نورالصباح
گجرات فساد تو آپ کو یاد ہوگا۔ہندوتو کی درندگی بھلا کون بھول سکتا ہے۔اس
فساد نے پوری دنیا میں تہلکہ مچادیاتھا اور گجرات کی زمین مسلمانوں کے لئے
مقتل بن گئی تھی ۔ایک ہندو لیڈر کی ظالمانہ اور جارحانہ کارکردگی نے
جمہوریت کو پاش پاش کردیا ۔اس کی غلط سوچ اور گندی ذہنیت نے غریب عوام کو
نشانہ بنا کر خون کی ہولی کھیلی اور حکومت تماشائی بنی رہی۔
مسلمانان ہند آزادی کے 66 برسوں بعد بھی سیاسی پارٹیوں کو سمجھنے میں ناکام
رہے ہیں ۔ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہونے کے باوجود اس کی آواز کو یکسر ان سنا
کر دیا جاتا رہا ۔اس کے خلاف سازشیں کی جاتی ہیں اور جمہوریت کا دم بھرنے
والے ملک میں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کا خون بہانے والے کو قتل و غارت گری
کا بازار گرم کرنے کے لئے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔
گجرات میں فساد سے لے کر آج تک مسلمانوں کی تعلیمی،معاشی اور رہائشی صورت
حال میں کوئی نمایاں تبدلی نہیں آئی ہے۔تبدیل ہوا ہے تو نریندر مودی کا
کردار۔گجرات کی آگ اور معصوم بے بس مسلمانوں کی آہ و فغاں نے مودی کے ا علیٰ
رتبے کو ایک آن میں بکھیر کر رکھ دیا تھا آج وہ ایک بار پھر پروان چڑھنے
لگا ہے۔اس پر عدالت کی جانب سے جو شکنجہ کسا گیا تھا وہ بھی اب بے اثر ثابت
ہورہا ہے۔ یہ وقت کی ستم ظریفی ہے کہ اسے آج نہ صرف ہندؤ ں کا محافظ قرار
دیا جارہا ہے بلکہ وزیر اعظم کے عہدے کی دعویدار ی کی دوڑ میں بھی شامل کر
دیا گیا ہے۔بلکہ مودی نے تو وزیر اعظم بننے کی تیاریاں بھی شروع کردی ہیں ۔آج
وہ بڑے بڑے بزنس مین اور تاجروں کے دوست بن گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مکیش
امبانی نے مودی کی لیڈر شپ کو متاثر کن بتا یا ہے۔ ان کے بھائی انل ان کو
رول ماڈل کہتے نہیں تھک رہے ہیں ۔ وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ گاندھی جی کے
بعد گجرات کو مودی کی شکل میں سب سے بہتراور کامیاب لیڈر ملا ہے۔ رتن ٹا ٹا
انھیں ایک مثالی لیڈر بتاتے ہیں۔ سنیل متل یہ کہتے ہیں کہ مودی وزیر اعظم
بننے کی تمام صلاحیت رکھتے ہیں۔اگر اچھی حکومت کا معیار یہ ہے کہ سر مایہ
کاری کے لئے بہتر مواقع فراہم کئے جائیں تو کہا جا سکتا ہے کہ اس معاملہ
میں مودی کامیاب ہیں۔لیکن جہاں بات جمہوری ملک میں حکومت کرنے کی آتی ہے تو
مودی کی شخصیت دور تک نظر نہیں آتی۔
مگر یہ بھی درست ہے کہ اس کی سازشوں نے بھلے ہی گجرات میں کہرام مچا دیا ہو
لیکن یہی چیزیں مودی کے لئے فائدہ بھی مند ثابت ہوئی ہیں ۔
مودی اپنی شخصیت کو ابھارنے اور شہرت حاصل کرنے کا گر بہت اچھی طرح جانتے
ہیں۔ پچھلے کئی مہینوں سے وہ منظم ڈھنگ سے اپنی شبیہ اسی طرح پیش کر رہے
ہیں کہ جیسے وہ اقتصادی ترقی اور خوشحالی کے مسیحا ہوں۔ انہوں نے اپنی
سیاسی تشہیر کے لیے ایک بڑی کمپنی کی خدمات بھی حاصل کی تھیں۔مودی کو اپنے
رقیبوں اور مخالفین کو بے اثر کرنا بہت اچھی طرح آتا ہے۔ ان کی جماعت بی جے
