پاکستان میں عام انتخاب کے لئے پولنگ میں اب چند روز رہ
گئے ہیں۔انتخابی مہم جو 13 مارچ کو نامزدگی داخل کرنے کی آخری تاریخ سے
شروع ہوئی تھی ،اب اپنے اختتام پر ہے۔مقررہ پروگرام کے مطابق ۱۱ مئی کوملک
بھر میں پولنگ ہوگی۔ اگرچہ پولنگ کی ڈیوٹی پر تعینات کچھ عملے نے دہشت
گردانہ حملوں کے اندیشے سے اپنی ڈیوٹی انجام دینے سے بچنا چاہا ہے، مگر
امید ہے کہ الیکشن کمیشن اس بحران پر قابو پالیگا ۔ انتخابی مہم کے دوران
اگرچہ دہشت گرد حملوں کے متعدد واقعات پیش آئے مگر اس کے باوجود انسانی خون
کے پیاسے عسکریت پسند انتخابی مہم کو پٹری سے اتارنے میں کامیاب نہیں
ہوسکے۔اب ایسے پرچے تقسیم کئے جارہے ہیںجن میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا
گیا ہے اور منطق یہ بیان کی گئی ہے خواتین کے شرعاًسیاست میںحصہ لینے کی
اجازت نہیں دیتا۔ انکی یہ دلیل فاسد ہے اورشریعت سے متصادم ہے۔جو دین حضرت
محمدﷺ کی ذات مبارکہ سے ہم تک پہنچاہے اس میں اجتماعی امور میں خواتین کے
کی رائے اورفیصلوںپر اثر انداز ہونے میں کوئی پابندی نہیں ہے۔ صلح حدیبیہ
کے موقع پر خود نبی کریم نے ایک نازک مرحلہ پر ام المومنین حضرت ام سلمٰی ؓسے
مشورہ کیا اوران کی رائے پر عمل کیا جس سے ایک بڑا بحران ٹل گیا۔ حضرت علی
ؓ کے دورمیں ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کی اجتماعی امور میں عملی دلچسپی بھی
معلوم ہے۔ شاید یہ عسکریت پسند، جو خواتین کواسی طرح غلام بناکر رکھنا
چاہتے ہیں جس طرح دورِ جاہلیت میں رکھا جاتا تھا، شاید خود کو رسول کے
محترم صحابیوں ؓ اور امہات المومینؓ سے بھی زیادہ دین کا شارح خیال کرتے
ہیں۔
ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستانی عوام اب اس حقیقت کو سمجھنے لگے ہیں کہ
اسلام کا نام لیکر یہ جولوگ دہشت گردی پھیلاتے ہیں، وہ دراصل مخالفین اسلام
اور ملک دشمن طاقتوں کو ہی تقویت پہنچاتے ہیں اور اسلام کے نمائندہ ہرگز
نہیں ہیں۔حال ہی میں ایک رپورٹ آئی ہے جس سے منکشف ہوتا ہے کہ اس تحریک کے
تار اسرائیل سے جڑے ہوئے ہیں۔ چنانچہ قیام اسلام اور نفاذ شریعت کا بہانا
بناکر انہوں نے جو طور طریقے اختیار کئے ہیں وہ سنت نبوی ، خلفائے راشدین و
مہدین، آئمہ کرام اور مشائخ عظام کے طریقوں سے متصادم ہیں۔ تاریخ عالم میں
کسی نبی یا ہادی نے قیام شریعت کے لئے بے قصوروں کے خون کو روا نہیں رکھا۔
جو بے قصوروں کی جانیں لینے کو جائز سمجھتے ہیں وہ اسلام کے نہیں ، دشمنان
اسلام کے ہی نمائندہ ہوسکتے ہیں۔معاشرے پر اب ان کو جور و ستم زیادہ دن
چلنے والا نہیں ہے۔جس کی ایک علامت یہ ہے کہ فاٹا اور خیبر پختون خواہ کی
خواتین نے، جہاں عسکریت پسندوں کا زیادہ زورچلتا ہے، بڑی حوصلہ مندی سے ان
کو جواب دینا شروع کردیا ہے۔ چنانچہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فاٹا
