معراج نے بوتل کے دھکن جتنے چائے کے کپ کو ایک ہی چسکی میں آدھا کرتے
ہوئے سیف کی جانب بڑھا دیا تھا۔سیف اور معراج یہاں کرم دین چاچا کے دھابے
پر ایک ہی پلیٹ میں نہ صرف تین وقت کا کھانا تناول کرتے بلکہ ایک ہی کپ میں
پانی پتی بھی پیتے تھے۔ایک ساتھ ایک برتن میں کھانا پینا اِن کی ایک دوسرے
سے لازوال عقیدت مندانہ دوستی یا محبت کی نشانی نہ تھی اور نہ ہی دونوں
کنجوس تھے ۔بلکہ وجہ اِن کے جسموں پر موجود لنڈے کی شرٹوں اور پینٹوں کی
بڑی بڑی جیبوں کے باوجود اُن میں ”پُرانے پاکستان “ کے بانی قائداعظم کی
تصویروں والے نوٹون کی قلت تھی(نوٹ: پرانا پاکستان اِس لیے کہا کیونکہ اب
ایک ”نیا پاکستان“ بھی بننے جا رہا ہے )۔سیف اور معراج دونوں متوسط طبقے سے
تعلق رکھتے تھے۔اور دو سال قبل اپنی اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈگریوں کے
ہمراہ شہرِ کراچی جیسے روشنیوں کے شہر میں اعلیٰ اور معقول نوکریوں کی چاہ
میں آ بسے تھے۔سیف مانسہرہ اور معراج گجرات سے تعلق رکھتا تھا اور اِن
دونوں کا مِلن اِسی چاچا کرم دین کے چھوٹے سے ڈھابے پر ہی ہوا تھا۔دونوں
سارا دِن شہرِ کراچی کی ملیر سے لیکر کورنگی تک اور اللہ والا ٹاﺅن سے لیکر
تمام مِل ایریاءبلال چورانگی تک اور کبھی صدر سے لیکر اورنگی منگو پیر تک
اور کبھی لیاقت آباد سے نیپا اور حسن اسکوائر تک،سڑکیں ناپتے ....کیماڑی،کلفٹن
،بولٹن وغیرہ شائد ہی کراچی میں ایسی جگہ رہ گئی ہو جہاں انہوں نے معقول
نوکریوں کیلئے اپلائی نہ کیا ہو۔شام کو تھکے ہارے سیدھا چاچا کے ڈھابے پر
آن پہنچتے۔اِن کی رہائش کا بندو بست بھی چاچا کرم دین نے اپنی ہی کھولی میں
کر رکھا تھا ۔اِس علاقے میں بھی الیکشن کی گہما گہمی عروج پر تھی۔
دونوں گورنمنٹ کے نوکر بننے کے خواب دیکھتے ۔مگر حالات اور قسمت نے انہیں
پرائیویٹ فرموں کے دروازے کھٹکھٹانے پر بھی مجبور کردیا تھا۔گورنمنٹ کے ہر
ادارے سے انہیں ذاتی نفرت سی ہونے لگی تھی اور پرائیویٹ فرمز میں بھی اِن
کا کوئی سفارشی لیٹر نہ تھا ۔گورنمنٹ اداروں سے کدورت بڑھتے چلے جانے کی
مین وجہ اِن کا پھٹے حال ہونا تھا ۔اِن کے پاس لوکھوں اور کروڑوں روپے نہ
تھے کہ کوئی عہدہ پانے کیلئے رشوت کی عوض دے سکیں۔اور نہ ہی یہاں اِن کی
کمال کی ذہانت ،ایمانداری،مخلصی،حب الوطنی،اعلیٰ تعلیم اور ڈگریاں کام آ
رہی تھیں۔مسندِ اقتدار پر بیٹھے اعلیٰ عہدیداروںاور زمینی خداﺅں کی ملی
بھگت اور کرپشن کی آزادی نے اِن دونوں کے والدین کی دعاﺅں کو بھی پسِ پردہ
رکھ دیا تھا۔انہیں میر ٹ کہی نظر نہ آیا۔دونوں کی خداداد صلاحتیں کچھ چارہ
گر ثابت نہ ہو پائیں۔سوائے اصلی ڈگریوں،ذہانت،ہمت،لگن ، حوصلہ کے سوا اِن
کے پاس اور کچھ نہ تھا۔یا چند بوسیدہ دعائیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ دونوں کی بیکلی بڑھتی چلی جا رہی تھی۔سیف نے علاقے کے
نمبر دارکو اُس کی رقوم واپس کر کے اپنے رہائشی مکان کی رہن شدہ رجسٹری
چھڑوانی تھی،جبکہ معراج نے اپنی ماں کی بینائی کا کامیاب آپریشن کر واکے
اُنہیں پھر سے دنیا کی رونقیں دیکھنے کے قابل بنانے کے خواب کو عملی جامہ
پہنانا تھا۔اِن نوجوانوں کا مقصد اِس قدر عظیم اور پختہ تھا کہ جوانی کے
اِس ڈگمگاتے دور میں بھی دونوں کی نظر کِسی خاتون کے قدموں کا پیچھا نہ
کرتیں۔ہرجانب الیکشن کا زور نظر آہا تھا تمام اخبارات بھی سیاست دانوں کی
کھٹی میٹھی باتوں سے لبریزتھے۔ اُس صبح سیف نے ڈھابے پر اخبار میں الیکشنوں
