ہندو پاک کے تعلقات خواہ کسی بھی سطح پر ہوں ، ان پر پوری
د نیا کی نگاہیں ٹکی ہوتی ہےں ۔ دونوں ممالک کے کھیل ، تجارت اوردیگر
تعلقات پوری دنیا کے لئے اہم موضوعات ہوتے ہیں ۔ دونوں ممالک کے اقدامات سے
کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دشمنی کی برف پگھل جائے گی اور دونوں ممالک کے
درمیان دوستی کا صاف وشفاف چشمہ رواں دواں ہوگا ، مگر بد قسمتی سے یہ احساس
دیر پا نہیں ہو پاتا کہ کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ سامنے آتا ہے ، جس کے بعد
پھر سے منافرت اور عدم اعتماد کی گرم گرم لپٹیں اٹھنے لگتی ہیں ، طعن
وتشنیع ، دفاعی انداز میں بحث ومباحثہ اور بیان بازی کا بازار گرم ہوجاتا
ہے ، اس طرح ہمارے ارباب اقتدار وہیں کے وہیں پہونچ جاتے ہیں ، جہاں سے چلے
تھے اور یاجو ج وماجوج کی کہانی کا احساس ہونے لگتا ہے ۔
ہندو پاک کی خلیج پاٹنے کے لئے بارہا اقدامات ہوئے اور خوش کن نتائج کے
سامنے آنے کا احساس بھی ہو ا، حالیہ دنوں ہندو پاک دوستی کے تعلق سے جو
اقدامات ہوئے ، وہ بھی فی الواقع خوش آئند تھے ۔ سابق پاکستانی وزیر خارجہ
حناربانی کھر کی ہندوستان آمد اورقابل قدر گفتگو ، پھر 26/11کے معاملہ کو
لے کر وفد کی آمد ورفت ، کرکٹ کی بحالی ، دیگر تجارتی تعلقات اورویز
اقوانین میں نرمی ، یہ سب ایسے واقعات تھے ، جن سے احساس ہی نہیں بلکہ امید
ہو گئی تھی کہ کوئی نہ کوئی حل ضرور نکلے گا ، مگران کے باوجود آفت ناگہانی
کے طورپر دوہندوستانی فوجیوں کے قتل کا معاملہ سامنے آیا ، جوکہ کسی بھی
طرح سود مند نہیں تھا ۔ ہندو پاک سرحد پر امن کے دیئے روشن رکھنے کے لئے
جوباہمی عہد وپیمان ہوئے ، ان کے مطابق یہ واقعہ حددرجہ افسوسناک تھا اور
دوستی کی فضا کوآلودہ کرنے والا بھی ۔کارگل کی لڑائی بھی مداخلت کی وجہ سے
ہی رونمائی ہوئی ، یہ بات الگ ہے کہ اس میں کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت ۔
باہمی عہد وپیمان کی خلاف ورزی کا یہ واقعہ کوئی پہلی دفعہ ہی رونما نہیں
ہوا تھا ، بلکہ پاکستانی شدت پسندوں کی جانب سے ہندوستان میں مداخلت کی
2010میں 498، 2009 میں 485، 2008 میں 342اور 2007 میں 535دفعہ کوشش ہوئی ہے
، یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ ہندوستان پاکستانی مداخلت سے متفکر رہتا ہے ، سابق
وزیر مملکت برائے داخلہ ملاپا لے رام چندرن نے لوک سبھا کے ایک بیان میں
3دسمبر 2012کو کہا تھا کہ ہندوستانی سرحد سے متصل علاقوں میںد ہشت گردوں کے
42کیمپ موجود ہیں ، ان کیمپوں میں پل رہے شد ت پسند ہندوستانی سرحد میں
مداخلت کرنے کی تاک میں لگے رہتے ہیں ۔
نہ جانے اب کیوں پاکستان نے کھل کر ہندوستان کے اندرونی معاملات میں دخل
اندازی شروع کردی ہے ، سرحد کا معاملہ تو مشترکہ ہے ، باہمی عہد وپیمان کی
ڈور سے جڑا ہے ، اس کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کرنا کسی بھی نظریہ سے درست نہیں
ہے ، چہ جائے کہ کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے
۔ چند دنوں قبل افضل گرو کے معاملہ میں بھی پاکستان نے مداخلت کی اور ایک
قرارد اد پیش کرکے اس کی پھانسی کی مذمت کی ، ساتھ ہی ساتھ اس کی لاش کو
اہل خانہ کے حوالہ کرنے کی بات کہی ، اسی طرح رحمان ملک نے بھی کچھ دنوں
قبل کہا کہ اداکار شارخ خان ہندوستان میں محفوظ نہیں ہےں ، انہیں تحفظ
فراہم کرنے میں ہندوستانی حکومت ناکام ہے ۔
ظاہر ہے کوئی بھی ملک اندرونی معاملات میں دوسرے ملک کی مداخلت برداشت نہیں