اور پختون خواہ سے نیشنل اسمبلی کی 20 سیٹوں پر اور ریاستی اسمبلی کی 35
سیٹوں پر (کل ۵۵)خواتین امیدوار میدان میں اتری ہیں۔ سیاسی پارٹیوں نے اور
عام قبائلی باشندوں نے ان کی اس جراتمندی کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ہم امید
کرسکتے ہیں کہ پاکستان کے پچھڑے ہوئے علاقہ کی خواتین کی یہ حوصلہ مندی ایک
تاریخی واقعہ ثابت ہوگی۔ ان انتخابات کی دوسری تاریخی اہمیت یہ ہے کہ
پاکستان میں پہلی مر تبہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر چنی ہوئی کسی حکومت نے
اپنی پانچ سالہ مدت کو پورا کیا ہے اور اب اسی کے تسلسل میں یہ چناﺅ ہورہے
ہیں۔لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ اس کے ساتھ ملک میں سول حکمرانی کی
بالادستی بھی قائم ہوگئی ہے یا معاشرے میں سیاسی شعور میں پختگی آگئی ہے۔
ممبئی پر دہشت گرد حملہ، سرحد پر سپاہی کا سرقلم کرکے لیجانے کی حیوانیت
اور لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں ہندستانی قیدی سربجیت پر قاتلانہ حملہ اس
بات کی علامتیں ہےں کہ پاکستانی نظام میںکچھ طاقتور عناصر ایسے موجود ہیں
جو سیاسی نبض کے علی الرغم خارجہ امورکو متاثر کرتے ہیں ۔ یہ درندہ صفت
عناصر اور ان کے سیاسی آقا اس ذہنی کیفیت سے باہر نکلنے پر آمادہ نہیں جس
کی شعلہ سراپا مثال سنہ 1971ءکے اس واقعہ کی ہے جب ہندستان کا ایک مسافر
طیارہ اغوا کرکے لاہور لیجایا گیا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو کی موجودگی
میں اس کو نذر آتش کیا گیا تھا اور ہندستان کے ساتھ ایک ہزار سال تک جنگ
لڑنے کے نعرے نے عوام کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا کردیا تھا۔ اسی نادانی
کا خمیازہ یہ پہنچا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ملک دولخت ہوگیا۔ہرچند کہ حسینہ
واجد کی نادانی کی بدولت پاکستان کا وہ حصہ جو کبھی مشرقی پاکستان تھا
اوراب بنگلہ دیش ہے، ایک مرتبہ پھر ہذیانی کیفیت میں مبتلا ہے مگرآثار
بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ماحول بڑی حد تک بدل گیا ہے۔ سیاست داں اور عوام
ہند دشمنی کی اس کیفیت سے باہر آر ہے ہیںجو 1971ءکی دہائی میں عروج پر تھی۔
اس تبدیلی کا اظہار حالیہ انتخابی مہم کے دوران خوب ہوا ہے۔
اس انتخابی دنگل میں اگرچہ کئی جماعتیں میدان میں ہیں، مگر ان میں اہم سابق
وزیر اعظم نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) ، آصف علی زرداری کی پی پی پی، سابق
کرکٹر عمران خان کی تحریک انصاف پارٹی، جماعت اسلامی پاکستان ، نیشنل عوامی
پارٹی اور ایم کیو ایم وغیرہ ہیں۔ پاکستان پیوپلز پارٹی نے اپنے پانچ سالہ
دور اقتدار میں ہند کے ساتھ خاص طور سے تجارت کے فروغ کے جو اقدامات کئے
