کیسی ہوگی آئندہ اسمبلی؟

آجکل ایک بار پھر الیکشن کا دور دورہ ہے اور ہر ایک کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آزادی ہے۔ یوں اس سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہماری تیسری جنس نے بھی اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرا کر کنویسنگ شروع کر رکھی ہے۔ بلکہ ایک اور خبر کے مطابق اس تیسری جنس یعنی خواجہ سراﺅں نے اسمبلی میں نشستوں کا بھی مطالبہ دھر دیاہے۔لیں جناب! بیچاروں کو قبرستان میں جگہ ملتی نہیں، چلے اسمبلی میں سیٹیں لینے۔ جب سے ہمارے عزت مآب چیف جسٹس صاحب ان پر مہربان ہو کر انہیں نادرا شناختی کارڈ، نوکریوں میں کوٹہ، قرضوں کی وصولی میں مدد اور دیگر طریقوں سے انکی ہیلپ کر نے میں لگے ہیںنہ تو یہ لوگ؟ کچھ زیادہ ہی پھیلتے جارہے کہ جی اب اسمبلی میں کوٹا۔۔۔ہونہہ۔۔ کل کلاں کو کھڑے ہو کر کوئی نیا ممنوعہ مطالبہ کر دینگے۔ ویسے پڑوسی ملک ہندوستان میں تو یہ لوگ جنس کے خانے میں اپنا نام لکھوانے کی منظوری بھی لے چکے ، اب پاکستان میں دیکھیں کہ انہیں کیا کچھ ملتا ہے۔سوچیں کہ اگر ان لوگوں؟ کو اسمبلی میں آنے کی اجاز ت مل جائے تو کیسا ہوگا مستقبل کا پاکستان؟

الیکشن کے لیے ٹکٹ لینا انکے لیے ایک بہت ہی مشکل مرحلہ ہوگا کہ ٹکٹ کونسی قوم قبیلہ کو جاری کیا جائے اور پھر اسطرح سے انکا آپس میں پھڈا بھی ہو سکتاہے۔ ایک کہے گی یا کہے گا کہ الیکشن میں نے لڑنا ہے دوسرا کہے گا یا گی کہ میں نے لڑنا ہے۔ آپس میں سوال جواب کچھ ایسے ہونگے کہ: اے ہے تجھے تو لڑائی مار کٹائی بھی ٹھیک سے نہیں آ تی تو الیکشن کیا لڑے گا ۔گی۔ دوسرا کہے گا۔گی۔ کہ ہے ہے تجھے تو ڈانس بھی ٹھیک طرح سے نہیں آتا تو الیکشن کیا لڑے گی،گا۔پھر کہیں گے آﺅ پہلے لڑنے کا مقابلہ کر لیتے ہیں جو جیتا وہی سکندر یعنی ٹکٹ وہ لے گا۔ لے گی۔۔۔ لو جناب ۔ لڑائی شروع ۔۔۔۔۔۔ تھپڑ پے تھپڑ۔ مکے پہ مکا۔ چپیڑ پہ چپیڑ۔ منہ کی نونچائی۔ بالوں کی کھینچائی۔کان کی پکڑائی۔ ناک کی مڑائی اور تڑائی۔ اب جناب ہاتھ آگئے نام نہاد ڈوپٹے جو کسی کسی کے گلے کا ہار ہوتا ہے۔ دوپٹے کے بعد باری آتی ہے کپڑوں کی پھاڑا پھاڑی کی۔۔۔ اور پھر کپڑے۔۔۔کپڑے۔۔۔۔۔ چلیں کپڑے سینسر کر کے جوتے کی طرف چلتے ہیں۔ لو جناب آخر میں بچا جوتا۔ اب جوتے سے ایک دوسرے کی چھترول ا ور لترول شروع۔۔۔پھر ایک جنا یا جنی تھک ہار کر ہار جاتی ہے یا جاتا ہے۔۔ارے ٹھریے جناب اس لڑائی مار کٹائی کے دوران ان کے منہ سے جو پھول جھاڑے گئے انکا ذکر بھی تو سنیں ۔ پر نہیں، آرٹیکل گندا ہو جائیگا۔ بس یوں سمجھ لیں کہ کچھ ممنوعہ اقسام کی گالم گلوچ کا تبادلہ ہوا۔

