پاکستانی تاریخ کے شاید سب سے اہم انتخابات
مکمل ہوچکے ہیں اور غیرحتمی نتائج کے مطابق مسلم لیگ نون بھاری اکثریت کے
ساتھ وفاق اور صوبہ پنجاب میں کامیاب ہوگئی ہے۔ اس موقعہ پر اب تک تقریبا
سبھی سیاسی جماعتوں نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے میاں نوز شریف کو مبارک
باد کا پیغام بھی بھیج دیا ہے۔ صرف سیاسی جماعتیں ہی نہیں بلکہ عالمی
رہنماؤں نے بھی میاں نواز شریف کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے۔ یہ
تمام مرحلہ نہایت خوش اسلوبی سے مکمل ہوچکا ہے۔
الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں کی طرف انتخابات کو شفاف قرار دیا جارہا ہے
اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی کوئی بڑا احتجاج نظر نہیں آرہا لیکن اس کے
باوجود انتخابی نتائج میں کچھ مس فٹ لگ رہا ہے۔ اس کی کچھ وجوہات ہیں جو
میں اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں اس امید کے ساتھ کہ شاید میں
ہی غلطی پر ہوں:
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ انتخابات سے قبل کی صورتحال سے ہم سبھی واقف ہیں کسی
کو بھی یہ توقع نہیں تھی کہ مسلم لیگ نون بھاری اکثریت سے کامیاب ہوجائے گی
بلکہ انتخابات سے تقریبا ایک سال قبل تک کے تمام غیرجانبدار سیاسی تبصروں
اور تجزیوں میں اس بات کی طرف اشارہ کیا جارہا تھا کہ اگلی حکومت ایک مخلوط
حکومت بننے جارہی ہے جس میں عمران کی تحریک انصاف بھی ایک حصہ دار ہوگی۔صرف
غیرجانبدار افراد ہی نہیں بلکہ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما اور سیاسی
پنڈت بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کررہے تھے کہ اگلی حکومت ہرحال میں مخلوط
ہوگی!
انتخابی نتائج کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دینے کی دوسری وجہ وہ آراء
ہیں جن میں بار بار اس اندیشے کا ذکر کیا جارہا تھا کہ انٹرنیشنل
اسٹیبلشمنٹ پاکستانی انتخابات پر اثر انداز ہونا چاہ رہی ہے اور خطے میں
اپنی من پسند حکومت لانا چاہتی ہے۔ امریکہ اور سعودیہ عرب ہی وہ ممالک ہیں
جن کے مفادات پاکستان میں اپنی من پسند حکومت کے ذریعہ حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
امریکہ افغانستان سے نکلنے اور ایران کو تنہا کرنے کے لیے اپنے پرانے پتے
یعنی سعودیہ عرب کو بروئے کار لاکر یہ اہداف باآسانی حاصل کرسکتا ہے۔ اسی
وجہ سے بعض حلقے نواز شریف کی جیت کے ساتھ ہی پاک ایران گیس منصوبے اور
گوادر پورٹ کے بارے میں سوالات کرنا شروع ہوگئے ہیں۔انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ
کے حوالے سے یہ بات بھی کرتا چلوں کہ طالبان اور دہشت گرد تنظیمیں ایک ایسا
فینامنا ہیں جس کے پیچھے یہی اسٹیبلشمنٹ کارفرما ہے اسی لیے ان کی طرف سے
ہونے والی دہشت گردی کا شکار بھی زیادہ تر وہی لوگ بنے جو ان کے راستے میں
رکاوٹ شمار ہوتے تھے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ایک عرصے سے نیشنل اسٹیبلشمنٹ اور جمہوری
طاقتوں کے درمیان اقتدارکی کھینچاتانی ہورہی ہے اور اسٹیبلشمنٹ اقتدار کے
ایوان سے دور ہونے کے باوجود اقتدار کی لگام خال خال ہی جمہوری طاقتوں کے
سپرد کرتی ہے۔ انتخابات سے قبل بنگلہ دیش ماڈل ، طویل نگران سیٹ اپ یا کسی
بڑے سیاسی بحران کے ذریعہ بھاری بھرکم بوٹوں کی آمد جیسے نظریات اسی کھینچا
تانی کا ایک نمونہ ہے۔ موجودہ انتخابات پاکستان کی تاریخ کے واحد انتخابات
ہیں جن میں ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کی طرف اقتدار منتقل
ہورہا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں یہ اندیشے جنم لیتے ہیں کہ انتخابی نتائج
کچھ مس فٹ ہیں۔
ان سب باتوں کے باوجود میں تو یہ کہوں گا کہ ترقی یافتہ اور خوشحالی کی
ضامن آمریت سے لولی لنگڑی جمہوریت ہی بھلی لہذا عافیت اسی میں ہے کہ
انتخابی نتاءج تسلیم کرتے ہوئے میاں صاھب کو ان کے "بھاری میندیٹ" کی مبارک
باد دی جائے۔ مبارک ہو میاں صاحب! |