ہیں ،ان سے یقینا دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلق کی راہ کھلی ہے۔ممبئی پر
اگر دہشت گرد حملہ نہ ہوا ہوتایقینا دوطرفہ تعلقات کی نوعیت مزید بدل چکی
ہوتی۔اگر سرحد پر فوجی کا سر قلم کرکے لیجائے کا غیر انسانی معاملہ پیش نہ
آیا ہوتا تو یقینا ویزا کے نئے ضوابط بھی جاری ہوگئے ہوتے۔ ان واقعات سے
صاف عیاں ہے کہ سول حکومت کی اعلان شدہ ترجیحات کے خلاف ایسی مضبوط طاقتیں
وہاں متحرک ہیں جو تعلقات کی استواری کی حامی نہیں ہیں۔ ان عناصر کو عوامی
دباﺅ سے ہی قابو کیا جاسکے گا۔
ایسے عناصر ہندستان میں بھی موجود ہیں جو جذباتی نعرے لگاتے ہیں۔ ایک سر کے
جواب میں دس سر کاٹ لانے اور مذاکرات کو معطل کرکے ہائی کمشنر کو واپس
بلانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں تکلف نہیںکہ پڑوسی ممالک خصوصا
پاکستان اور چین کے ساتھ ہند کے تعلقات میںجو ہمواری نظرآتی ہے اس میں
باجپئی جی کی دوراندیشی اور جراتمندی کو بڑا دخل ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ
چاہے معاملہ چین کا ہو یا پاکستان کا، مخالفت میں جذباتی مطالبے وہ لوگ
کرتے ہیں جو خود کو اٹل بہاری واجپئی کی سیاسی وراثت کا امین بتاتے ہیں اور
آج بھی سابق جن سنگھی ذہنیت سے باہر آنے کو تیار نہیں۔ لیکن تجارت کا
پھیلاﺅ جیسے جیسے بڑھے گا اور اس کافائدہ چھوٹے تاجروں کو اور عوام کو
منتقل ہوگا،اس طرح کی جذباتی سیاست کا زور ٹوٹے گا۔ پاکستان کے اگروہ
اندیشے دور ہوجائیں جو افغانستان کے ساتھ ہند کے رشتوں سے وہ محسوس کرتا ہے
تو بہت سارے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔افغانستان سے روس کے انخلا کے
بعد، جس میں پاکستان نے اہم رول ادا کیا تھا، پاکستانی حکام افغانستان کو
اپنا پانچواں صوبہ سمجھنے لگے ہیں اور اس کی خودمختاری کا احترام نہیں کرتے
اوریہ چاہتے ہیں دیگر ممالک کے ساتھ اس کے سارے رشتوں کی نہج اور نوعیت
اسلام آباد میںطے ہو۔ پاکستان کو اس ذہنیت سے نجات پانی ہوگی ۔ حالیہ
انتخابی مہم میں اس جانب پیش قدمی کے بھی کچھ آثار نظرآئے ہیں۔چنانچہ
انتخابی مہم کے دوران یہ آوازیں اٹھنے لگی ہیں کہ پاکستان کے راستہ ہند
افغانستان اور ہند ایران تجارتی راستے کھولے جائیں۔ اس راہداری کا کھلنا
تجارتی نقطہ نظر سے اس پورے خطے کے لئے بیحد مفید ہوگا ۔
سابق وزیر اعظم نوازشریف کا ایک بیان ۷مئی کو ہی آیا ہے جس میں انہوں نے
ہند کے تعلق سے چند اہم باتیں کہی ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ اگر میں وزیر اعظم
بن گیا تو اس بات کو یقینی بناﺅں گا کہ پاکستان کی سرزمین کبھی ہندستان کے
خلاف استعمال نہ کی جائے۔ پاکستان کو بشمول حافظ سعید کسی کو بھی ہند کے
خلاف تقریریں کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ دوسری بات انہوں نے یہ کہی ہے