کرسکتاہے ، لہذ اہندوستان نے بھی پاکستان کو کھری کھری سنائی اور کہا کہ
تحفظ کے تعلق سے ہندوستانی مسائل پر گفتگو کرنے سے قبل پاکستان اپنے ملک کا
جائزہ لے ، افضل گرو کے تئیں پاکستان کے قرارداد پر وزیر خارجہ سلمان
خورشید ، راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر ارون جیٹلی اور لوک سبھا اسپیکر میرا
کمار نے بیک زبان کہا کہ پاکستان کو ہندوستان کے اندرونی معاملات میں دخل
اندازی نہیں کرنی چاہئے ، ارون جیٹلی نے یہانتک کہا کہ پاکستان اگر اپنی
ایسی حرکتوں سے بازنہیں آتا ہے تو اس سے تمام تر تعلقات منقطع کرلینا ہی
بہترہے۔
سابق وزیر خارجہ حناربانی کھر نے ہندوستان آمد سے قبل لاہور ایئر پورٹ اور
دہلی میں جو کہا تھا ، وہ واقعی قابل قدرتھا ، ایسا محسوس ہوا تھا کہ فی
الواقع پاکستان بھی پڑوسی ملک سے دوستی کا خواہاں ہے ، انہوں نے کہا تھاکہ
پاکستان اپنے ہمسایہ ملک کو امن کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس سے اچھے
تعلقات کا خواہاں ہے ، انہوں نے مزید کہا تھا کہ ہندوستان اورپاکستان اچھے
اوربہتر پڑوسی کی طرح آگے بڑھ سکتے ہیں ، دونوں ممالک نے تاریخ سے سبق
سیکھا ہے اور ماضی کی تلخ یادوں کو بھولنے کی ضرورت ہے ، اسی کے ساتھ انہوں
نے یہ بھی کہا تھا کہ پاکستانی حکومت ، سیاسی جماعتیں اور عوام ہندوستان کے
ساتھ دوستانہ رشتہ کے خواہشمند ہےں ، جس کے لئے دونوں حکومتوں کو مضبوط
رویہ اپنانے کی ضرورت ہے ۔
محترمہ حنا ربانی کھر کے پر مٹھاس جملوں کے بعد تجارتی آہٹ کے خوش آئند’
احساس ‘کو بھی سپر دقلم وقرطاس کرنا محض فضول نہیں ہے ۔ پاکستانی سرمایہ
کار اور چند ایک ارباب اقتدار بھی خوش دلی سے چاہتے ہیں کہ ہندوپاک کے
درمیان تجارتی رشتہ بحال ہو ، تاکہ دونوں ممالک کے عوام کو ایک دوسرے کو
سمجھنے کا موقع ملے ، یہی وجہ تھی کہ گذشتہ دنوں تجارتی محاذ پر ہلکی سی
پیش رفت نظر آئی ، ہندوستان نے بھی دلچسپی دکھائی اوراٹاری واگہہ سرحد پر
جدید سہولیات سے لیس انٹگر یٹیڈ چیک پو ست ’ICP‘کا افتتاح کیا ، جس سے
تجارتی سرگرمیاں تیز تر ہوئیں ، اس کے ساتھ ہی دونوں ممالک نے بینک شاخ
کھولنے کا بھی اشارہ دیا اور انڈین اسکول آف بزنس ’ISB‘اور کراچی کے انسٹی
ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن ’IAB‘ نے بھی معاہدہ کیا تھا ۔
ان پیش رفت کے ساتھ ساتھ کرکٹ بحالی کا مسئلہ بھی حل ہوا اور پاکستانی ٹیم
نے ہندوستانی سرزمین پر میچز بھی کھیلے ، ناقابل افسوس کوئی واقعہ بھی پیش
نہیں آیا ، پھر ایڈن گارڈن کی سلورجبلی تقریب میں کئی سابق پاکستا نی
کھلاڑیوں کو بھی اعزاز سے نوازا گیا ۔ یہ سب ایسی باتیں تھی جو ایک دوسرے
کو قریب کررہی ہیں ، ان سے ایسا ہی محسوس ہوتاہے کہ واقعی دونوں ممالک
دوستی کا ہاتھ ملانا چاہتے ہیں ، مگر فوجیوں کی ہلاکت کا جو معاملہ پیش آیا
ہے ، اس نے پھر بدمزگی پیدا کرد ی اور اب قیدیوں کا معاملہ گرمایا ہواہے ۔
پاکستانی اعلی حکام اور ارباب سیاست کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ وہ بھی
دوستی کے تعلق سے نیک نیت ہےں، مگر ان کے کردار واضح کرتے ہیں کہ ان کے قول
وعمل میں تضاد ہے ، کیونکہ اگر ان کے اقوال وافعال میں یکسانیت ہوتی تو ہ
باہمی عہدوپیمان کے ایفا میں سنجیدگی کا مظاہر ہ کرتے ، ہندوستان کے
اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے، ان کا سنجیدہ نہ ہونا دوستی کی
