اکثر انڈین فلموں کے خاص پریمیم شو پہ سپر سٹار شاہ رخ
خان، سلمان خان یا اسی قبیل کا کوئی خان اپنے پرستاروں کے ہجوم میں جب اپنی
”انٹری “ دیتا ہے تو وہ دو طرح سے ہوتی ہے۔ یا تو وہ کسی جھولانما پینگ سے
اوپر آسمان کی طرف سے اترتا ہے یا نیچے سے کسی لفٹر سے اوپر اسٹیج تک آتا
ہے۔ چونکہ آجکل ہماری سیاست میں بھی ایک سپر سٹار کی چمک دمک نے آنکھوں کو
خیرہ کیا ہوا ہے ، شاید اسی لئے اس کی گلبرگ لاہور کے جلسے میں انٹری کے
لئے آسمان سے کوئی پینگ تو نہ اتاری گئی، البتہ زمین سے اوپر لے جانے کے
لئے ایک لفٹر پکڑ کے لے آیا گیا۔
لفٹر تو وہ لے آئے، یہ نہ سوچا کہ اسٹیج اتنا اونچا بنا لیا ہے کہ جہاں تک
کار اٹھانے والا معمولی لفٹر نہیں پہنچ سکتا۔ چونکہ سیاست کے اس سپر سٹار
کو پورے ملک کی بگڑی ہوئی مینجمنٹ میں تبدیلی لانے کا زعم ہے اس لئے اس نے
اور اس کی انتہائی قابل اور ماہر ٹیم نے اس لفٹر پہ دس پندرہ تختے رکھ کے
اسے اونچا کیا، کوئی ریلنگ یا سپورٹ بھی شاید اس لئے نہ لگائی گئی کہ سپر
سٹار ہیرو کی کوئی جھلک چھپ نہ جائے۔ ساتھ پانچ چھ نہایت صحت مند قسم کے
اپنے وفادار گارڈ سپر سٹار خان صاحب کے ساتھ چڑھا دیئے۔ دھیرے دھیرے لفٹر
ہجوم کے قد سے اونچا ہونے لگا۔ سپرسٹار ہیرو کے قدموں کے نیچے اس کے لئے
تالیاں بجانے والوں کے سروں کی قطار در قطار نظر آنے لگی۔ وہ خوشی سے ادھر
ادھر دیکھ کے مسکراہٹوں کی خیرات بانٹنے لگا۔ ابھی اٹھتے ہوئے لفٹر سے
اسٹیج کچھ گز دور تھا۔ شاید لفٹر ڈرائیور نے اوپر لے جاکے سپر سٹار کو
اسٹیج کی طرف موڑنے کی کوشش کی ہو، یا سپر سٹارخان صاحب کے کسی چہیتے باڈی
گارڈ نے بلندی پہ اپنا توازن برقرار رکھنے کے لئے اپنی جان بچانے کی خاطر
خان صاحب کے جسم کا سہار لیا ہو۔ بہرحال ہزار ہا کیمروں کے روبرو ایک حادثہ
ہوگیا۔ لفٹر پہ کھڑے تمتماتے چہرے اور گلے میں لال سبز چادر پہنے سپر سٹار
خان صاحب کو بچانے کی ڈیوٹی دینے والوں کے قدم ڈگمگاتے ہی انہوں نے خان
صاحب کو سہارے کے لئے پکڑ لیا۔ تین گارڈ اور چوتھے خان صاحب پندرہ بیس فٹ
کی بلندی سے سر کے بل الٹے زمین پہ گرے، پورے مجمعے میں سناٹا چھا گیا۔ ہر
بندہ پریشان۔ ٹیلی ویثرن پہ بھی جس نے یہ منظر دیکھا ، دل پکڑ کے بیٹھ گیا۔
پھر منظر نظر آیا کہ کچھ لوگ خان صاحب کو زخمی حالت میں ہاتھوں میں اٹھا کے
ادھر ادھر کسی ایمبولینس کی تلاش میں بھاگ رہے ہیں۔ اب سپر سٹار خان صاحب
نے تو پورے ملک میں ہسپتالوں کا جال بچھانا ہے ، انہوں نے ہزاروں لوگوں کے
ایک معمولی جلسے کے لئے کسی ایمبولینس کی ضرورت کیوں محسوس کرنا تھا۔ وہاں
کوئی فسٹ ایڈ کا نظام بھی غیر ضروری سمجھا گیاتھا۔ بہر حال بڑے لوگوں کے
پاس ہمیشہ بڑی گاڑیاں ہوتی ہیں، ایمبولینس میں تو غریب غربے سفر کرتے
ہیں۔ایک بڑی گاڑی انہیں پہلے کسی قریبی ہسپتال میں لے گئی۔ فسٹ ایڈ ملی۔
خان صاحب کا اپنا بہت بڑا ہسپتال اسی شہر میں تھا۔ خان صاحب کو وہاں لے
جایا گیا۔ سارے ٹیسٹ ہوئے۔ الحمدللہ، اللہ نے خان صاحب کی جان بچا لی۔ خان
