آئی (ف) کے جلسے میں اسٹیج کے قریب ہوا، قومی اسمبلی کے امیدوار منیر اورکزئی خان جیسے ہی اسٹیج سے نیچے اترے دھماکا ہوگیا، تاہم وہ دھماکے میں محفوظ رہے، جبکہ این اے 37 سے امیدوار عین الدین شاکر زخمی ہوئے،فوری طور پر زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق دھماکا اتنا زور دار تھا کہ آواز دور دور تک سنی گئی اور پورا علاقہ لرز گیا، جائے وقوع پر زخمیوں کی چیخیں تھیں اور وہ مدد کے لیے پکار رہے تھے، مقامی لوگوں نے فوری طور پر اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کو پارہ چنار اور صدہ کے ہسپتالوں میں منتقل کیا۔ این اے 37 کے حلقے میں ہونے والے اس مشترکہ جلسے میں قبائلی عمائدین کی ایک بڑی تعداد شریک تھی۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی لیویز فورس جائے حادثہ پر پہنچ گئی اور علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔کچھ ہی دیر میں مقامی افراد کی بڑی تعداد خون کے عطیات دینے ہسپتال پہنچ گئی۔ صدر زرداری، نگران وزیراعظم، نوازشریف، شہباز شریف،مولانا فضل الرحمن، عمران خان،سید منور حسن، الطاف حسین، حافظ محمد سعید، طاہر القادری، وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی اور دیگر نے دھماکو کی مذمت کی ہے۔واضح رہے کہ منیر اورکزئی اس سے پہلے بھی اسی حلقے سے آزاد ا ±میدوار کی حیثیت سے انتخابات جیت چکے ہیں اور فاٹا سے پارلیمانی ممبر بھی تھے۔اس دفعہ وہ جمعیت علماءاسلام (ف) گروپ کی جانب سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ دوسرا دھماکا منگل کے روز ہنگو کی تحصیل دوآبہ کے مرکزی بازار میں جے یو آئی کے امیدوار مفتی سید جانان کی انتخابی مہم کے قریب ہوا جس کے نتیجے میں پندرہ کے لگ بھگ افراد جاں بحق اور امیدوار مفتی سید جانان سمیت چالیس کے قریب افراد زخمی ہوئے، ریسکیو ٹیمیوں نے موقع پر پہنچ کر زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا، دھماکے کے بعد سیکورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر کرفیو نافذ کردیا ہے۔واضح رہے کہ جمعیت علماءاسلام اور دوسری کئی جماعتوں پر اس سے پہلے بھی کئی حملے ہوچکے ہیںجو معمولی نوعیت کے تھے جن میں اتنے زیادہ افراد نہیں مارے گئے تھے، لیکن ان دو حملوں میں شاید سب سے زیادہ جانی نقصان ہوا ہے۔

بعض حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ طالبان متعدد بار یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ ہم جماعت اسلامی، تحریک انصاف، جمعیت علماءاسلام اور مسلم لیگ(ن) پر حملے نہیں کریں گے۔ گزشتہ دنوں تحریک طالبان پاکستان کا یہ بیان میڈیا پہ آیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کسی سیاسی جماعت پر حملہ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ طالبان شوری کرتی ہے۔ اس وقت سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنانے کا طالبان شوریٰ کا فیصلہ صرف سابق حکمراں جماعتوں تک محدود ہے۔طالبان ترجمان کے مطابق شوریٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام (ف) ، جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف جیسی جماعتوں پر حملے نہیں کیے جائیں گے۔احسان اللہ احسان کا کہنا تھا کہ مخصوص جماعتوں کو نشانہ بنانے کا پہلا سبب ان کے سیکولر نظریات ہیں جبکہ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ان جماعتوں کی وجہ سے ہی فاٹا، خیبرپختونخوا اور سوات جل رہے ہیں اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔ یہی پارٹیاں پشتونوں کی ابتر حالت، مساجد کی تباہی، فوجی آپریشنز اور برسوں سے جاری خونی کھیل کی ذمے دار ہیں۔ اب انھیں اپنے گناہوں کی سزا بھگتنا ہوگی،تحریک طالبان پسے ہوئے لوگوں کا بدلہ لیتی رہے گی۔احسان اللہ احسان کا کہنا تھا کہ کسی سیاسی جماعت کو نشانہ بنانے یا نہ بنانے کا فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ انھیں کس طرح ٹارگٹ کیا جائے۔ ٹارگٹ نہ بنائی جانے والی جماعتوں کے بارے میں تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے کہا کہ طالبان ان جماعتوں کے خلاف ہیں اور نہ ہی ان کے حق میں،لیکن ان سے کسی اچھائی کی بھی توقع نہیں ہے۔احسان اللہ احسان کا موقف تھا کہ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا، اسلامی قوانین اور اقدار اللہ کی جانب سے ہیں جبکہ سیکولر نظریہ کانٹ، بینتھم اور روسو جیسے فلسفیوں کا تیار کردہ ہے۔ان کا کہنا تھا اگرچہ ہم اس نظام کے خلاف ہیں لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام (ف) ، جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف جیسی جماعتوں پر حملے نہیں کریں گے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ جب طالبان نے ان جماعتوں پر حملے نہ کرنے کی یقین دہانی کروادی ہے تو پھر جمعیت علماءاسلام (ف) کے جلسوں پر حملے کون کروا رہا ہے؟

