انور ملک (لیہ )
ملک بھر میں عام انتخابات 11مئی 2013ءکو منعقد ہورہے ہیں۔ پورے ملک میں خاص طور پر
پورے پنجاب میں انتخابات کی تیاریاں زورشور سے جاری ہیں۔ جبکہ کچھ پارٹیوں کودوسرے
صوبوں میں آزادانہ طریقے سے انتخابی مہم چلانے میں کچھ مشکلات کا سامنا ہے۔ لیکن اس
کے باوجود تمام پارٹیاں انتخابات میں حصہ لینے کیلئے پر عزم ہیں۔ کچھ پارٹیاں بڑے
بڑے جلسے کرکے انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ تو کچھ پارٹیاں کارنر میٹنگ کرکے اور کچھ
پارٹیاں میڈیا کے ذریعے اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔
لیکن آج کی اس تحریر کا موضوع لیہ کی انتخابی صورتحال ہے۔ لیہ کی انتخابی صورتحال
کا جائزہ لینے سے پہلے ضروری ہے کہ گزشتہ دو انتخابات 2002ءاور 2008ءکا مختصر جائزہ
لیا جائے۔ لیہ میں قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلیوں کے پانچ حلقہ جات شامل
ہیں۔ قومی اسمبلی کے دو حلقہ جات میں این اے 181اور این اے 182شامل ہیں۔ جبکہ پی پی
262 سے 266تک پانچ صوبائی حلقہ جات ہیں۔ گزشتہ دونوںانتخابات انہی حلقہ بندیوں پر
منعقد کرائے گئے۔ 1998ءکی مردم شماری کے مطابق لیہ کی آبادی 1120951نفوس پر مشتمل
ہے جو کہ 2013ءمیں ایک اندازے کے مطابق بڑھ کر 1558122 ہوچکی ہے۔ قومی اسمبلی کا
حلقہ 181جو کہ تحصیل کروڑ اور چوبارہ پر مشتمل ہے اس میں 2002ءکے انتخابات میں پی
ایم ایل کیو کے سردار بہادراحمد خان سیہڑ نے کامیابی حاصل کی ۔ انہوں نے 86247ووٹ
لے کر پی ایم ایل این کے صاحبزادہ فیض الحسن کو شکست دی۔ جو کہ 56490ووٹ لے کر
دوسرے نمبر پررہے۔ جبکہ پی پی پی پی کے سید موسیٰ رضا گیلانی نے 6154ووٹ ایم ایم اے
کے رب نواز فاروقی نے4363ووٹ لیے جو بالترتیب تیسرے اور چوتھے نمبر پر رہے۔ جبکہ
2008 ءکے انتخابات میں بھی اسی حلقہ سے سردار بہادر احمد خان سیہڑ نے پی ایم ایل
این کے صاحبزدہ فیض الحسن کوشکست دی۔ PML(Q) کے سردار بہادر احمد خان سیہڑ PML(N)کے
صاحبزدہ فیض الحسن PPPPکے چوہدری الطاف حسین نے بالترتیب 58797 ،56951،46191ووٹ
حاصل کیے۔ قومی اسمبلی کا دوسراحلقہ 182جو کہ تحصیل لیہ کے علاقوں پر مشتمل ہے۔
2002ءکے انتخابات میں PPPPکے پلیٹ فارم سے ملک نیاز احمد جکھڑ، PML-N کے پلیٹ فارم
سے سیّد محمد ثقلین شاہ بخاری اور PML-Q کے پلیٹ فارم سے ملک غلام حیدر تھند نے حصہ
لیا۔ ملک نیازاحمد جکھڑنے ملک غلام حیدر تھند کو شکست دی۔ ملک نیاز احمد جکھڑنے
74932ملک غلام حیدر تھند نے 58087اور سیّد محمد ثقلین شاہ بخاری نے 32247ووٹ حاصل
کیے۔ جبکہ 2008ءکے انتخابات میں PML-N کے سیّد ثقلین شاہ نے کامیابی حاصل کی۔ انہوں
نے 75910ووٹ لے کر PML-Q کے امیدوار ملک نیاز احمد جکھڑ کو شکست دی۔ انہوں نے
52108ووٹ حاصل کیے۔ جبکہ PPPPکے امیدوار ڈاکٹر فقیر حسین شاہ نے 41328ووٹ حاصل کیے۔
اس طرح صوبائی حلقہ جات میں حلقہ نمبر 262سے 2002ءکے انتخابات میں چوہدری الطاف
حسین نے 36164ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ جبکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار ملک احمد علی
اولکھ دوسرے نمبر پر رہے۔ انہوں نے 26489ووٹ حاصل کیے۔ جبکہ اسی حلقہ سے 2008ءکے
انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ملک احمدعلی اولکھ 30107ووٹ لے کر پہلے نمبر پر رہے۔
جبکہ مسلم لیگ ق کے چوہدری اطہر مقبول بائیس ہزار نوسونو اور پی پی پی پی کے نیاز