کی خبر میں ایک اہم خبر پڑھی تھی جِس کا تبصرہ معراج سے شام کو اُس کی آمد
پر کرنا شروع کیا”یار معراج ہماری زندگی بھی کیا زندگی ہے ہم اصلی اور رات
دِن کی محنت سے حاصل کردہ ڈگریاں ہاتھوں میں تھام کر ڈگر ڈگر دھکے کھا رہے
ہیں جبکہ جاہل لیڈر اور سیاست دان چند ٹکوں کے عوض حاصل کردہ جعلی ڈگریوں
کے ساتھ ہم پر مسلط ہو رہے ہیں“۔یہ کہتے ہوئے سیف کی آنکھیں نم ہو چکی
تھیں۔معراج نے کچھ دیر خامشی اختیار کرنے کے بعد زبان کو حرکت دی ۔”تو ٹھیک
کہتا ہے سیف ہماری رات دِن کی محنت ،ہمارے والدین کی خون پسینہ کی کمائی سے
ادا کی گئی مٹھی مٹھی بھر فیسیں ،ہماری ذہانت اور ڈگریاں کِسی کام کی نہیں
۔یہاں اندھا قانون ہے ،جِس کی لاٹھی صرف اُسی کی بھینس ہے۔اگر ہمارے پاس آج
لاکھوں روپے ہوں تو اِن اصلی ڈگریوں کے بنا ہی کِسی اہم پوسٹ پر فائز ہو
جائیں،تو یہ ڈگریاں کِس کام کی“۔
سیف نے بے چینی سے تڑپ کر کہا” تو ٹھیک کہتا ہے یارا یہ ڈگریاں کِسی کام کی
نہیں ہیں انہیں خاکستر ہی کردینا بہتر ہے “۔
”نہیں میرے دوست سیف نہیں....!تو نے الیکشن کی بات کی ہے نہ کہ الیکشن سر
پر ہیں اب تو دیکھنا یہ الیکشن ہی ہمارے دکھ درد کی دوا بنیں گے “۔معراج نے
اِس بار بڑی عقلمندی سے سمجھانے کی کوشش کی۔
ایک سال کا عرصہ گزر گیا تھا۔الیکشن کب کے ختم ہوچکے تھے اور جھوٹے وعدے
کرنے والے سچ میں اقتدار پر قابض ہوگئے تھے۔جو کارٹن کا سوٹ پہن کر الیکشن
کمپین کے دوران غریب بدبودار انسانوں سے بغل گیر ہوتے تھے آج مسندِ اقتدار
پر بیٹھتے ہی اُسی غریب سے گھن کھا رہے تھے۔نئے الیکشن نے صرف چہرے بدلے
تھے نظامِ معاشرت نہیں۔چاچا کرم دین بھی بڑا پریشان تھا کہ آخر یہ دونوں
سیف اور معراج بنا بتائے کہاں چلے گئے ہیں اور سال بھر کا عرصہ گزر چکا ہے
مگر اُن کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔اِس سہانی شام بھی چاچا کرم دین انہی
دونوں کی سوچوں میں گم تھا کہ کِسی نے پیچھے سے آکر چاچا کی دونوں آنکھوں
پر سخت ہاتھوں کی گرفت کو ذرا نرمی سے رکھا۔
”تم یقینا سیف یا معراج ہی ہو “چاچا کی چھٹی حِس جاگ اُٹھی تھی ۔”تم بھی نہ
چاچا ہماری خوشبو کیسے محسوس کر لیتے ہو ، یا تمہیں ہماری آمد کا الہام
ہوجاتا ہے“۔سیف نے آنکھوں سے ہاتھ ہٹا کر چہکتے ہوئے کہا۔چاچا نے پلٹ کر
دیکھا تو ایک دم پتھر کا سا بن کر رہ گیا ۔کیونکہ سیف نے آج بوسیدہ پینٹ
شرٹ کی بجائے تھری پیس پہن رکھا تھا اور معراج بھی کوٹ بوٹ میں ملبوس قریب
ہی کھڑی کار سے نکل رہا تھا۔چاچا کرم دین نے آگے بڑھ کر دونوں کو سینے سے
چمٹا لیا اور بولا ” کیا ہوا....! علی بابا نے سِم سِم کھولنے کا طلسم
تمہیں سونپ دیا ہے کیا؟“
اِس سے پہلے کہ سیف کچھ کہتا معراج مزید آگے بڑھا اور چاچاسے کہنے لگا”چاچا
ہم دونوں نے قریبا گیارہ ماہ قبل اپنی ذہانت اور عقلمندی کو بروئے کار لاتے
ہوئے لاکھوں روپے لگا کر ایک کاروبار شروع کیا تھا اور اُس میں اللہ پاک نے
بہت برکت ڈالی ہے اور تو اور میری ماں اب دیکھ بھی سکتی ہے اور سیف نے اپنے
مکان کی رجسٹری بھی چھڑوالی ہے“۔کرم دین چاچا کی حیرت قابلِ دید تھی چاچا
نے پوچھا ”تمہارے پاس تو کھانے کے پیسے نہیں ہوتے تھے یہ کاروبار کیلئے
لاکھوں روپے کہاں سے آگئے؟“سیف آگے بڑھا اور زوردار قہقہ لگاتے ہوئے چاچا
کے کان میں سرگوشی کرنے لگا۔”چاچایہ بات راز داری میں رہے ....! اپنے علاقے
سے جو MNAاور MPAنامزد ہوئے ہیں ہماری ڈگریاں اب اُن کی ملکیت ہیں “۔ |