کہ مسئلہ کشمیر کو ہند پاکستان تعلقات کی استواری میں رکاوٹ نہیں بننے
دیاجائیگا۔ یہ اسی پالیسی کا تسلسل ہے جو سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی
اور سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے دور میں اختیار کی گئی تھی اور جس کی
بنیاد پر ہند کو تجارت میں ترجیحی ملک کا درجہ دینے کا اصولی فیصلہ ہوا
تھا۔ تحریک انصاف پارٹی نے بھی اپنے منشورمیں کہاہے پڑوسی ممالک کے ساتھ
دوطرفہ تعلقات کو استوار کیا جائیگا۔ یہ اعلان بھی کیا ہے گیا ہے ہند
افغانستان اور ہند ایران تجارت کے لئے راستے کھولے جائیں گے۔ یہ آواز بھی
اٹھ رہی ہے قیدیوں کا معاملہ انسانیت نوازی کی بنیاد پر حل کیاجائے اور ہم
سمجھتے ہیں اس کو فوری ایجنڈے میںشامل کیا جانا چاہئے۔
19فروری 1999ءکو جب وزیراعظم باجپئی تاریخی مشن پر بس سے لاہور پہنچے تھے
تو میں وہاں موجود تھا۔ عام طور پر وہاںکی فضا ہند کے ساتھ ”بغیر کشمیر
حاصل کئے“ تعلقات کی بحالی کے حق میں نہیں تھی۔میں نے جماعت اسلامی کا وہ
جلوس دیکھا تھا کہ جو لاہور میں ہند کے وفد کے استقبال کی مخالفت میں
نکالاگیا تھا ۔اس میں جس طرح نعرے لگائے جارہے تھے، ان سے اندھی ہند دشمنی
کا دھواں اٹھ رہا تھا۔ مجھے مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد کا وہ خطبہ بھی سننے کا
موقع ملا تھا جس میں انہوں نے ہند پاکستان روابط کی استواری کی شدیدمخالفت
کی تھی۔ یہ مخالفتیں اس وقت کے وہاں کے عوامی مزاج کی عکاس تھیں۔ لیکن اپنی
وفات سے چند سال قبل ڈاکٹر صاحب ہند تشریف لائے تو ان کا لب ولہجہ بدلاہوا
تھا۔ابھی حال ہی میں جماعت اسلامی ہند کے امیرمولاناسید جلال الدین عمری کے
دورہ پاکستان کی جو رودادیں پڑھنے کو ملیں ان سے اندازہ ہوتا ہے جماعت
اسلامی پاکستان کے ہند مخالف موقف میں بھی تبدیلی آئی ہے۔اس کا سبب امریکا
کی وہ پالیسی ہے جس سے پاکستان ہی نہیں پورا عالم اسلام عاجز ہے اور اب یہ
نظریہ طاقت پارہا ہے تیسری دنیا کے ممالک اپنی کمر مضبوط کریں، باہم ایک
دوسرے کا سہارا بنیں، اپنے علاقائی تنازعات کو خود حل کریں تاکہ بیرونی
طاقتوںپرانحصار کی ضرورت نہ رہے۔
اہم بات یہ ہے اسی ہفتہ ہند کے وزیر خارجہ سلمان خورشید نے تہران کے دورہ
میں ایران، پاکستان ، ہند گیس پائپ لائن معاہدے پر از سر نو مذاکرات کا
عندیہ ظاہر کیا ہے اور سربجیت کے سانحہ کے باوجود پاکستان کو ردعمل منفی
نہیں۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ الیکشن کے بعد وہاں جو بھی حکومت آئیگی اس کی
ترجیحات میں ہند کے ساتھ تعلقات کی استواری شامل رہے گی۔امید کی جاسکتی ہے
اگر جمہوری نظام مضبوط ہوگا تو فوج بھی اسی طرح سول کنٹرول کو قبول کرلیگی
جس طرح ترکی میں ہوا ہے۔ |