صاحب نے حالت سنبھلتے ہی ایک شاندار بیان بھی ٹی وی کے لئے دے دیا کہ’ میں
نے سترہ سال اس ملک کے لئے محنت کی، (نتیجہ تم نے دیکھ لیا)اب تمہاری باری
ہے۔ ‘
اگرچہ اس پورے سلسلے میں خان صاحب کے ساتھ گرے تین وفادار باڈی گارڈز کے
بارے میں کہیں کوئی خبر نشر نہیں ہوئی کہ ان کا کیا بنا، وہ بچے یا نہیں؟
اتنا تو سب کو پتہ ہے کہ وہ غریب قسم کے لوگ تھے۔ کسی خیراتی ہسپتال میں
شاید ان کی مرہم پٹی ہوئی ہو۔ یہ اس لئے کہ ایسے غریب لوگوں کا علاج خان
صاحب کے اپنے ہسپتال میں کچھ مشکل ہے، مشکل یوں کہ وہاں غریب آدمی سے ایک
ایفی ڈیوٹ لیا جاتا ہے کہ وہ ذکوٰة لینے کا مستحق ہے، غریب اور نادار ہے۔
پھر اگر وہ اپنی غربت کا ثبوت دے دے ، اور زکوٰة کے کاغذوں پہ دستخط کردے
تو اس پر ہونے والا تمام خرچہ اس ہسپتال کی انتظامیہ محکمہ زکوٰة سے وصول
کرلیتی ہے۔ ورنہ وہ ایک شاندار بزنس ہسپتال ہے جو ملک کے کسی بھی بہترین
منافع بخش بزنس ہسپتال کی طرح چلایا جاتا ہے۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ خان صاحب کوخدا نے سلامت رکھا۔ سر اور کمر پہ
کچھ چوٹیں ہیں، انشاءاللہ بہت جلد وہ زخم بھی مند مل ہوجائیں گے ، مگر قوم
، مدتوں تک خان صاحب کی یہ بالی ووڈ سٹائل جلسے کی انٹری ضرور یاد رکھے گی۔
اصل میں مشینی دور کے اعلیٰ تکنیکی لفٹر سے یوں ایکا ایکی سے لوگوں کے سروں
سے اوپر اپنے قدم لے جانے اور قدم قدم سیڑھی چڑھ کے اوپر جانے میں یہی اک
فرق ہے کہ سیڑھی سے چڑھنے والا ایسے کسی ناگہانی حادثے سے بچا رہتا ہے۔ اسی
حقیقت کو سمجھانے کے لئے اردو اور انگریزی سمیت ہر زبان میں کئی معقول
محاورے ہیں، جن کے پیچھے صدیوں کی فوک وزڈم ہے۔ مگر آجکل ہر شے کے لئے جلدی
، تیزی ، بھاگم بھاگ اور افراتفری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خان صاحب کے چاہنے
والے بھی پرانے انداز کی روٹی ہانڈی کی بجائے برگر پسند کرنے والے ہیں، موج
میلا کے شیدائی، گانے بجانے اور دھوم دھڑکا کرنے والے جی دار ہیں۔ انہوں نے
اب ہماری قوم کا رول ماڈل بن کے” کنے کنے جانا اے بلو دے گھر“ گاتے گاتے
ایک دن پوری قوم کو ایسے ہی کسی تختے پہ چڑھا دینا ہے۔خدا کرے قوم کے پیروں
سے پندرہ بیس فٹ کی بلندی سے اِن کا رکھا ہوا کوئی تختہ نہ پھسلے۔ ورنہ قوم
بھی یونہی سر کے بل نیچے گرے گی۔ پریشانی اس لئے بھی زیادہ ہے کہ ہمیں علم
ہو گیا ہے کہ انہوں نے پنڈال میں گانے بجانے کے تو سارے سُر اور سرگم جمع
رکھنے ہیں، ایک ایمبولینس کھڑ ی نہیں کرنی ۔ کسی گاڑی پہ زخمیوں کو چڑھا
بھی لیا تو انہیں راستہ نہیں ملنا۔ کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے
سڑکیں نہیں بنانی، قوم بنانی ہے۔ گویا قائد اعظمؒ نے خدانخواستہ جھک ماری
تھی اوراب ہندوﺅں کو بغلیں بجانے کا موقعہ مل گیا ہے کہ دو قومی نظریہ محض
ایک فراڈ تھا، کیونکہ تم تو ابھی تک ایک قوم ہی نہیں ہو، دو قومی نظریئے کی
موت کے لئے اس سے بہترین زہر اور کیا ہوسکتا ہے؟ واقعی، یہ الیکشن قوم کے
لئے ایک امتحان ہے، تخت یا تختہ؟ |