راجپوتوں والی کوئی بات؟

ہر خاندان اور قبیلے کے کچھ اوصاف ہوتے ہیں جس بنا پر قبیلہ،خاندان یا برادری پہچانی جاتی ہے۔جوں جوں وقت گزرتا ہے حالات بدل جاتے ہیں اور خاندانی اور قبائلی عصبیت میں بھی کمی آجاتی ہے۔وہ لوگ جو عصبیت کے قائل ہوتے ہیں وہ اپنی روایات سے جڑے رہتے ہیں جس بنا پر انھیں نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔مادیت کا غلبہ،اخلاقیات میں گراوٹ،مبوس و لالچ میں اضافہ اور دیگر قبائل میں شادیاں،خاندانی،قبائلی اور علاقائی عصبیت میں بھی کمی کا باعث بنتی ہیں۔موجودہ افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقے جنھیں فاٹا کہا تھا ہے کبھی خراسان کہلاتے تھے۔ان علاقوں میں بسنے والوں کی خصوصیت میں مہمان نوازی،عورت کی عزت ارو بچوں کی حفاظت شامل تھی۔قبائل ایک دوسرے کی عورتوں اور بچوں پر ہاتھ نہ اٹھاتے تھے اور دنیا کے کسی کونے سے اجنبی شخص ان کے علاقہ میں داخل ہو جائے اسے مہمان تصورکیا جاتا تھا۔مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ اوصاف ختم ہوگئے اور آجکل ان علاقوں سے گزرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔عورتیں اور بچے اغواءکرائے جاتے ہیں اور اغواءکار انھیں فروخت کردیتے ہیں۔