محمد گجر 17865 ووٹ لے کر دوسرے اور تیسرے نمبر رہے۔ صوبائی حلقہ 263سے 2002ءکے
انتخابات میں مسلم لیگ ق کے امیدوار حاجی ملک اللہ بخش سامٹیہ نے تیس ہزار تین سو
نوے ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ جبکہ پی پی پی پی کے امیدوار صفدر عبا س بھٹی اکیس
ہزار تین سو انتالیس ووٹ لے کر دوسرے مسلم لیگ ن کے سردار افتخار علی خان سیہڑ
پندرہ ہزار سات سوپندرہ ووٹ لے کر تیسرے نمبر پررہے۔ جبکہ 2008ءکے انتخابات میں پی
پی پی پی کے امیدوار صفدرعبا س بھٹی نے تیس ہزارتین سو نوے ووٹ لے کر کامیابی حاصل
کی۔ مسلم لیگ ق کے ملک اللہ بخش سامٹیہ اٹھارہ ہزار دو سوستانوے ووٹ لے کر دوسرے
اور مسلم لیگ ن کے راجہ فیاض احمد سکھیرا سات ہزار ایک سو تیرہ ووٹ لے کر تیسرے
نمبر پررہے۔ صوبائی حلقہ 264سے 2002ءکے انتخابات میں ایم ایم اے کے امیدوار چوہدری
اصغرعلی گجر نے اٹھائیس ہزار پانچ سو چونسٹھ ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جبکہ مسلم
لیگ ق کے امیدوار سردار محی الدین اٹھائیس ہزار دوسواکتالیس ووٹ لے کر دوسرے نمبر
پررہے جبکہ 2008ءکے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدوار سردار قیصر عباس مگسی نے
34171ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ جبکہ مسلم لیگ ق کے سردار شہاب الدین خان 24757ووٹ
لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ جبکہ پی پی پی پی کے مہر محمد یونس تھند 4952ووٹ لے کر
تیسرے نمبر پر رہے۔ صوبائی حلقہ 265میں 2002ءکے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے مہر
اعجاز احمد اچلانہ چوبیس ہزار نو گیارہ ووٹ لے کر فتح یاب رہے جبکہ پی پی پی پی کے
ملک نورنبی جکھڑ 23956ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے جبکہ مسلم لیگ ق کے امیدوار سجن
خان تنگوانی سولہ ہزار تین سو اکسٹھ ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔ جبکہ 2008ءکے
انتخابات میں بھی مسلم لیگ ن کے امیدوار مہر اعجازاحمد اچلانہ نے 26151ووٹ لے کر
کامیابی حاصل کی۔ جبکہ ان کے مدمقابل مسلم لیگ ق کے امیدوارسردارسجن خان
تنگوانی19018 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ ۔ صوبائی حلقہ 266میں 2002ءکے عام
انتخابات میں ایم ایم اے کے امیدوار چوہدری اصغر علی گجر نے 34376ووٹ لے کر کامیابی
حاصل کی جبکہ مسلم لیگ ق کے امیدوار مہر فضل حسین سمرا 24016ووٹ لے کر دوسرے نمبر
پر رہے۔ جبکہ مسلم لیگ ن کے ملک عبد الشکور سواگ 8019ووٹ لے کر تیسرے نمبرپر رہے۔
چونکہ اصغر علی گجر نے بیک وقت دو صوبائی حلقوں سے کامیابی حاصل کی تھی اس لیے
انہوں نے یہ حلقہ چھوڑ دیا تھا پھر ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ق کے مہر فضل حسین
سمرا نے کامیابی حاصل کی۔ جبکہ 2008ءکے انتخابات میں پی پی پی پی کے امیدوار
افتخارعلی خان بابر کھتران نے 27401ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ جبکہ ان کی مد مقابل
مسلم لیگ ق کی رضیہ افتخار تھند نے 24389ووٹ حاصل کیے جبکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار
مہر فضل حسین سمرا 15196ووٹ لے کر تیسرے نمبرپر رہے۔
2013ءکے انتخابات جو کہ 11مئی 2013ءکو منعقد ہورہے ہیں۔ جو کہ لیہ کے باسیوں کیلئے
انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ جبکہ لیہ کے روایتی سیاستدانوں نے اقتدار کے حصول کیلئے