پی اور ان کی نظریاتی ہندو تنظیم آر ایس ایس میں ان کے طریقہ کار کی مخالفت
کے باوجود ان کے خلاف براہ راست بولنے کی کو ئی جرات نہیں کر سکتا۔ جس کا
اثر ہمیں گجرات انتخاب میں صاف نظر آیا ۔مودی کی کامیابی نے سبھوں کو حیران
کردیا اور سکتے میں ڈال دیا ۔مسلسل تیسری مرتبہ مودی کی کامیابی نے اسے
وزیر اعظم کے عہدے تک لا کھڑا کیا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک طویل عرصہ
گزرجانے کے باوجود تشدد ،بد نصیبی ،محرومی کا وہ سفر اب تک نہیں تھما ہے جس
کی شروعات گجرات فساد میں ہوئی تھی۔نریند مودی کی حکمرانی میں مسلمانوں کو
جس قدر ہراساں اور پریشان کیا جارہا ہے وہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ
ہندستان میں جمہوری آئین کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔مسلمانوں پر کبھی دہشت
گردی کا الزام لگا کر انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے تو کبھی فساد
کا شکار بنا کر ان کا گھر بار لوٹ لیا جاتا ہے۔ ایک تجزے کے مطابق آج گجرات
میں بوہرہ مسلمانوں ک کو چھوڑ کر سبھی تاجروں کا کاروبار بند ہوچکا ہے اور
انہیں نت نئی دشواریوں سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔ بوہروں کا کہنا ہے کہ فساد
کے بعد انہوں نے مودی حکومت سمجھوتہ کرنے میں ہی عافیت سمجھی اور آج وہ بہت
خوش ہیں وہ سنی مسلم اقلیت سے با لکل الگ ہیں اس لئے وہ مودی کا ساتھ دے کر
تمام مراعات حاصل کر رہے ہیں ۔ایک ہندو شخص جو کہ مسلمانوں کی معاشی بد
حالی کو دور کرنے اور انہیں فوری مدد پہچانے کا کام کرتا ہے اس نے دو ٹوک
کہا کہ اگر میرے ساتھ اتنا کچھ ہوا ہوتا تو میں یقیناً آج دہشت گرد بن گیا
ہوتا ۔لیکن گجرات کے مسلمانوں میں صبر کا مادہ بہت زیادہ ہے اس لئے وہ اب
تک صبر ہی کررہے ہیں۔ان سب کے باوجود گجرات میں مودی کی جیت اور وزارت
عظمیٰ کی دعویداری قابل ستائش ہے۔ذرائع ابلاغ نے جس طرح اچانک مودی کے وزیر
اعظم بننے کی بحث چھیڑ دی ہے وہ کسی سوچی سمجھی سازش سے کم نہیں ۔لیکن سوال
یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت کو پاش پاش کرنے والاایک شخص ، مسلمانوں سے
نفرت کرنے والا ، فرقہ وارانہ فساد کروانے والا ،مسلمانوں کے خلاف اشتعال
انگیز تقریر کرنے والا ،وزیر اعظم کیسے بن سکتا ہے؟
مودی گجرات کی ترقی اور فلاح کا دم بھرتے نہیں تھکتے انہوں نے گجرات کی
ترقی کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا کہ گجرات آسانی کے ساتھ چین کو شکست دے
کر عالمی صنعتی مرکز بن سکتا ہے۔ لیکن آج اگر گجرات کے مسلمانوں کے حالات
کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آج تک نہ ان کے سر پر چھت ہے اور نہ
کسی کا سہارا۔مالی اعتبا رسے بھی وہ کمزور اور لاچار ہیں وہ سبھوں سے پچھڑے
ہوئے ہیں لیکن مودی حکومت ان کے لئے کچھ نہیں کر رہی ہے ۔ مودی کا رویہ
اقلیتوں کے ساتھ کیسا ہے اس سے سبھی واقف ہیں ۔ 2002 میں گجرات فساد کے
متاثرین کے لئے ریلیف کیمپ قائم کرنے اور متاثرین کو معاوضہ دینے کے مطالبہ
