سوری انکل مشرف صاحب۔۔۔!

عبدالغنی انجم شگری

عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ جو آدمی زیادہ آگے چل نکلتا ہے اس کو یہ پتہ نہیں ہو تا کہ اس کے پیچھے کیا گیم ہورہی ہے،ایسا ہی ہمارے سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ہوا ۔سابق صدر صاحب نے اپنے سیاسی کیریئرکا آغاز چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے کیا ۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں متعدد عہدے اپنے پاس رکھے اورخود مختار کل بنے رہے، اسی کے نتیجے میں آج وہ الیکشن کے لیے بطور امید وار نااہل قرار پانے کے ساتھ ساتھ کئی مختلف قسم کے الزامات کا سامنے کرتے ہوئے اب جیل بھی پہنچ گئے ہیں ۔پرویز مشرف کو این آر او ،آئین کی خلاف ورزی، اکبر بگٹی کا قتل ،جامعہ حفصہ پر حملہ ،میڈیا پر پابندی ،اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کرنے جیسے سنگین کیسز کا سامنا ہے ۔ایسے میں پاکستانی عوام کو پرویز مشرف کا ساتھ دینا چاہئے یا انہیں لات مارنا چاہئے ؟اس کا جواب تو انتہائی آسان ہے ،وہ یوں کہ ہم مشرف سے یہ کہیں : سوری انکل مشرف! اگر شوکت عزیز ،چودھری پرویز الہی ،مشاہد حسین ،چودھری شجاعت ،اعجازالحق ،شیخ رشید اور شیرپاؤ جیسے آپ کے اپنے مصاحبین اور وفا دار سیاسی کھلاڑی اس کڑے وقت میں آپ کو ان مقدموں سے بچانے میں مدد نہ کر سکے تو ہم بھی آپ کا ساتھ نہیں دے سکتے ۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو ان شوکتوں ،چودھریوں ،اور شیرپاﺅں کو بھی ایسے ہی مقدمات میں شامل تفتیش کرلینا چاہئے تھا جنہوں نے یا تو آپ کو ایسی غلطیاں کرنے کا مشورہ دیا، یا آپ کی پالیسیوں میں برابر کے شریک رہے۔ لیکن سوری انکل مشرف صاحب !سیاستدان اکثر بے ضمیر اور بے وفا ہوا کرتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ آج آپ توبے نظیر قتل کیس میں ایف بی آئی کی تحویل میں ہیں جبکہ آپ کا وزیر داخلہ شیرپاؤ ،محترمہ کی حفاظت جن کی ذمہ داری تھی، آج بڑے مزے کے ساتھ انتخابی مہم چلا رہے ہیں ،چودھری برادران تو شاید آپ کومکمل بھول چکے ہیں جب کہ شیخ رشید آپ کی کپتانی میں کرنے والی غلطیوں سے توبہ کرنے کے لیے دفاع پاکستان کونسل میں شامل ہوچکا ہے ۔محترم جنرل پرویز مشر ف صاحب !اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کا آرمی ممبر بننے سے لے کرچیف آف آرمی سٹاف بننے تک ہمارے اس وطن عزیز کے لیے بے شمارخدمات ہیں، ہم اس کا انکار کبھی نہیں کرتے جب کہ آپ کادور حکومت خاص طور پر گلگت بلتستان کے لیے انتہائی ترقی کا دور تھا ،آپ کی خصوصی دلچسپیوں کی بدولت ہمیں تعلیم ،صحت،امن اور سیاست کے شعبوں میں کافی ترقی ملی ،لیکن سوری انکل مشرف !آپ نے اقتدار کے نشے میں اس وطن عزیز کے غریب عوام پر انتہائی ظلم بھی کیا ہے ،آپ نے دنیا میں پاکستان کے امیج کونا قابل تلافی نقصان پہنچایا اور اس کے پر امن چہرے کو دہشت گرد اور انتہا پسند چہرے کی شکل میںپیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،اگر آج میں کسی غیر ملکی دوست کو پاکستان آنے کی دعوت دوں تو وہ یہ کہنا شروع کردیتا ہے کہ پاکستان وہ جائے گا جو زندہ واپس آنا نہیں چاہتا،اگرچہ اس کے ذمے دار آپ ہی ہیں مگر ساتھ ہی غیرملکی میڈیا کا کردار بھی کچھ کم نہیں،قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی ،محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ،بلوچ لیڈروں اورجامعہ حفصہ میں طالبات کے ساتھ آپ کا سلوک تو ناقابل بیان ہے ۔جب کہ قبائلی علاقوں پر ڈرون حملے بھی آپ ہی کی کرم نوازیوں میں سے ہیں ۔سوری انکل مشرف !میںجذبات میں آ کر مظلوموں کے حق میں کچھ زیادہ بول گیا، مگر میں صرف آپ سے مخاطب نہیں بلکہ ہر اس شخص سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہوں جنہوں نے ان جرائم میں آپ کا ہاتھ بٹایا ،یا آپ کو استعمال کیا ،یا جن کو آپ نے استعمال کیا۔اب رہی بات آپ کا دفاع کرنے کی تو موجودہ حالات میں میں اتنا ضرور کہوں گا کہ جن مقدمات کی بنیاد پر آج عدالت نے آپ کو ملک سے باہر جانے پر پابندی عائد کررکھی ہے اور آپ کو تحویل میں لیا گیا ہے، ان میں آپ اکیلے تونہیں تھے،این آر او ہو یا بگٹی قتل کا معاملہ ،بے نظیرقتل کیس ہو یا جامعہ حفصہ کا آپریشن ،ڈاکٹرعبدالقدیر خان کے ساتھ زیادتی ہو یا ڈاکٹر عافیہ کو امریکہ کے حوالہ کرنے کا جرم،نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو ےا ڈرون سوغات آخر ان مقدمات میں صر ف ایک آپ کوکیوں گھسیٹا جارہا ہے ؟شوکت عزیز سے کوئی یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ وہ اس وقت پی ایم ہاؤس میں کیا کررہے تھے؟کیا دوسرے سینیٹروں اور وزیروں کا یہ فرض نہیں بنتا تھا کہ وہ آپ کو ان جرائم کا ارتکاب کرنے سے روکتے ؟کیا اسی شیخ رشید نے میڈیا بریفنگ میں جامعہ حفصہ آپریشن کا جواز پیش نہیں کیا تھا ؟ڈی آئی جی اسلام آباد کو یہ پتہ نہیں تھا کہ ایسے وقتوں میں اس کی کیا ڈیوٹی اور ذمہ داری بنتی ہے؟اگر سوالات اٹھاتا گیا تو یہ سلسلہ پھیلتا ہی جائے گا،اور ہر سوال کا جواب یہی ملتا ہے کہ ان تمام جرائم میں آپ اور آپ کے حواری سب کے سب برابر کے شریک تھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ صدر ہونے کے ساتھ ساتھ چیف آف آرمی سٹاف بھی تھے اوراس ناطے آپ ہی سب کچھ تھے کہ انتظا می امور کے ساتھ ساتھ دفاعی ذمہ داریاں بھی آپ ہی کے سر تھی ،دوسرے توفقط آپ کے غلام تھے ۔اب ستم ظریفی دیکھئے کہ جوں ہی آپ نے استعفی دے کر ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا آپ کے ساتھیوں نے بھی ایک ایک کرکے آپ کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور پھر آہستہ آہستہ میڈیا پر اعتراف جرم بھی کرنے لگے ،اس میں آپ کو کچھ تعجب نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہی دستور زمانہ اور ہماری سیاست کا چلن ہے کہ ہمیشہ چڑھتی سورج کو پوجا جاتا ہے،جنرل مشرف صاحب آپ سچ کہتے ہیں کہ" ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں"اپنے اس قول کوآپ نے یوں سچ کر دکھایا کہ تمام ساتھیوں کی بے وفائی کے باوجود اپنے موقف پر ڈتے رہے۔

