ہم، خدا ناخواستہ، ماہرین میں سے تو ہیں نہیں کہ سوچے سمجھے بغیر ہر
معاملے میں رائے دیتے پھریں اِس لیے اللہ کی اُس مخلوق کے بارے میں کچھ
کہنے سے گریز ہی کرتے ہیں جسے خُدا ہی مِلا نہ وصال صنم! طب کے ماہرین
خَسرے کی وباءسے نبٹنے کے طور طریقے سوچ رہے ہیں مگر سماجیات کے ماہرین کو
کچھ فکر ہی نہیں کہ معاشرے میں ”کُھسرے“ کی وباءبھی تیزی سے پھیل رہی ہے!
اور سچ تو یہ ہے کہ یہ وباءاب اُسی طرح پھیل چکی ہے جس طرح بعض لوگ کہیں سے
شہ پاکر بہت پھیلتے ہیں!
ہم خواجہ سراؤں کے دُشمن نہیں مگر معاشرے کی رنگینی میں خواجہ سرا ایسے ہی
ہیں جیسے سالن میں نمک۔ لیکن سارا سالن ہی نمک کی کان بننے پر تُل جائے تو!
مرزا تنقید بیگ کو ہر وہ معاملہ اچھا لگتا ہے جس سے ہم اُلجھن میں مبتلا
ہوں۔ اُنہیں صرف پتا چلنا چاہیے کہ ہمیں کِس چیز سے تکلیف پہنچ رہی ہے۔ اِس
کے بعد اُن کی زبان قینچی کی طرح چل کر اُس چیز کے فوائد گنوانے لگتی ہے۔
مُلک میں خواجہ سراؤں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد پر ہم نے تشویش کا اظہار
کیا تو مرزا لب کُشا ہوئے۔ ”اِس میں حیرت یا افسوس کی کیا بات ہے؟ اب یہاں
کون سا شعبہ ہے جو بانجھ پن کے دور سے نہیں گزر رہا؟ تعلیمی اداروں کی کوکھ
سے دانش پیدا نہیں ہو رہی۔ صحتِ عامّہ کا شعبہ صحت مند معاشرے کو جنم دینے
سے قاصر ہے۔ سرکاری صنعتی اداروں نے وسائل کی بندر بانٹ اور بے ضابطگی کو
صنعت میں تبدیل کرلیا ہے۔ وزارتِ داخلہ کے پہلو سے امن اور تحفظ نام کی
کوئی چیز ہویدا نہیں ہو رہی۔ ابلاغ کے ذرائع تجزیے اور رہنمائی کے لیے ہوتے
ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ اِن دونوں معاملات میں اُن کی گود خالی خالی
سی ہے۔“
عراق کے منتظر الزیدی نے جس جوتے سے سابق امریکی صدر جارج واکر بش کو نشانہ
بنانے کی کوشش کی تھی اُسے ایک صاحب نے، اللہ ان کی ذہانت کو بُری نظر سے
بچائے، بجا طور پر ”اشرف المصنوعات“ قرار دیا تھا! اِس بے ذہنی کے زمانے
میں ایسی عمدہ تراکیب کبھی کبھار پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ہونٹوں کو مُسکراہٹ
بخشنے والی باتیں کرکے لوگوں کے دِل جیتنے والے معروف فنکار سلیم آفریدی نے
اپنے ایک آئٹم میں خواجہ سراؤں کو ”اشرف المُشکلات“ قرار دیا تھا! اِس
مظلوم طبقے کو بیان کرنے کے لیے اِس سے اچھی اور تیر بہ ہدف ترکیب ہو ہی
نہیں سکتی۔ ویسے عمر شریف اور سلیم آفریدی نے اپنے آئٹمز میں خواجہ سراؤں
کا اِتنا بینڈ بجایا ہے کہ وہ بے بے چارے تنگ ہیں اور اُن کے لیے بھی یہ
دونوں بہت حد تک ”اشرف المُشکلات“ کا درجہ رکھتے ہیں!