الیکشن مہم اور جلسے جلوس: الیکشن مہم اور جلسے جلوس کے بغیر تو ہمارے ہاں الیکشن ہی نہیں ہو سکتے اور آجکل یہ عروج اور آخری دموں پر ہیں ۔ ویسے ایک بات ہے کہ ان کے جلسے جلوسوں میں عوام کی کثیر تعداد تو صرف اپنے من پسند کھسرے دیکھنے جایا کریگی۔ انہیں تو اعلانات کرانے کی بھی ضرورت نہیں پڑیگی کہ منہ در منہ ہوتی بات کوٹھوں چڑھ کر ہر جگہ پہنچ جائیگی۔آجکل جلسے جلوسوں میں گانا بجانا ہو رہا ہے پر انکے جلسوں میں گانا بجانے کے ساتھ ساتھ ناچ کا آئیٹم بھی

اضافی طور پر شامل ہو جائیگا جسے عوام کی کثیر تعداد پسند کر ے گی۔ کچھ شوقین قسم کے حضرات تو اس جنس کو صرف ہاتھ لگا کر ہی تسکین حاصل کر لیتے ہیں جو کہ وہ وافر مقدار میں کرینگے۔ اسکے علاوہ انکے جلسے جلوسوں میں تالیاں پیٹنے کا بھی مقابلہ ہوا کریگا۔ نعرے کچھ اسطرح ہونگے۔ہائے ہائے زندہ باد۔ ہائے ہائے مر دہ باد۔۔۔۔ ہائے ہائے تجھے ووٹوں کی جگہ کیڑے پڑیں۔ مخالف کے خلاف نعرہ: مرد ہے تو میدان میں آ۔۔۔ ساڈے نال متھا لا۔۔۔ کون کرے گا کم مہنگائی۔۔۔ ہائے ہائے رانی مائی، رانی مائی۔ گلابو باجی ساڈی شیر اے۔ باقی ہیر پھیر اے۔ کون کرے گا قرض وصولی۔۔۔ باجی صائمہ باجی چنبیلی۔ تیرا نعرہ میرا نعرہ ۔۔۔ ریما نے آنا، بوبی نے آنا۔۔ ہماری آن ہماری شان۔۔۔نصیبو خان، ریما خان۔آئی آئی باجی آئی۔۔۔بینر © کچھ اسطرح ہونگے : پاکستان بچانا ہے تو تیسری قوم کو لانا ہے۔ ہم حلقہ فلاں کے عوام تمام کھدڑوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ہمیں ہمارے حقوق دو ورنہ تالیاں پیٹ پیٹ کر پاگل کر دینگے۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اب جناب تقریر کچھ اسطرح ہوگی: میرے پیارے ۔۔۔۔ آپ لوگوں نے جنس نمبر ایک اور دو ، دونوں کو آزمایا پر پیاز اور آلو ٹماٹر پھر بھی مہنگا ہوا، آپ ہمیں آزمائیں، ہائے ہائے سب کچھ فری کر دینگے۔ آپ نے دونوں کو آزمایا پر پٹرول، بجلی ، گیس پھر بھی مہنگی رہی، آپ ہمیں جتوائیں یہ سب اشیاءبھی مفت دیں گے۔ آپنے ان دونوں کو جتوایا انہوں نے اپنی جائدادیں بنائیں، آ پ ہمیں جتوائیں ہم آپکی جائدادیں بنوائیں گے۔ آپ ہمیں جتوائیں ہم آپکے بالک ہونے کی خوشی میں اور شادی کی خوشی میں فری ناچیں گے۔ آپ ہمیں چنیں ہم آپ کو فری قرض وصول کر کے دینگے۔ آپنے دونوں پارٹیوںکو آزمایا پر دونوں ناکارہ نکلیں، آپ ہمیں جتوائیں ہائے اللہ ہم ۔۔۔۔۔ ہائے اللہ آپ کسی خان وان کے بھی پیچھے نہ جائیں یہ تو بیس بیس فٹ اوپر سے چھلانگیں لگا کر اپنی ٹانگ بانہہ تڑا بیٹھے گا، آپکے کسی کام نہ آئیگا بلکہ آپ ہمارے پیچھے آئیں ہم آپکو ضرور کچھ نہ کچھ دیں گے؟؟خان اور شریفوں کے جلسوں میں تو صرف دکھاوے کے رش ہیں، آپ ہمیں ووٹ دیں ہم نہ پھر آپ کے صدقے واری جائیں گے ۔ آپ ہمیں جتوائیں ہم ہاتھ لگانے کے بھی پیسے نہیں لیں گے ۔ٓ اور پھر وہ شرما کر تقریر بند کر دینگے۔