اب ذرا دوسرے پہلو سے جائزہ لیتے ہیں، اگر مذکورہ مقدمات کو کچھ قریب سے دیکھا جائے تو آپ کے موقف میں بھی وزن ہے، اگر جامعہ حفصہ والے شروع ہی میں مذاکرات کے لیے تیار ہوتے تو آج جامعہ حفصہ اور لال مسجد پہلے سے زیادہ مقبول ہوتی، اسلام میں عورتوں کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہیں دشمن سے لڑائی کے وقت محفوظ جگہوں پر منتقل کیا جائے جب کہ مولانا عبدالرشید غازی صاحب نے عورتوں کو ایک اسلحہ کے طورپر استعمال کیا اور بغیر کسی جواز کے کئی معصوم جانیں شہید ہوئیں، مولانا غازی صاحب یہ بھول گئے کہ اسلام میں سخت جنگی حالت میں بھی بچوں اور عورتوں پر جہاد فرض نہیں ۔رہی بات بگٹی کی تو اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ بگٹی کو ایجنسیوں نے قتل کیا جس میں مشرف استعمال ہوا، لیکن میرے خیال میں یہ بھی درست نہیں کہ ہم اس کا ملبہ ایجنسیوں کے اوپر ڈالے بلکہ آپ یوں سمجھ لیں کہ بگٹی صاحب نے خود موت کو دعوت دی ،اکبر بگٹی بلوچ عوام پر اپنا جابرانہ نظام چلانا انصاف، اور جمہوری نظام کو ظلم سمجھتا تھا، اسی نظریہ کو ختم کرنے کے لیے ماضی بعید سے حکومتیں بگٹی کو مذاکرات کی دعوت دے رہیں، جسے وہ ہر بار ٹھکراتے رہے۔ بہر حال بلوچستان کا مسئلہ ایک الگ موضوع ہے اس پر یہاں بحث نہیں بنتی،کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر بگٹی مذاکرات کی میز پر کچھ دیر کے لیے بیٹھ جاتے تو شاید نتیجہ کچھ اور ہوتا ۔لال مسجد اور بگٹی کو چھوڑکر اگرہم ڈاکٹر عبدالقدیر کے مسئلہ کی طرف آئیں تو اس میں بھی مشرف کسی حد تک مجبور نظر آتا ہے، ڈاکٹر قدیر خان کو نظر بند جنرل مشرف نے ذاتی دشمنیوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ امریکی دباؤ کے نتیجے میں کیاتھا،اور اگر مشرف کی جگہ تب کوئی اور ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا، کیونکہ ہمارا ہر حکمران لا محالہ امریکہ کے اشارئہ ابرو قربان ہوتا ہے ۔جب کہ بے نظیر قتل کیس میں کئی قسم کے لوگ ملوث ہیں ہم اس کا مجرم نہ مشرف کو ٹھہراسکتے ہیں اور نہ ہی مسلم لیگ ق کوجس کو ابتدا میں قاتل لیگ کہا جاتارہا ۔میرا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ ہم ان مقدمات میں مشرف کو بری قرار دیں، بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ مشرف کو ان کے کیے جرم کی سزا ملنی چاہیے ساتھ ہی دوسرے ذمہ داروں کو بھی ان کیسز میں برابر کی سزا ہونی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی آمہوریت( آمریت اور جمہوریت) مل کے دوبارہ ایسی غلطی نہ کر سکے ۔
Anjum Ghospa
About the Author: Anjum Ghospa Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.