گزشتہ روزجے یو آئی کے امیدوار مولوی عین الدین نے کہا ہے کہ ہماری جماعت کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے، ہمیں یہ یقین نہیں کہ یہ حملہ طالبان نے کیا ہوگا، بلکہ یہ کوئی اور معاملہ ہے، یا یہ منیر اورکزئی کی ذاتی دشمنی ہے۔لیکن طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ منیر اورکزئی پر ہم نے ہی حملہ کیا ہے، کیونکہ منیر اورکزئی نے درجنوں عرب مجاہدوں کو امریکا کے حوالے کیا ہے جو اس وقت گوانتانامو کے قیدخانے میں بند ہیں۔ تحریک طالبان کے ترجمان احسان اللہ نے کہا ہے کہ منیر اورکزئی گزشتہ 5 برس حکومت کا حصہ رہے ہیں۔ منیر اورکزئی نے پیپلز پارٹی اور اے این پی کی حکومتوں کی حمایت کی جنہوں نے ہمارے خلاف کئی آپریشن شروع کیے، ہم نے جے یو آئی کو نشانہ نہیں بنایا، بلکہ ہم نے تو اپنے سابقہ دشمن کو ہی نشانہ بنایا ہے جس نے ہمیں نقصان پہنچایا ، ہمارے دشمن چاہے کسی بھی پارٹی میں چلے جائیں ان کو نہیں چھوڑیں گے۔اسی وجہ سے منیر اورکزئی جب ممبر قومی اسمبلی تھے تو اس وقت ان کو تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے دھمکیاں بھی ملی تھیں۔بعض حضرات یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہر حملہ طالبان نہیں کرتے ، اگرچہ کوئی اور کرتا ہے لیکن طالبان اپنی دھاک بٹھانے کے لیے اس کی ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں اور بعض دفعہ میڈیا اپنی طرف سے ہی طالبان کا نام استعمال کرتا ہے ۔ بعض کا یہ خیال بھی ہے کہ ان حملوں میں کوئی دوسری قوت ملوث ہوسکتی ہے۔

اسی بنا پر بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ جمعیت علماءاسلام کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی جماعت میں ایسے لوگوں کو شامل نہ کرتی جو ماضی میں دوسری جماعتوں کا حصہ رہتے ہوئے طالبان کے خلاف آپریشن کرتے رہے یا پھر کسی بھی طرح سے ان کے خلاف دشمنی مول لیتے رہے، ان چند افراد کی وجہ سے باقی جماعت کے لیے خطرات پیدا ہوسکتے ہیں،اگر طالبان نے جمعیت علماءاسلام کو اپنے حملوں سے مستثنا ءقرار دیا ہے تو جے یو آئی کو چاہیے کہ وہ ان لوگوں کو شامل ہی نہ کرے جن کی وجہ سے جماعت کسی بڑے سانحہ سے دوچار ہو۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 635813 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.