تو جناب !اگر یہ الیکشن جیت گئے تو انکے لچھن دیکھیے گا کہ پہلی دو جنس تو رات کو ہوائی فائرنگ کر کے جشن مناتی ہے۔یہ لوگ ہاتھ لہرا لہرا کر ، ناچ گانا اور بھنگڑے ڈال کر جشن منا ئیں گے اور لوگ جان بوجھ کر گلے لگ لگ کر انہیں مبارخبادیاںدے رہے ہونگے ۔ کچھ شوقین مزاج عبداللہ دیوانے انکی جگہ فائرنگ بھی کر رہے ہونگے کیونکہ یہ نازک اندام بیچارے ہاتھوں سے گن نہیں چلا سکتے ۔ سارا دن پھر پھر اور خجل خوار ہو کر دھوڑ مٹی اور گند میں لبڑے یہ بیچارے یا بیچاری یر قان کے مریض لگ رہے ہونگے۔پر شوقین مزاج عوام انہیں ہر صورت قبول ہی لیگی اور ایک اور بہانہ مل جائیگا انہیں چونٹیاں مارنے کا۔ جوابا انہوں نے صرف ہا ئے اللہ، اوئی، اور دفعہ دور پر اکتفا کر نا ہے اور بس۔اسمبلی میں پہنچ کر انکے کر توت کیا ہونگے، تھوڑا نظر ڈالیں؟

اسمبلی میں آمد اور حلف برداری: اس قوم کی اسمبلی میں آمد بھی کسی دھماکے سے کم نہیں ہوگی۔ انکی جیت کی خوشی میں پہلے تو انکے گرو انگا سواگت کریں گے پھر ناچتے گاتے، اچھلتے کودتے اسمبلی میں چھوڑنے آئیں گے۔اب سوچیں کہ حلف کے د ورا ن یہ کیا کہیں گی یا کہے گا۔ ؟ پہلے پہل تو انہوں نے تالیاں پیٹنی

شروع کر دینی ہیں کہ ہماری طرف سے لکھ لکھ مبارکاں، جی آیا نوں ، ست بسم اللہ ۔ہائے موٹے، ہائے کٹے، ہائے چکنے، ہائے سمارٹ، ہائے بے بی، ہائے مولوی اور دیگر کئی طرح کی ہائے ہواڑ پا دینی ہے اور پھر اسمبلی میں آنے کی خوشی میں بھنگڑا یا لڈی ڈانس شروع ہو جائیگا۔یا پھر یہ لوگ؟ اٹھ اٹھ کر انگلیاں کڑکاکر بلائیں لینا اور نظر اتارنا شروع کر دینگے ۔اس دوران میں مولوی ممبر حضرات ہو سکتا ہے کہ اسمبلی سے واک آﺅٹ کا افتتاح بھی کر دیں اور پھر یہی لوگ انہیں کسی شرط؟ پر منا کر واپس لاکر اسمبلی کی کاروائی دوبارہ شروع کریں۔ ویسے اسمبلی میں انکی موجودگی میںکورم ٹوٹنے کا مسئلہ حل ہو جائیگا کہ ہر کوئی ، ہر وقت انکے لچھن دیکھنے کو ہر حاضر پایا جائیگا۔ مرحوم محترم مولانا نورانی صاحب کا ریکارڈ تھا کہ انہوں نے کبھی اسمبلی اجلاس سے غیر حاضری نہیں کی تھی، اسطرح ان کا ر یکارڈ بھی ٹوٹ سکتا ہے۔ اسمبلی میں انکی پہلی ترجیح یہی ہوگی کہ تالیاں بجانے سے پابندی اٹھائی جائے کہ یہ لوگ تالی کے بغیر بات نہیں کر سکتے۔ ویسے تو تالیاں پہلی اور دوسری جنس بھی خوب بجاتی ہیں تاہم انکی تالیوں کی بات ہی اور ہوتی ہے۔پھر انہوں نے اسمبلی میں بل پیش کر دینا ہے کہ تیسری جنس کے شوقین لوگوں کی حمایت میں بل پاس کیا جائے تاکہ ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکے۔ جس کی کہ مولوی حضرات بھر پور مخالفت کریں گے۔ اور پھر یوں ایک نیا اشو شروع ہو جائیگا۔ یہ بیچارے لوگ کیونکہ نہ مردوں میں ہیں اور نہ عورتوںمیں ، تو انکے لیے الگ سے نشستیں، الگ باتھ روم، الگ ریسٹ روم، الگ گیسٹ ہاﺅس ،الگ میک اپ روم غرضیکہ تمام ہی چیزیں الگ بنانا ہونگی، نتیجہ اضافی خرچہ۔ جسکا کہ آجکل ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔ اسکے علاوہ اگر انہوں نے اپنی افزائش نسل کا بل پیش کر دیا تو پھر کیا ہوگا کالیا؟

