آج الیکشن کا تیسرا دن ہے،
ماسوائے چند ایک حلقوں کی الیکشن کے حتمی نتائج بھی آچکے ہیں ، جن
امیدواروں یا پارٹیوں کے حق میں نتائج رہے وہ جشن منا رہے ہیں جبکہ باقی
پارٹیز احتجاج کر رہی ہیں اور دھاندلی کی شکایت کرتی نظر آرہی ہیں۔ اس سارے
معاملے میں پاکستان پیپلز پارٹی ایسے ہی خاموش رہی جیسے کہ وہ الیکشن سے
پہلے تھی، یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے ک پیپلز پارٹی نے جو بویا تھا اس کہ
اپنا انجام نظر آرہا تھا، لیکن پھر بھی پیپلز پارٹی کے وہ امیدوار جو پنجاب
میں اپنے اثر یا شخصی بنیاد پر ووٹ حاصل کر سکتے تھے وہ بھی خاموشی سے
گھروں میں بیٹھے رہے۔پیپلز پارٹی کے بعض ارکان کا کہناتھا کہ انہیں طالبان
کی طرف سے دھمکیاں مل رہی تھیں جبکہ عام تاثر یہی ہے کہ پچھلے پانچ سالوں
میں عوام کے ساتھ جو رویہ رکھا گیا اس کو دیکھتے ہوئے عوام بھی ان کے حق
میں طالبان ہی ثابت ہونے تھے۔
11مئی کی شام تک آنے والے نتائج ان لوگوں کے لئے حوصلہ افزا تھے جو اپنی
ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے تبدیلی لانے کے لئے پہلی بار ووٹ دالنے نکلے لیکن
دیئے گئے تاثر کے مطابق یہ صرف جوان ہی نہیں تھے بلکہ لاٹھی کے سہارے چلتے
ہوئے بزرگ بھی اس "یوتھ" میں شامل تھے جو تیری میری باری کے چکر سے ہمیشہ
کے لئے جان چھڑوانا چاہتے تھے، چند مخصوص متوالے حلقوں کو چھوڑ کر باقی
جہاں بھی دیکھا گیا اکثریت نئی پارٹی کے حق میں تھی، دس میں سے شاید ہی
کوئی دو لوگ نون کا نام لیتے تھے، اس حساب سے آغاز میں آنے والے نتائج دو
پارٹیوں کے مقابلے کی طرف اشارہ کر رہے تھے، لیکن کچھ دیر بعد نتائج آنے
میں تاخیر ہونے لگی،نون لیگ کی برتری میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا جبکہ نئی
پارٹی کے ووٹوں کی تعداد وہاں ہی رکنے لگی، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی
ہے کہ آغاز میں آنے والے نتائج شہری علاقوں سے ہوں گے جہاں موٹر وے کی
سہولت ہونے کے باعث بروقت نتائج پہنچ گئے جبکہ دیہی علاقوں میں زرائع آمدو
رفت موثر نہ ہونا تاخیر کا باعث بنا، یہی سمجھ آنے والی ایک وجہ ہے ورنہ
موبائل فون تو انتہائی غیر اہم ایجاد ہے جو نہ تو الیکشن کے نتائج بروقت
پہنچانے میں کام آ سکتی ہے اور نہ ہی ووٹنگ ٹائم میں اضافے کی خبر ملک کے
تمام حصوں میں پہنچا سکتی ہے جبکہ پولنگ سٹیشنز پر تعینات آفیسرز اس قدر
ایماندار اور فرض شناس ہوتے ہیں کہ جب تک انہیں سرکاری فون کال نہ آئے وہ
دس لوگوں کی گواہی پر بھی یقین نہیں کرتے ، ابھی کسی ایک حلقے سے بھی
سرکاری نتائج نہیں آئے تھے کہ ایک ٹی وی چینل نے 10فیصد سے بھی کم نتائج پر
100سے زیادہ سیٹیں نون لیگ کے نام کر دیں اور پرانی پارٹی کے سربراہان نے
اپنی جیت کا اعلان کرتے ہوئے اپنے روایتی وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کا
اعلان بھی کر دیا، پہلے خبر پہنچانے کے پاگل پن نے بعض چینلزپر بہت اثر
ڈالاہے ۔
پرانی پارٹی جتنی اکثریت سے جیت رہی ہے اس کا شاید کسی کو اندازہ نہیں تھا،
ان کی جیت پر نہ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کی تعیناتی اثر انداز ہوئی نہ
افسران کے تبادلے اور نہ ہی پیپلز پارٹی کی اشتہاری مہم، اب مجھے انصار
عباسی کا ایک معصوم سا کالم یاد آرہا ہے جو انہوں نے نگران وزیر اعلیٰ کی
تعیناتی کے بعد لکھا تھا کہ ایک چڑیا نے نون کو چاروں شانے چت کر دیا،
میڈیا کے بعض ایماندار حضرات اس تعیناتی پر تشویش کا اظہار اور نون سے
ہمدردی کرتے رہے لیکن نون کی خاموشی سمجھ سے بالاتر تھی، یہ ویسی ہی خاموشی
تھی جیسی پیپلز پارٹی کی حکومت کے پانچ سالوں میں رہی تھی، ٹی وی پر چلائی
گئی اشتہاری مہم کے علاوہ کہیں بھی پیپلز پارٹی کی مزاحمت نظر نہیں آئی،
نئی پارٹی کے سربراہ کے بیانات بھی اب معنی خیز لگنے لگے ہیں جنہیں الیکشن
مہم کا پراپیگنڈا سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا جو وہ اپنے ہر جلسے میں
کہتے رہے کہ باریا ں لگی ہوئی ہیں ایک پرانی پارٹی نے پانچ سال پورے کئے
ہیں اور ایک نے خاموشی سے کروائے ہیں۔
بہر حال اب نون لیگ کے لئے یہ دور حکومت ایک امتحان سے کم نہیں ہے ، عام
خیال ہے کہ ان کا دور حکومت پیپلز پارٹی سے بہت بہتر ہو گا یا شاید اس جیسا
بدترین نہیں ہو گا، لیکن نوازشریف کے بیانات کا تضاد آغاز میں ہی سامنے آنے
لگ گیا ہے بہتر ہے اگر اب بھی پیپلز پارٹی اس ہیر پھیر کو عوام تک اشتہارات
کی صورت میں پہنچاتی رہے کیونکہ ویسے تو ہم ماضی کو بھلانے میں بہت جلدباز
ہیں۔ |