تین بھائیوں میں مَنجھلا یعنی بیچ والا بیشتر معاملات میں مُعلّق ہی رہتا
ہے۔ بیچ کے بے چاروں کا یہی حال اور انجام ہوا کرتا ہے۔ خواجہ سراؤں کا بھی
یہی مخمصہ ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ اب تک ہم طے نہیں کر پائے کہ خواجہ سرا جی
رہے ہیں یا جی رہی ہیں! خواجہ سرا بضد ہیں کہ اُن کا احترام کیا جائے اور
ہم احترام کرنے کو تیار بھی ہیں مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ اُنہیں محترم
سمجھا جائے یا محترمہ! بَچّے فیصلہ نہیں کر پاتے کہ اُنہیں ماموں کہیں یا
خالہ، چچا سمجھیں یا پھوپی!
خواجہ سراؤں کی اُلجھنیں ہیں کہ کم نہیں ہوتیں۔ بس میں سفر کریں تو مصیبت،
رکشا میں بیٹھیں تو مصیبت۔ شادی کی تقریب میں خود پہنچیں تو پہنچیں، کوئی
بُلاتا تو ہے نہیں۔ اور بُلائیں بھی کیا؟ جو کام اِن کے کرنے کا تھا وہ اب
لونڈے لپاڑے بخوبی کرلیتے ہیں! جُھومنا گانا اور مٹک مٹک کر چلنا تو اب گھر
کی کھیتی ہے، پھر باہر کی فصل کون خریدے!
حالات سے تنگ آکر خواجہ سرا اپنی الگ دُنیا بسانے پر مجبور ہیں۔ یہ دوسروں
کی خوشی میں تو شریک ہو رہتے ہیں مگر اپنے غموں کا سایا اُن پر نہیں پڑنے
دیتے۔ حد یہ ہے کہ اپنا جنازہ بھی دُنیا کی نگاہوں سے چُھپاتے ہیں کہ اِن
کے لیے کوئی اور کیوں غمگین ہو!
دوسروں کی خوشی میں خوش رہنے والے (یا رہنے والیاں) کِسی کو بظاہر دُکھ
نہیں دیتے مگر پھر بھی لوگ اِن سے کتراتے ہیں۔ شاید اِس کا سبب یہ ہے کہ
لوگ دوسروں کی خوشی میں خوش ہونے والوں کو پسند نہیں کرتے! یا پھر یہ بات
ہے کہ خوشی کی تقریب میں ”خانہ ساز“ رقّاص اِتنے ہوتے ہیں کہ اِضافی ٹھمکوں
کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی!
اب خواجہ سراؤں کی دُنیا سے کچھ لوگ انتخابی آنگن میں ناچنے نکلے ہیں۔ بیس
تیس سال پہلے کی بات ہوتی تو اِن کی انتخابی مہم انوکھی کہلاتی۔ ڈھول کی
آواز، جھانجھر کی جھنکار اور ”ولولہ انگیز“ ٹھمکے تو اب ویسے ہی انتخابی
ماحول کا حصہ ہیں۔ اِس میلے کی رنگینی میں خواجہ سرا کیا اِضافہ کرسکتے
ہیں؟
خواجہ سراؤں کی طرف سے امیدوار میدان میں اُتارے جانے پر مرزا تنقید بیگ
بہت خوش ہیں۔ خوشی اُنہیں اِس بات کی ہے کہ سِِسٹم کے بانجھ پن کو خواجہ
سراؤں نے آخر پہچان ہی لیا! مرزا کہتے ہیں۔ ”ہمارا سیاسی نظام بھی کئی
عشروں سے یکسر بانجھ چلا آرہا ہے۔ اور اِسی بانجھ پن کا یہ نتیجہ برآمد ہوا
ہے کہ اِس سے وابستہ لوگ اب ناچ گانے تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ انتخابات
کے موقع پر ووٹ مانگنے والے وہی انداز اپناتے ہیں جو خواجہ سرا بچوں کی
پیدائش پر والدین سے کچھ وصول کرنے کے لیے دُعائیں دیتے وقت اپناتے ہیں!“
ہم مرزا سے متفق ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ خواجہ سرا عوام
کی بلائیں اپنے لیتے ہیں اور عوام سے ووٹ لینے والے دُنیا بھر کی بلائیں
عوام کے سَروں پر لا پٹختے ہیں!