اگر اتفاق سے انہیں وزیر بنا دیا جائے تو اسکا تو ٹیکا ہی الگ ہوگا۔ فرض کریںکہ یہ وزیر بن کر مذاکرات امر یکہ بہادر سے کر رہے ہوں تو یہ کچھ یوں فرمائیں گے ، گی: ہائے ہائے ابے کلو پہلے ڈرون حملے بند کرا پھر آنا۔ ہائے ہائے گورے چکنے پہلے امداد بحال کرو ناہیں تو میں توسے ناہیں بولوں۔ اگر یہ کبھی غصہ میں آجائیں تو کہیں پیار سے کسی کو ہلکی سی چپیڑ بھی نہ لگادیں۔ اسی طرح اگر پڑوسی ملک سے مذاکرات کر نے پڑے تو انکا پہلا سوال یہی ہوگا کہ پہلے پہلے پہلگام میںہمارے جاننے والوں سے ملاقات کا اہتمام کیا جائے ۔ کشمیرکو آزاد کریں یا مادھوری دے دیں ، یا قطرینہ کیف یا کرینہ کپور یا راکھی ساونت د ے دیں تاکہ ان سے ڈانس ہی سیکھ لیں۔ ویسے وہاں کے تیسری جنس والے انسے زیادہ تگڑے ہیں اور اگر ا نہوںنے بھی ایسا ہی وزیر بنا دیا تو پھر کیسا ہوگا مذاکرت کا انجام، سوچیں ذرا؟ ایک تحقیق کے بعد عورت کے بارے میں کہہ دیا گیا ہے کہ جی یہ معمہ ہے نہ سمجھنے اور نہ سمجھانے کا، ا س جنس کے بارے میں کیا کہا جائیگا کہ جو بیچارے نہ عورتوں میں نہ آدمیوں میں ؟؟کچھ سروے انکے بارے میں بھی ہو جائے اے چارہ گراں!

تو جناب! اس تیسری قوم سے گذارش ہے کہ اپنے آپ کو اسمبلیوں میں لانے سے پہلے ان اسمبلیوں کی کار کردگی تو ملاحظہ فرمایئے کہ دن رات اٹھارہ کروڑ عوام انہیں کوسنے دیتی ، لعن طعن کرتی ہے اور تمام ممنوعہ گالیاں جن کے دینے سے تین دن تک زبان گندی رہتی ہے وہ بھی دیتی ہے۔ یہ تو روزانہ اسلام آباد میں کالے بکروں کے صدقے کے طفیل بچے رہے ، ورنہ کب کے کیں ہو چکے ہوتے۔ تو کیا آپ بھی اپنے آپکو یونہی کوسوانا ، لعن طعن کروانا اور ممنوعہ گالیاں دلوانا چاہتے ہیں؟ اگر ہاں! تو پھر ٹھیک ہے کیجئے بسم ا للہ اور آئےے اسمبلیوں میں جونکوں کی طرح ہمارے خون چوسنے کو!