پارٹیاں تبدیل کرنے کی روش کو اپنایا اور جن سیاستدانوں کو اپنی پسند یدہ پارٹی کا
ٹکٹ نہیں ملا وہ آزاد امیدوار کے طورپر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ اور بوقت تحریر
لیہ کے شہر ودیہات میں الیکشن مہم زورشور سے جاری ہے۔ آیئے اب لیہ کے تمام حلقہ جات
کا الگ الگ جائزہ لیتے ہیں کہ ان حلقوں میں امیدواروں کی کیا پوزیشن ہے۔ این اے
181جو کہ تحصیل کروڑلعل عیسن اور تحصیل چوبارہ پر مشتمل ہے اس حلقہ میں اس دفعہ
263128رجسٹرڈ ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ اس حلقہ میں اس بار
سرداربہادر احمد خان سیہڑ پی پی پی پی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں ۔
جبکہ وہ اس سے پہلے اسی حلقہ سے 2002ءاور 2008ءکے انتخابات میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ
پرالیکشن جیت چکے ہیں۔ جبکہ ان کے مدمقابل ان کے روائتی حریف صاحبزادہ فیض الحسن
سواگ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ جبکہ 2013ءکے انتخابات میں
عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف کا اضافہ ہوا ہے ۔ اس حلقہ سے PTIکے نیاز محمد گجر
انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ جبکہ جماعت اسلامی کے مبشرنعیم بھی امیدوار ہیں۔ لیکن
اصل مقابلہ روائتی حریفوں پی پی پی پی کے سرداربہادر احمد خان سیہڑ اور مسلم لیگ ن
کے امیدوار صاحبزادہ فیض الحسن کے درمیان ہوگا۔ جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار نیاز
محمد گجر کو انتخابی اعتراضات کے بعد الیکشن میں حصہ لینے کیلئے اہل تو قرار دے دیا
گیا ہے لیکن الیکشن مہم کیلئے کم وقت ملنے کی وجہ سے کمزور پوزیشن کاسامنا ہے۔ قومی
اسمبلی کا حلقہ این اے 182جو کہ تحصیل لیہ اور چوک اعظم کے علاقہ جات پر مشتمل ہے۔
اس حلقہ میں اس دفعہ 295598ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ اس حلقہ میں ملک
نیازاحمد جکھڑ پی پی پی پی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ جوکہ 2008ءکے
انتخابات میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ الیکشن میں حصہ لے چکے ہیں۔ جبکہ ان کے مد مقابل
چار امیدوار الیکشن میںحصہ لے رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کا یہ حلقہ شہری علاقہ جات پر
مشتمل ہے جہاں پردوسرے حلقہ کی نسبت زیادہ پڑھی لکھی آبادی رہتی ہے۔ ا س حلقہ میں
اس دفعہ صورتحال انتہائی دلچسپ ہے۔ اور پانچ امیدواروں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ
کی توقع ہے۔ اس حلقہ میں سابق ایم این اے سیّدمحمد ثقلین شاہ بخاری دوبارہ مسلم لیگ
ن کی طرف سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ جبکہ پی پی پی پی کے سابق ٹکٹ ہولڈر سیّد
فقیر حسین شاہ جن کو پارٹی نے اس دفعہ ٹکٹ نہیں دیا وہ آزاد امیدوار کے طورپر
الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ پی پی پی پی کے سابق ایم پی اے
سردارافتخارعلی خان بابر کھتران کو بھی پی پی پی پی کی قیادت نے ٹکٹ نہیںدیا وہ اس
بار پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔ جبکہ جماعت اسلامی نے چوہدری
اصغرعلی گجر کو اس دفعہ اس حلقہ سے میدان میں اتارا ہے۔ جو کہ پہلے ہمیشہ صوبائی
حلقہ سے الیکشن میں حصہ لیتے تھے۔ اس حلقہ میں کسی بھی امیدوار کی کامیابی کی پیش