پر مودی نے کوئی توجہ ہی نہیں دی۔انٹر نیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ
نے گجرات میں بھوک کی شرح بہت ہی زیادہ تشویشناک بتا یا ہے، یہاں کی حالت
یہ ہوگئی ہے کہ دوسری ریاستیں جو غریب ہیں وہاں بھی بھوک سے اتنی اموات
نہیں ہوتیں جتنی اموات گجرات میں ہوئی ہیں۔ یہاں تک کہ گجرات کی حالت اڑیسہ
اور یوپی سے بھی زیادہ بری ہے۔ پانچ سال سے کم کے 45 فیصد بچے غذایت کی کمی
کے شکار ہیں ۔ الغرض معاشی ترقی اور حقیقی ترقی کے درمیان ایک سراب بنایا
گیا ہے جس کی وجہ سے ہم مودی کا اصل گجرات نہیں دیکھ سکتے۔ایسے شخص کے وزیر
اعظم بننے کے بعد ہندستانی مسلمانوں کا کیا حشر ہوگا یہ سوچ کر بھی دل کانپ
جاتا ہے۔
بی جے پی نے یہ کبھی نہیں کہا کہ وہ مسلمانوں کی دوست ہے۔لیکن کانگریس
ہمیشہ ہی مسلمانوں کی فلاح وبہبودی ،خیر خواہی کا دم بھرتی رہی ہے اور وقفے
وقفے سے سنجیدگی کا اظہار بھی کرتی رہی ہے۔درحقیقت اگر یوپی اے حکومت چاہتی
تو وہ مسلمانوں کے لئے بہت کچھ کر سکتی تھی لیکن جب بغیر کچھ کئے ہی مسلمان
ان کا ساتھ دینے کو تیار بیٹھے ہیں تو پھر ان کے لئے کچھ کرنے کی کیا
ضرورت؟ سچ تو یہ ہے کہ آج گجرات میں مسلمانوں کا کوئی مستقبل باقی نہیں بچا
ہے۔مالی اعتبار سے لوگوں کی بد حالی اور زبوں حالی کا منظر اس قدر افسوس
ناک ہے کہ بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ مسلم اکثریتی علاقے کو یکثر نظر انداز
کیا جاتا رہا ہے ۔ وہاں کی سڑکیں خستہ حال، سڑک ناپید، بجلی نہ کے برابر،
یہ چیزیں مودی کے گجرات کا حصہ ہیں۔ گجرات ہی وہ واحد ریاست ہے جس نے
اقلیتی طلبا کو اسکالرشپ اسکیم میں اپنی حصہ داری نبھانے سے انکار کردیا
ہے۔ مسلم طلبا کو اسکالر شپ نہیں ملنے کی وجہ سے 36 فیصد مسلم طلبا اسکول
سے باہر ہیں۔فساد کے شکار ہوئے افراد کے بچے اب تک معقول تعلیم سے قاصر
ہیں۔ آج بھی مسلمان ہندو کے علاقے میں داخل ہونے سے ڈرتا ہے اور دور سے
مندر کی گھنٹی کی آواز سن کر کترا کر نکل جاتا ہے۔یہ احساس ہے اس خوف کا اس
کرب کا جسے لوگ آج بھی نہیں بھلا پائے ہیں ۔جس ریاست میں وزیر اعلی کی دہشت
گردی سے مسلمان ڈرے سہمے رہتے ہیں ۔اسے جمہوری ملک میں وزیر اعلیٰ کے عہدے
کا دعویدار کہا جاناکیسا انصاف ہے؟
آج فساد زدہ متاثرین کو کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔انہیں ریلیف
آرگنائزیشن اور کمیٹیوں کی مدد کے علاوہ کسی اور سے سہارے کی امید بھی نہیں
ہے۔کیونکہ ان کی بدحال زندگی کی روداد سننے آج کوئی نہیں آتا لیکن 2012 کے
انتخاب کے وقت مسلمان بستیوں میں غیر مسلم رہنماں نے کئی بار چکر لگائے اور
بڑے بڑے وعدے کر کے چلے گئے۔آج ان کے پاس آتے ہیں تو صرف صحافی اور کیمرہ
مین جو ان کی بدحال زندگی کی عکاسی کر کے سماج کو اس کا آئینہ دکھانا چاہتے
ہیں ۔لیکن ذرائع ابلاغ کی آمد بھی اسی وقت ہوتی ہے جب انہیں خبروں کی کمی
محسوس ہوتی ہے۔شاید ہمیں بھی گجرات کے مسلمانوں کی یاد اس لئے آئی ہے
کیونکہ نریندر مودی موضوع بحث ہیں ۔ |