اسکے علاوہ آجکل کے الیکشن کے زمانے کے کچھ سیاسی ڈائیلاگ اور انکی تفصیل ملاحظہ فرمائیے۔
میں نہیں مانتا: تو ہمارے لوگوں کے ذہنوں پر ایسا سوار ہوگیا ہے کہ اب وہ ہر بات اور کام ، چاہے جائز ہو یا ناجائز، ٹھیک ہو یا غلط، میں نہیں مانتا ، میں نہیں مانتا کی رٹ لگائے رکھتے ہیں۔ مثلا: ایک سیاستدان کے اعصاب پر ۔۔میںنہیں مانتا۔۔ کچھ اسطرح سوار تھا کہ نکاح کے ٹائم قاضی نے پوچھا کہ ۔۔۔ فلاں بنت فلاں ۔۔۔۔ اتنے حق مہر کے عوض آپکو دی۔۔۔ابھی قاضی نے۔۔ کیا آپ کو قبول ہے؟؟۔۔ بھی نہیں کہا کہ پہلے ہی بول اٹھے ۔ ۔ میں نہیں مانتا۔ میں نہیں مانتا۔ ایک لیڈر کی بیوی نے گھر میں لیڈر سے کہا کہ آج تو سالن میں نمک ٹھیک ہے۔ تو بولے کہ میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا۔ بیگم کی چھترول کرتے ہوئے بیگم نے یاد دلایا کہ کل بھی کی تھی ،تو آج پھر کیوں؟۔ بولے میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا اور پھر نوے سِروں مار کٹائی میں شروع ہو گئے ۔ ایک رپورٹر نے ایک لیڈر سے پوچھا کہ ملک میں شدید لوڈ شیڈنگ، بیروزگاری، مہنگائی اور بد امنی ہے۔ گیس کی شدید قلت کے باعث لوگوں کو بلیک میں دس دس روپے کی روٹی خریدنی پڑرہی ہے، تو بولے کہ میرے گھر میں تو سب کچھ ہے لہذا میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا۔ بلکہ ساتھ یہ بھی لگا دیا کہ میں نہیں جانتا۔ جب انہیں کہا گیا کہ جی لوگ لوٹے ہورہے ہیں، بولے کہ میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا۔جب میں لوٹا بنوں گا تو مانونگا۔ جب پوچھا گیا کہ آپ پر الزام ہے کہ آپنے رشوت لی، شراب پی، پلاٹ لیا، بنک لون لے کر واپس نہیں کیا، بولے کہ میں نہیں مانتا ، میں نہیں مانتا۔ان لوگوں کی کل تک جن کے ساتھ گاڑھی چھنتی تھی، مل بیٹھ کر کھاتے پیتے تھے آج انہی کو کہتے ہیں کہ میں انہیں نہیں مانتا، نہیں مانتا۔ یہ لوگ چار سال تک انہی اسمبلیوں میں بیٹھ کر ہر سرد و گرم میں شامل ہو کر عوام کا خون چوستے اور چسواتے رہے۔سب نے مل کر عوام کو ایسے ایسے درد دیے کی پونسٹان فورٹ سمیت تما م پین کلر کام چھوڑ گئیں۔ چار سال میں سینکڑوں بار بجلی، گیس اور پیٹرول بم عوام پر گر تے رہے، یہ اسمبلیوں میں سوتے رہے، اب کہتے ہیں کہ میں ان اسمبلیوں کو ہی نہیں مانتا۔۔۔نہیں مانتا ۔ایک ڈکٹیٹر صاحب کو سروے کر کے بتایا گیا کہ آپکی ریٹنگ گر گئی ہے لہذا آپ از خود گھر چلے جائیں، بولے کہ ایسے سروے مروے کو میں نہیں مانتا، میں نہیںمانتا۔ پھر آخر کار ا نہیں منواکر ہی بڑے گھر سے نکالا گیا۔اور آجکل قابلِ احترام عدلیہ کے ہر فیصلے کو کہا جارہا ہے کہ میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا۔ کیوں بھئی؟؟؟؟