گوئی کرنا قبل ازوقت ہوگا۔ تاہم ووٹر کارکردگی کی بنیادپر ہی کسی امیدوارکو کامیاب
کرائیں گے۔ اب آتے ہیں صوبائی اسمبلی کے حلقوں کی طرف ۔ صوبائی حلقہ 262جہاں سے
2008ءکے الیکشن میں ملک احمد علی اولکھ مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر ممبر صوبائی اسمبلی
منتخب ہوئے تھے۔ پارٹی کے ساتھ وفاداری کے صلہ میں پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے ان
کوصوبائی وزیرزراعت کے قلمدان کے ساتھ ساتھ سات مختلف وزارتوں کاقلمدان سونپا۔ اس
کے علاوہ انہوں نے کروڑ میں بہت سارے ترقیاتی کام کرائے۔ اس دفعہ بھی وہ مسلم لیگ ن
کے ٹکٹ پر امیدوارہیں۔ جبکہ ان کے مدمقابل پی ٹی آئی کے عبدالمجید خان نیازی اور پی
پی پی پی اورمسلم لیگ ق کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ فارمولا کے تحت مشترکہ امیدوار ہیں
اوروہ مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ جبکہ اس حلقہ سے مسلم لیگ ق
کے سابق ٹکٹ ہولڈر چوہدری اطہر مقبول آزاد امیدوارکے طور پر الیکشن میں حصہ لے رہے
ہیں۔ اس حلقہ کی دلچسپ بات یہ ہے کہ امیدوار قومی اسمبلی صاحبزادہ فیض الحسن اپنی
ہی پارٹی کے امیدوار صوبائی اسمبلی کی مخالفت کررہے ہیں۔ اورانہوں نے آزاد امیدوار
چوہدری اطہر مقبول کے ساتھ پینل بنا رکھا ہے۔ اس حلقہ میں بھی امیدواروں کے درمیان
کانٹے دار مقابلہ کی توقع ہے۔ صوبائی حلقہ 263سے 2008ءکے انتخابات میں PPPPکے
امیدوار صفدرعباس بھٹی نے کامیابی حاصل کی تھی۔لیکن 2013ءکے انتخابات میں PPPPنے ان
کوٹکٹ نہیںدیا۔ اس لیے وہ اس الیکشن میں آزادامیدوارکے طور پرحصہ لے رہے ہیں۔ اس
حلقہ سے پی پی پی پی نے اس دفعہ سردارشہاب الدین خان کوٹکٹ دیا ہے۔ جبکہ مسلم لیگ ن
کی طرف سے عبدالشکورسواگ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ملک اللہ بخش سامٹیہ جو کہ اس
حلقہ سے 2002ءکے الیکشن میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے
تھے۔ پہلے تو انہوں نے مسلم لیگ ق کو چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کردیا
۔ لیکن مسلم لیگ ن کی طرف سے ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے آزادامیدوارکے طورپر الیکشن میں
حصہ لینے کا اعلان کیا۔ لیکن پھر انہوں نے آزادامیدوار سیّد سید علی شاہ کے حق میں
دستبردار ہونے کا اعلان کردیا۔ جبکہ اسی حلقہ سے ملک محمد اکرم سامٹیہ پی ٹی آئی کے
امیدوارہیں۔ صوبائی حلقہ 264جوکہ تحصیل چوبارہ اور چوک اعظم پر مشتمل ہے۔ 2008ءکے
الیکشن میںمسلم لیگ ن کے سردارقیصرعباس خان مگسی نے کامیابی حاصل کی تھی ۔ اس دفعہ
دوبارہ وہ مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں۔ جبکہ اس حلقہ سے چوہدری اعجازاحمد گل پی ٹی
آئی کے امیدوارہیں۔ جبکہ اس حلقہ سے پی پی پی پی نے اپنے کسی امیدوارکو میدان میں
نہیں اتارا۔ جبکہ اس حلقہ سے چوہدری بشارت علی رندھاوا اور غلام عباس بپی آزاد
حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ جبکہ یہ دونوں امیدوارمسلم لیگ ن کی ٹکٹ کے
امیدوار تھے۔لیکن دونوں مسلم لیگ ن کا ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے آزاد امیدوار کے طور
پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس حلقہ میں بھی صاحبزادہ فیض الحسن اپنی پارٹی کے
امیدوار سردار قیصرعباس مگسی کی بجائے آزاد امیدوار غلام عباس بپی کی حمایت کررہے