مرزا سیاسی نظام سے مایوس اور شاکی ہیں۔ بنیادی شِِکوہ یہ ہے کہ سیاسی نظام
سے جُڑی ہوئی جماعتوں نے اب تک کچھ خاص ”ڈِلیور“ نہیں کیا۔ کچھ ڈِلیور نہ
کرنے کی صفت یعنی بانجھ پن ہی کے باعث لوگوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔ ایسے
میں خواجہ سراؤں کو سیاسی جماعتوں اور انتخابی سیاست میں اپنائیت کیوں
محسوس نہ ہو!
ایک خواجہ سرا جب کاغذاتِ نامزدگی منظور ہونے کے بعد عوامی رابطہ مہم پر
نکلا تو کسی نے پوچھا ایجنڈا کیا ہے۔ اُس نے جواب دیا۔ ”سُہاگ کے جوڑے کے
رنگ کا ہے۔“
سوال کرنے والے نے وضاحت کی کہ وہ جھنڈا نہیں، ایجنڈا پوچھ رہا ہے۔
بے چارا (یا بے چاری) امیدوار تو پریشان ہوگیا کہ کیا جواب دے۔ سوال کرنے
والے نے مزید وضاحت کی کہ حکومت مِل گئی تو کیا کروگے۔
جواب ملا۔ ”وہی جو سب کرتے ہیں۔ حکومت مِلنے پر سب خوشی مناتے ہیں اور خوشی
مناتے مناتے پانچ سال گزار دیتے ہیں۔ ہم تو ویسے ہی خوش رہتے ہیں۔ اب سوچو
کہ حکومت مِلنے پر ہماری خوشی کا عالم کیا ہوگا!“
سوال کرنے والے نے (اپنا) سر پیٹ لیا! امیدوار کو مزید سمجھایا کہ حکومت
میں آگئے تو عوام کو کیا فائدہ پہنچے گا۔ اب بات امیدوار کی سمجھ میں آئی
اور اُس نے جواب دیا۔ ”جس کِسی کے بھی گھر بچہ ہوگا، حکومت مُفت ناچے گی۔“
یہ غنیمت ہے۔ جن کا بانجھ پن مُسلّم ہے اُن کی نیت، بہر حال، عوام کو کچھ
دینے کی تو ہے۔ اور کچھ نہیں تو چار چھ ”فری آف کاسٹ“ ٹھمکے ہی سہی! اب تک
ہم جنہیں بیلٹ کے ذریعے اپناتے آئے ہیں اُنہوں نے تو اقتدار پاکر تِگنی کا
ناچ نچانے کے سِوا کچھ نہیں کیا!
انتخابی میدان میں نکل آنے والے خواجہ سرا ہار بھی جائیں تو دِل چھوٹا نہ
کریں۔ جو کچھ اُن سے نہیں ہو پاتا وہ دوسرے بھی نہیں کر پائیں گے۔ جو خواجہ
سراؤں کو شکست دیں گے وہ بھی کچھ ڈِلیور کرنے والے نہیں! ایک طرف نئی نسل
تعلیمی امتحانات دے رہی ہے اور دوسری طرف انتخابات بھی سَر پر آچکے ہیں۔
سَر پر آچکے ہیں کہنا اِس لیے دُرست ہے کہ اِس میں بھی لوگوں کو اچھا ریزلٹ
لاکر دِکھانا ہے۔ گزشتہ پارلیمنٹ بیچ کی بے چاری تھی یعنی hung (مُعلّق)
تھی۔ نتائج کے اعتبار سے وہ خواجہ سراؤں کی طرح he میں تھی نہ she میں۔ اگر
اب پھر ویسی ہی hung پارلیمنٹ آئی تو مزید بہت کچھ hang ہو جائے گا اور
عوام کچھ ڈِلیور ہونے کا انتظار ہی کرتے رہ جائےں گے! خدا کرے کہ ماہِ رواں
کے دوسرے عشرے میں بننے والی پارلیمنٹ ”اشرف الُمشکلات“ نہ ہو بلکہ ”دافِعُ
البلا“ ہو! |