میں باغی ہوں:آجکل کا سیاستدان کیا کہتا ہے سنیےَِ نام نہاد اصولوں پر سمجھوتہ نہ ہوا تو ۔ میں باغی ہوں۔ بچوں سے ناراضگی تو میں باغی ہوں۔ بیگم سے ناراضگی تو میں باغی ہوں۔ وزارت نہ ملی تو میں باغی ہوں۔ فنڈنہ ملے تو میں باغی ہوں۔ طبیعت کے مطابق عہدہ نہ ملا تو میں باغی ہوں۔ پان، سگریٹ، نسوار، گٹکا نہ ملا تو میں باغی ہوں۔ ملاقات کا ٹائم نہ ملا تو میں باغی ہوں۔ غرضیکہ انکے مزاج کے خلاف کوئی بھی بات ہو جائے تو یہ لوگ۔۔۔ ہاں میں باغی ہوں، ہاں میں باغی ہوں کا نعرہ مستانہ شروع کیے دیتے ہیں ۔ عوام آئے روز مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، گیس شیڈنگ، بیروزگاری ۔۔۔ دہشت گردی کے عفریت کا شکارہیں اسکے لیے یہ کبھی باغی نہیں ہوئے۔ عوام پر ڈرون حملے ہوتے رہے یہ کبھی باغی نہیں ہوئے۔ لاکھوں عوام گھر بار چھوڑ کر بے گھر ہوئے یہ باغی نہ ہوئے۔ سیلاب زدگان آجتک جھگیوں میں سسک رہے ہیں ، انکے لیے یہ باغی نہ ہوئے۔ خود کشیاں ، فاقے اور بچے فار سیل کے بورڈ لگے ہوئے دیکھ کر بھی یہ باغی نہ ہوئے۔

بجلی ، گیس، تیل کی قیمتیں روز بڑھ جاتی ہیں ، یہ باغی نہیں ہوتے۔ آٹا، گھی، چینی ، چاول اور دالیں ہمسایہ ملک میں سستی اور ہمارے ہاں مہنگی ہوتی ہیں یہ باغی نہیں ہوتے۔منفی ریٹنگ رکھنے والے حکمران عوام پر مسلط ہیں، یہ باغی نہیں ہوتے۔ عوام کے نام نہاد وزیروں اور مشیروںپر چار سال میں لگ بھگ ایک کھرب روپے اڑ چکے عوام کو کوئی ریلیف نہ ملا، پر یہ باغی نہ ہوئے۔ ستر فیصد عوامی نمائندگان اسمبلیوںمیں چار سال سے چپ کے روزے رکھ کر عوام کے پیسے سے عیاشی کر رہے ہیں ، یہ باغی نہ ہوئے۔ عدلیہ پر سرِ عام زبان کے نشتر اور گھاﺅ لگا ئے جا رہے ہیں، شعلہ بیانیاں دکھائی جارہی ہیں، یہ باغی نہیں ہوتے۔ ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل مل اور دیگر قومی ادارے دیوالیے کے قریب پر یہ باغی نہیں ہوتے۔ آمریت آتی جاتی رہی ملک بر باد ہوتا رہا یہ باغی نہ ہوئے۔اغیار کی جنگ میں اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا رہا، ہزاروں جانیں گئیں پر یہ باغی نہ ہوئے۔ اپوزیشن چار سال تک گہری نیند سوتی رہی ، عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹتے رہے پر کوئی باغی نہ ہوا۔ کرپشن کی مثالیں قائم ہوتی رہیں، کوئی باغی نہ ہوا۔ ہمارا کشکول دنیا بھر میں پھر کر ہمیں ذلیل و رسوا کرتا رہا، کوئی باغی نہ ہوا۔ اگر باغی ہوئے تو صرف اپنے فائدے اور مفادات کے لیے ۔ کیوں ؟آخرکیوں۔؟؟