ہیں۔ صوبائی حلقہ 265پر 2002ءاور 2008 ءکے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدوار مہر
اعجازاحمد اچلانہ نے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس بار بھی وہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر
الیکشن میںحصہ لے رہے ہیں۔ جبکہ ان کے مدمقابل ان کے روایتی حریف سردار سجن خان
تنگوانی ہیں جو کہ اس دفعہ مسلم لیگ ق کو چھوڑ کر پی پی پی پی میں شامل ہوئے ہیں۔
اس حلقہ میں اصل مقابلہ ان دونوں امیدواروں کے درمیان ہے ۔ مہر اعجاز احمد اچلانہ
اپنے ترقیاتی کاموں اور علم دوستی کی وجہ سے خاصی شہرت رکھتے ہیں۔ اس حلقہ سے پیر
فضل حسین شاہ بھی آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ اور انہوں نے آزاد
امیدوار قومی اسمبلی سیّد فقیر حسین شاہ کے ساتھ مل کر پیر فقیر اتحاد کے نام سے
پینل بنا رکھا ہے جبکہ مہر اصغرعلی میلوانہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر امیدوار ہیں۔
صوبائی حلقہ 266ءمیں 2008ءکے انتخابات میں سردار افتخار علی خان بابر کھتران نے
PPPPکی ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی۔ لیکن اس دفعہ ان کو پی پی پی پی نے پارٹی ٹکٹ
نہیں دیااس لیے وہ PTI کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔ جبکہ PPPPنے اس حلقہ
میں سردار غلام فرید خان میرانی سابقہ ایم این اے رہے ہیں کو بطور امیدوار نامزد
کیا ہے۔ اس حلقہ سے ملک غلام حیدر تھند مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں جو کہ سابق ایم
اپی اے ، ایم این اے اور ضلع ناظم رہ چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی کامیابی کیلئے لیہ کی
معروف روحانی شخصیت سیّد سبط الحسنین شاہ گیلانی سے دعا کرائی ہے اور ان کے مرشد
خواجہ اللہ بخش تونسوی کے توسط سے تعاون کی درخواست کی۔ سید سبط الحسنین شاہ گیلانی
نےب اپنے مریدین اور متوسلین کو ان کو ووٹ دینے کی ہدایت کر دی ہے۔ اس حلقہ سے پی
ٹی آئی کے ٹکٹ کیلئے دو مضبوط امیدوارتھے۔ اس میں ہاشم سہو اور مہر فضل حسین سمرا
شامل تھے۔ لیکن پی ٹی آئی کی قیادت نے اس حلقہ سے ہاشم حسین سہو اس حلقہ سے بطور
امیدوار نامزد کیا۔ جبکہ مہر فضل حسین سمرا آزاد حیثیت سے اس حلقہ سے انتخابات میں
حصہ لے رہے ہیں۔ جبکہ اس حلقہ سے دوسرے اہم امیدوار چوہدری اشفاق احمد ہیں ۔ یہ بھی
مسلم لیگ ن کا ٹکٹ ملنے کے امیدوار تھے۔ لیکن پارٹی ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے پیر
فقیراتحاد کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ اور الیکشن جیتنے کیلئے
بھر پور جدوجہد کررہے ہیں۔ عابد انوار علوی بھی مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر انتخابات
میںحصہ لینا چاہتے تھے لیکن انہوںنے پارٹی قیادت کے فیصلے کو قبول کر لیا ہے۔ یہ
تھی لیہ کے تما م حلقوں کی مجموعی صورتحال ۔ اپنے طور پر تمام امیدواروں نے اپنی
انتخابی مہم بھر پور طریقے سے چلائی ۔ او ر تمام امیدوار اپنی کامیابی کیلئے پر
امید ہیں۔ لیکن انتخابی سیاست میں برادری ازم بہت اہم کردار ادا کرتی ہے تاہم عام
ووٹر برادری کے ساتھ ساتھ پارٹی منشور اور امیدوار کی سابقہ کارکردگی کو بھی مد نظر
رکھتے ہیں۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اس کا فیصلہ 11مئی کو
ہی ہوگا۔
غلطی خطا کمی کوتاہی |