11 مئی کا ڈوبتا سورج

11 مئی 2013 کی شام ایک بہت بڑے فیصلے کی شام ہو گی۔ڈھلتا ہوا سورج جاتے جاتے ایک نئی تاریخ رقم کر جائے گا۔ اقتدار کی دستار کس کے سر پر سجے گی اس بات کا فیصلہ ہوگا۔ ایک طرف خوشیوں کے میلے ہوں گے تو دوسری طرف مایوسیوں کے ڈیرے۔ آنے والے کل کے لئے کون اس ملک کی باگ دوڑ سمبھالتا ہے اگلے چند دنوں میں اس بات کا بھی فیصلہ ہو جائے گا۔ ظاہر ہے جو پارٹی اکثریت میں ہو گی وہ ہی حکومت بنا سکے گی۔ اس بار کسی بھی پارٹی کا بھاری اکثریت لے جانا نظر تو نہیں آ رہا اس لیئے حکومت بنانے کے لیئے کچھ پارٹیوں کو مل کر اتحاد کرنا ہو گا۔اس حکومتی اتحاد میں کون کون شامل ہوتا ہے یہ تو آنے ولا کل ہی بتائے گا۔ سیاست میں اتحاد بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں ، دشمن دوست بن جاتے ہیں اوردوستوں کے دشمن بننے میں ایک لمحہ لگتا ہے۔ آج جو سیاسی لیڈر ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھال رہے ہیں کل کو ایک ہی ٹیبل پر بیٹھ کر اقتدار کی خاطر پچھلی ساری توں توں میں میں بھلا کر ایک دوسرے سے ہاتھ ملا رہے ہوں گے۔ وزارتوں کی بندر بانٹ شروع ہو جائے گی کچھ لوگوں کو ناراض بھی کیا جائے گا اور کچھ ناراض لوگوں کو منانے کے لیئے بولیاں بھی لگیں گی۔نوٹوں سے بھری بوریاں اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر کی جائیں گی۔ ایک بار پھر اس تبدیلی کی منتظر عوام کو مفاہمت کے نام سے آشنا کیا جائے گا۔روٹی کپڑا اورمکان، ہم نے بدلا ہے پنجاب اور ہم بدلیں گے پاکستان، ایک نیا پاکستان اور اس طرح کے بے شمار وعدے کرنے والے اپنے کیئے ہوئے سب وعدے بھلا کر جمہوریت کی گاڑی کو دھکا لگانے لگ جائیں گے۔ اگلے پانچ سال تک مفاہمت کی پٹڑی پر جمہوریت تو رواں دواں ہو گی لیکن بجلی، پانی، گیس، روزگار ،تعلیم ، امن، انصاف،قانون ، دہشت گردی اور خودمختاری جیسے غیر اہم کام غیر اہم ہی رہیں گے۔اندرونی اور بیرونی قرضوں کا حجم مزید بڑھتا جائے گا، غربت میں اضافہ بھی ہو گا اور لوگ خودکشیاں بھی جاری رکھیں گے۔دہشت گردی کی زد میں آکر بے گناہ بھی مرتے رہیں گے اور ڈرون حملے بھی جاری رہیں گے۔نا انصافیاں بھی ہوں گی اور عوام پانی ۔ بجلی اور گیس جیسی بنیادی ضرورت سے بھی محروم رہیں گے۔نئی آنے والی حکومت اگلے پانچ سال پچھلی حکومت کو چور ڈاکو کہتی رہے گی اور بڑی مہارت سے اس ملک کی دولت اپنے بنکوں میں منتقل کرتی رہے گی۔ نہ اس ملک سے زرداری جائے گا اور نہ ہی بد حالی کیونکہ زداری کو چور، ڈاکواور ملک کا دشمن کہنے والے پھر سے اُس کی گود میں جا بیٹھیں گے، جس سے زرداری کی آری بھی چلتی رہے گی اور زرداری کو سہارا دینے والے بھی اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں گے۔جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچایا جاتا رہے گا اس کے بدلے میں چاہے کتنے ہی گھر کیوں نہ اُجڑ جایئں۔ جمہوریت کے جن کو ہر قدم پر خون کی ضرورت ہو گی اور اس عوام کا خون انتا قیمتی نہیں ہے کہ اُسے جمہوریت جیسی ایک لازوال اور بے مثال چیز پر قربان نہ کیا جا سکے۔

11 مئی کا ڈوبتا ہوا سورج ہزاروں نہیں بلکہ کڑورں لوگوں کی نیک خواہشات کو لے ڈوبے گا۔ کیونکہ لوگوں میں شعور اب بھی بیدار نہیں ہو سکا۔ تبدیلی خود کو تبدیل کرنے سے آتی ہے لیکن خود کو ہم کسی بھی قیمت پر تبدیل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہمیں پاکستان تو نیا چاہئے لیکن حکمران نیا نہیں۔ ہمیں پاکستان تو نیا چاہئے لیکن نظام نیا نہیں۔ ہمیں پاکستان تو نیا چاہئے لیکن صبح نئی نہیں۔نئی صبح سے ہی نئے اُجالے پھوٹتے ہیں۔ لیکن ہم سب کچھ جون کا توں رہنے کے باوجود پاکستان بدلنے کی بات کرتے ہیں۔ہم قائد اعظم کا پاکستان تو چاہتے ہیں لیکن قائد نہیں چاہتے۔ اس ملک کو اگر کوئی بدل سکتا ہے تو صرف ایک قائد ہی بدل سکتا ہے اور اُس قائد کو تلاش کرنا اب ہماری اپنی ذمہ داری ہے۔قدرت نے ہمیں ایک موقع دیا تھا لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم خود کو نہیں ہی نہیں بدلنا چاہتے تواس ملک کو کیسے بدل پائیں گے۔ خود کوبدلنے کے لیئے صرف خود کی سوچ بدلنا ہو گی۔ اچھے اور بُرے میں فرق پیدا کرنا ہو گا۔او ر یہی فرق ہم پچھلے پانچ سالوں میں نہیں پیدا کر سکے تو آئندہ پانچ سالوں میں بھی نہیں کر پائیں گے۔ ہم خود کو نہیں بدلنا چاہتے اپنی سوچ کو نہیں بدلنا چاہتے۔کیونکہ ہماری سوچ کو تو 11 مئی کا ڈوبتا ہوا سورج اپنے ساتھ ڈبو کر لے جائے گا۔
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 100793 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.