سونامی : سونامی کا لفظ کبھی کبھار سمندری طوفان کی شکل میں سننے کو ملتا ہے، پر اب سیاستدان چند ہزار کے مجمعے کو سونامی کا نام دیکر ایک دوسرے کو ڈرا ر ہے ہیں۔ بلکہ اب تو مائیں بھی بچوں کو گبھر سنگھ یا کتے بلی کی بجائے سونامی سے ڈرا کر سلاتی ہیں کہ بیٹا سو جا ورنہ سونامی آجائیگا۔ پتہ نہیں یہ کونسے سونامی کی بات کرتے ہیں۔ حالانکہ عوام تو پہلے ہی بجلی ، گیس، بیروزگاری، دہشت گردی اور دیگر خرافات کے سونامی کا شکار ہیں اس مری ،پٹی اور لٹی عوام کو پتہ نہیں مزید کونسے سونامی سے ڈرا یا جارہا ہے؟۔ جناب والا! سونامی اگر لانا ہی ہے تو حقیقت میں ایک سمندری سونامی ، کسی وائرس یا زہرِ ہلاہل کا سونامی لے آ ئیے تاکہ یہ دکھوں کی ماری عوام، روز روز کی جھِک جھِک سے ایک ہی بار اس سونامی کی نذر ہو کر سکون کی ابدی نیند سو سکے۔آجکل سونامی کو ایک نیا نام زو۔نامی بھی دیا گیا ہے۔ زو کا مطلب چڑیا گھر ہوتا ہے اور نامی سے آپ کو ئی بھی نتیجہ اخذ کرلیں؟؟

انقلاب: ایک اور نعرہ انقلاب بھی آجکل بہت مقبول ہوا ہے:سب کہہ رہے ہیں ہمیں ووٹ دیجئے گا، انقلاب ہم لائیں گے۔ ہمارے للو میاں بھی انقلاب کے بہت شوقین ہیں اور اپنے گھر میں ہمیشہ نت نئے انقلابات لا نے کے تجربے کر تے رہتے ہیں۔ مثلا: ایک بار گھر میں بچت کا انقلاب لانے کے لیے انہوں نے یہ کیا کہ: بچوں کو دود ھ کی جگہ پانی میں سفید رنگ ملا کر پلانا شروع کر دیا۔ گوشت کی جگہ شام کو قصائی کے پھٹے پر سے چھیچڑے لاکر پکانے شروع کر دیے۔ بھینس کے پائے کی جگہ مرغی کے پائے پکانے شروع ہوئے۔ سبزی کی جگہ شوربے والی گھاس، دال کی جگہ مختلف پتوں سے اترے بیج۔ بجلی کی جگہ اپنی چندیا، گیس کی جگہ بائیو گیس یعنی گٹر کا استعمال۔روٹی کی جگہ صرف بھنے چنے جو کہ پیٹ بھرنے کے ساتھ ساتھ گیس بنانے کے کام بھی آئے اور تمام گھر میں آرڈر دیے گئے کہ جونہی گیس اخراج کی حا جت ہو فورا سلنڈر پر بیٹھ جائیں اور اس میں جمع کریں ۔ للو میاں کے اس گھریلو انقلاب سے تنگ انکی بیگم ایک روز پھٹی تو ایسی پھٹی کہ سیاستدانوں کے لتے لینے لگیں کہ یہ لوگ اقتدار میں آکر ہی کیوں انقلاب لانا چاہتے ہیں؟۔ کیا انقلاب یا عوام کی خدمت

اقتدار کے بغیر نہیں ہوسکتی؟۔ اربوں روپے جلسے جلوسوں پر لگانے سے بہتر نہیں کہ یہ پیسہ عوام کی فلاح پر خرچ کر کے انقلاب لا یا جائے؟۔ یہ لوگ ملک میں تعلیمی انقلاب کیوں نہیں لاتے؟۔ زرعی انقلاب کیوں نہیں لاتے۔؟ روزگار انقلاب کیوں نہیں لاتے؟۔ بجلی گھروں کا انقلاب کیوں نہیں لاتے؟، صنعتی انقلاب کیوں نہیں لاتے؟۔ اللہ کے احکام پر چلنے کا انقلاب کیوں نہیں لاتے؟۔ ہم جیسوں کی غربت دور کرنے کا انقلاب کیوں نہیں لاتے؟۔ کرپشن دور کرنے کا انقلاب کیوں نہیں لاتے؟۔ اگر لاتے ہیں تو صرف نعروں کا انقلاب ہی کیوں لاتے ہیں؟۔ اس سے پہلے بھی اسی طرح کے انقلاب کی باتیں ہوتی رہیں پر عوام کو ہمیشہ مسائل کے انقلاب کا سامنا رہا۔للومیاں سمیت گھر میں کسی کے پاس بھی بیگم للومیاں کے سوالوں کو کوئی جواب نہ تھا؟؟