مٹھاس کے لئے زہر ہے ، ماضی قریب میں ہی پاکستانی فوجیوں نے باہمی معاہدوں
کی کئی مرتبہ خلاف ورزیاں کی ہیں ، اگر وہاں کے حکام سنجیدہ ہوتے تو اپنی
فوج کو سنجیدگی کا مظاہرہ اور ایفائے عہد کے لئے مجبورکرتے ۔ حنا ربانی کھر
کے بیانات تودلچسپ تھے ، تجارتی اقدامات خوش آئند تھے اور کرکٹ بحالی کی
رضامندی بھی خوش کن تھی ، مگر باہمی عہد وپیمان کے لئے سنجیدہ نہ ہونا کس
قدر حماقت کی بات ہے ،ہندوستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کہاں کی
عقلمندی ہے ، اس صورتحال میں پاکستانی حکام کے لئے یہ ضروری ہے کہ قول وعمل
میں یکسانیت پیدا کریں، تاکہ دو ستی کی فضا قائم ہوسکے ۔
یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب بھی دوستی کی آواز ذرا تیز ہوتی ہے تو
کوئی نہ کوئی واقعہ آفت ناگہانی بن کر رونماہوتا ہے ۔ 2008میں جو اقدامات
ہوئے ، اسی کے سہارے 2011تک دونوں ممالک نے دوستی کی راہیں ہموار کیں ، مگر
26/11نے بدمزگی پیدا کردی اور یہ سلسلہ تھم سا گیا ، پھر حالیہ دنوں خوش کن
اقدامات اورقابل قدر حیلے اپنائے گئے تو عہد وپیمان شکنی کا مسئلہ گرماگیا
ہے ، اسی طرح اٹل بہاری واجپئی جی نے رشتہ استوار کرنے کی کوشش کی تو
13دسمبر 2001کو پارلیمنٹ پر حملہ والا معاملہ سامنے آیا اور کارگل کی جنگ
بھی تو اسی کی کڑی ہے ۔ اس بنتے بگڑتے کھیل میں بہت سے امکانی سوالات
ہوسکتے ہیں کہ کیا ہندوپاک کی دوستی دنیا کو راس نہیں آئے گی ؟ کیا ان
دونوں کی دوستی سے دیگر ممالک خوف زدہ ہوکر دونوں کو منتشر کرنے پرآمادہ
ہوجاتے ہیں ؟ کیا اگر ہندوپاک کے تعلقات استوار ہونے سے دنیا کا منظر نامہ
الگ ہوگا ؟واقعی یہ چند سوالات توجہ طلب ہیں۔دونوں ممالک کو غورکرناچاہئے
کہ آخر اچھے مواقع پر نا خوش گوار حادثات کیوں ہوتے ہیں ؟۔
یہ بات انتہائی تکلیف دہ ہے کہ مداخلت اور عہدوپیمان شکنی کے واقعات کے بعد
دونوں ممالک جوتیوں میں دال بانٹنا شروع کردیتے ہیں ، توتو میں میں کا
بازار گرم ہوجاتا ہے ، ہند-پاک دفاعی انداز میں پلہ جھاڑنے کی کوشش میں لگ
جاتے ہیں ، جس کا نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ دوستی کی مٹھاس میں کھٹائی کی
آمیز ش ہونے لگتی ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ دونوں ممالک اپنے عہد وپیمان کا
پاس ولحاظ رکھیں اور بالخصوص پاکستان یہ لازم پکڑ لے کہ ہندوستان کے
اندورونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے ۔
ہند-پاک عوام کو اب شاید اچھی طرح یہ احساس ہوگیا ہے کہ عہدوپیمان شکنی یا
بے جا مداخلت سے پڑوسی دونوں ممالک میں سے کسی کا کوئی فائدہ نہیں ہے ،
عوام کا یہ احساس واقعی خوش آئند ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے لیڈران
کے اندر بھی یہ احساس پیدا ہوجائے ۔ یہ بات تو ظاہر ہے کہ ہندوپاک کے
درمیان کشمیر ایشو سب سے بڑا ایشو ہے ، یہی وجہ ہے کہ پاکستانی انتخانی
موسوم میں سیاسی پارٹیاں کشمیر ایشو اچھال کر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتی
ہے ، مگر موجودہ انتخابی سرگرمیوں میں اس ایشو پر زیادہ زور نہیں دیا جارہا
ہے ، اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ
عہدوپیمان شکنی سے کسی بھی ملک کا کوئی فائدہ نہیں ہے ، کاش پاکستانی حکام
کی سمجھ میں یہ آجائے کہ عہدوپیمان شکنی ملکی مفاد کے لئے زہر ہے اور
ہندوستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کوئی عقلمندی کی بات نہیں ہے ۔ |