گو گو :اب رہ بات گو گو کی ، تو للو میاں کے بچے اکثر ٹی وی پر یہ نعر ے سنکر اسے گو گو پان مصالحہ سمجھتے رہے اور اکثر فرمائش کرتے کہ ہمیںوہاں ضرور لیجایا جائے تا کہ وہاں مفت میں بٹتا گو گو پان مصالحہ مل سکے۔ تاہم ایک روز للو میاں نے انہیں سمجھایا کہ بچو۔۔ ۔۔ گو گو ۔۔کوئی پان مصالحہ نہیں ہے بلکہ یہ نعرہ ا س شخصیت کے لیے لگا یا جاتا ہے جس سے کہ لوگ اسکی پالیسیوں کی وجہ سے ناخوش ہوں اور دیس نکالا کر نے کے چکر میں ہوں ۔بس پھر کیا تھا، اگلے روز جیسے ہی للو میاں کام سے واپس گھر میں داخل ہوئے تو گھر کے تمام درو دیوار گوگو کے نعروں سے بھرے پڑے تھے۔ اسکے ساتھ ساتھ للو میاں کے تمام کپڑے پھاڑ کر انکے بینر بنا کر گھر میں لگا دیے گئے تھے جن پر مختلف قسم کے نعرے درج تھے جنہیں پڑھ گر للو میاں کے ہوش اڑگئے ۔ مثلا: چھوٹی منی کی طرف سے بینر پر لکھا گیا کہ: میرے چاکلیٹ اور چپس کے بجٹ میں اضافہ کر ورنہ گو ابا گو۔ بڑی بیٹی کا بینر کچھ یوں تھا کہ: پچھلے دو سال سے میرے کپڑے اور جوتے نہیں بنے ، فورا کپڑے سلواﺅ ، میرے نئے ٹاپس لاﺅ ، میرے جیب خرح میں اضافہ کر۔ ورنہ گو بابا گو۔ بیٹے صاحب کا بینر کچھ یوں تھا کہ : مجھ پر مار دھاڑ کا بوجھ کم کیا جائے، مجھے دوستوں کے ساتھ آزادی سے گھومنے پھرنے دیا جائے، پڑھائی اپنی مرضی سے کرنے دی جائے، ورنہ گو پاپا گو۔ دوسرے بیٹے صاحب کچھ یوں گویا تھے کہ: گھر سے مار پیٹ کے تما م اوزار ہٹا ئے جائیں اور مجھے رات گئے تک گھومنے پھرنے کی آزادی دی جائے، نیا فون بلیک بیری بمعہ بلو ٹوتھ کے لیکر دیا جائے ورنہ گو ابو گو۔ للو میاں کی بیگم بھی کسی سے پیچھے نہ رہیں اور انکا بینر کچھ یوں تھا کہ : فورا گھر میں لارج سائز کا رنگین ایل ای ڈی ٹی وی لایا جائے ورنہ گو میاں گو۔ ایک اور بینر پر لکھا تھا کہ : میں گھر کے کام کاج کر کر کے کھپ چکی ہوںڈیوٹی سے آکر میرا ہاتھ بٹایا جائے یا پھر فالتو کاموں کے لیے ماسی رکھوائی جائے اور پچھلے بیس سال میں کیے گئے تما وعیدوں، بالخصوص میرے جھمکوں والا و عیدہ فورا پورا کیا جائے ورنہ گو منے کے ابا گو۔للو میاں نے یہ صورتحال دیکھی تو فور ا اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور اسوقت کو کوسنے لگے جب انہوں نے گوگو کے معنی ان بچوں کے گوش گزار کیے تھے۔اچانک سب سے چھوٹی اور للو میاں کی پیاری بیٹی اپنا بینر لیکر کمرے سے نمودار ہوئی جس پر لکھا تھا:

میرے پیارے بابا جانی آپ ہی ہیں ہم سب کا سہارا ۔۔ آپ کہیں نہ گو کہیں نہ گو،میرا ہے بس یہ ایک ہی نعرا
للو میاں نے آگے بڑھ کر اپنی پیاری بیٹی کو سینے سے لگا لیا۔

Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 234747 views self motivated, self made persons.. View More