تاریخ کے مطابق عرب قبائل وحشی اور خونخوار تھے۔اسلام کی روشنی کے باوجود عرب میں جہالت کے اندھیرے چھائے رہے اور بدو قبائل نے بردہ فروش اور ڈاکہ ذنی کی روایات کو قائم رکھا۔یہی حال پاکستان کے شمالی علاقوں اور چترال کا تھا۔عرب قبائل،حیران منندہ اور مہتران چترال مسافروں اور قافلوں کے علاوہ حجاج کرائم اور زائرین کو بھی لوٹتے اور قتل کرتے تھے۔عربوں کا احوال ابن خلدون نے اپنے شہرہ آفاق مقدمہ میں درج کیا ہے جبکہ معنزہ اور چترال کا ذکر مشہور مورخ اور سکالر پیٹر ہوپ کرک نے اپنی تصنیف گریٹ گیم بائی سیکرٹ سروس ان ہائی ایشیاءمیں کیا ہے۔مصنف کے مطابق میر آف ہنزہ کی آمدنی کا بڑا ذریعہ قابلوں کو لوٹنا تھا جبکہ والٹی چترال اپنی ہی ریاست سے خوبصورت لڑکوں کو اغواءکروا کر خیوا کے سرداروں کے ہاتھ فروخت کرتا تھا حالات بدلے تو ہنزہ کا میئر اور چترال کا میئر بے حیثیت ہوگئے جبکہ بہاولپور کے نواز اور سوات کے والی کو عدل و انصاف اور رعایا پروری کے صلے میں آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔پروفیسر نذیر احمد تعشنز ،راجہ خضر اقبال،کبیر خان،یوسف صراف عارف شائد،صغیر قمر،وجاہت مسعود بلوچ، پٹھان،سندھی اور پنجابی گوانوں،خاندانوں،گوتوں،برادیروں اور قبیلوں کی اپنی اپنی تاریخ،روایات اور اقدار ہیں جنکا ذکر تاریخ کی کتابوں میں درج ہے۔ سر لیفپل گرفن نے پنجاب کی ذاتوں اور گھروں پر نایات تحقیق کی ہے جبکہ سر چارلس ن نیپئر اور الگزنڈر برن نے سنڈی قبائل پر بھرپور تحقیق کی ہے برن نے اپنی کتاب ”ٹریول ان ٹو بخارا“ میں دلکش انکشافات کیے ہیں برن کے مطابق سندھی عوام انتہائی تابعدار اور مظلوم قوم تھے اور خورص بے انتہا ظالم، متکبر اور بے انصاف طبقات پر مشتمل تھے سندھ میں کئی چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں۔اور والیان ریاست ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے ایک بات جس پر برن حیرت زدہ تاھ وہ یہ تھی کہ سوارے امیر اور والی ملکہ معظم سے وفاداری حتیٰ کہ غلام کی حد تک دستی کے متمنی تھے برن لکھتا ہے کہ ان لوگوں کو پتہ ہی نہ تھا کہ میں برٹش سروے اتھلیٹمنٹ کا ایک معمولی کپتان ہوں اور برٹش انڈین پولیٹکل سروس کا ملازم ہوں میرا کام دریائے سندھ کی ریکی کرنا اور ہندوستان کے سب سے بڑے مہاراجہ اور طاقتور حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار تک رسائی حاصل کرنا تھا۔
دنیا میں سب سے زیادہ تحقیقی کام کشمیری اقوام پر ہوتا ہے اس سلسلہ کی سب سے بڑی تحقیق پنڈت کلہن کی ہے جو مشہور زمانہ تاریخ راج ترنگی کے مصنف ہیںیہ تحقیق زمانہ قبل از مسیح کی ہے جسے دنیا کو کوئی مورخ چیلنج نہیں کر سکا۔ کشمیری اقوام اور قبائل پرسات سو سے زیادہ مورخین نے کتابیں لکھیں جن میں محمد دین فوق مصنف تواریخ اقوام کشمیر اور تاریخ اقوام پونچھ، مولوی حشمت اللہ، مولانا محمد حسین آزاد دہلوی، سروالٹر لارنس، سر لیبل گرفن،پنڈت دینانات مدن، پنڈت راجانک رتن کنٹھ، ٹھاکر کاہن سنگھ، خواجہ محمد اعظم دیدہ مری کشمیری، ظہور الدین بٹ،صائم صدیقی، ااعجاز احمد فاروقی، ڈاکٹر بشیر چوہدری، انور ایوب راجہ ، پریم ناتھ ہزار، ڈاکٹر صابر آنافی، ایوب صابر، شیخ نوید اسلم ، پروفیسر محمد عارف خان، سعید سعد، پوفیسر رفیق ، جی ایم میر ، ندیم انجم، محمد فضل شوق، محب الحسن،ثریا خورشید اور مولانا ایم اے خان جنگ بازار قابل ذکر ہیں۔ محمد دین فوق کی اپنی تصنیفات میں 25ہزار قبیلوں، خاندانوں اور گھرانوں کے تاریخی و تہذیبی ، سیاسی، علمی، ادبی ، حربی اور کسبی واقعات اور حقائق لکھے ہیں جو شائد ہی کسی تاریخ دان اور محقق کے احاطہ قلم کا کرشمہ ہو۔ بہت سے مصنفین ایسے بھی ہیںجنہوں نے کسی ایک ہی ذات، گوت، برادری یا قبیلے پر تحقیق کی اور ان کی عصبیت، حکمرانی اور دیگر اوصاف کو قلمبند کیا ۔ اسطرح کی کتب اور تحقیق پر مبنی تواریخ اکثر کمزور بنیاردوں پر اٹھائی جاتی ہیں اور مصنفین اپنی کمزور دلیوں کی پختگی کیلئے قرآنی آیات اور احادیث سے واقعات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنا شمبرہ اصحاب رسولﷺ یا پھر کسی ولی یا پیغمبر سے جوڑ لیتے ہیں اس طرھ کی تحقیقات میں سر فہرست تاریخ شاہان گجر ہے جسکے مصنف ابو البرکات مولوی عبدالمالک ہیں اس طرح کی تاریخی کتابوں میں تاریخ افغانستان بحوالہ تاریخ سدزوئی ہے جسکے مصنف ڈاکٹر عاشق درانی ہیں اس تاریخ اور آزاد کشمیر کے سدھنوں کی نوشتہ تواریخ کی کتب میں کئی حوالوں سے فرق ہے۔ جاٹوں ،ارائیوں، راجپوتوں، اعوانوں اور دیگر اقوام پر بھی سینکڑوں تحقیقی رسالے اور کتب لکھیں گئیںجن پر سر لیبل گرفن اور محمد دین فوق نے شدید تنقید کرتے ہوئے ان کی صحت پر اعتراضات کیے ہیں محمد دین فوق لکھتے ہیں کہ ہندو اکابرین کا شکوہ ہے کہ مسلمان رہتے تو ہندوستان میں ہیں مگر اپنی ذاتوں اور گھرانوں کو عربوں سے ملاتے ہیں اگر انکا شمبرہ کسی عرب سے نہ ملے تو تیموریوں، ترکیوں، منگولوں، اور افغانوں سے ضرور ملاتے ہیں سر لیبل گرفن کی اہیسان پنجاب کا ذکر کرتے ہوئے فوق لکھتے ہیں کہ ہر مسلمان خاندان کی کوشش ہوتی ہے کہ انکا شمبرہ حضرت عباس یا کسی نامور صحابی سے جوڑا جائے، گرفن لکھتا ہے کہ پنجاب کا ایک نامور گھرانہ مہاراجہ شیر سنگھ کے زمانہ تک غیر سید تھا۔ 1840 کے بعد یہ گھرانہ امیر اور جاگیر دار ہو گیا تو سید بخاری مشہور ہوا۔ گرفن نے ایک اور پنجابی گھرانے کے متعلق لکھا ہے کہ پہلے ہندو تھے پھر مسلمان ہوئے اور انگریزی دور کے آغاز میں کچھ اعوان اور سید ہوگئے اصل وجہ انگریز کی وفاداری کے سلسلے میں ملنے والی وسیع زمینیں اور انعامات تھے رسالہ القریش کے مصنف محمد علی رونق لکھتے ہیں کہ محض زمینوں کے حصول اور فوجی بھرتی کے لالچ میں پشاور اور گردو نواح کے قریشی پٹھان ہوئے گئے ہیں تاریخ شاہان گجر کے مصنف نے لکھا ہے کہ زمینوں کی الاٹمنٹ ، فوجی نوکریاں اور اعزازات کے لالچ میں لوگوں نے قبیلے اور ذاتیں بدل لیں۔مزاروں اور خانقاہوں کو جاگیریں ملنے لگیں تو لوگ ہاشمی، قریشی اور سید ہو گئے

حسب و نسب
تاریخ کے مطابق سیدوں، اعوانوں، ہاشمیوں اور قریشیوں کے علاوہ اہل حرفہ اور دیگر گوتوں اور ذاتوں کی بڑی تعداد راجپوت بن گئی چونکہ فوجی نوکریاں اور عہدوں کیلئے راجپوت اقوام کو ترجیح دی جاری تھی۔ تاریخی تحقیق کے مطابق ہر قوم اور قبیلہ اپنے اوصاف سے پہنچانا جاتا ہے سید بے علم، ظالم کنجوس بد کلام، بد زبان اور بداعمال نہیں ہو سکتا اسی طرح دیگر اقوام اور قبائل کے خصائل ہیں جنہیں قومی اور قبائلی عصبیت کہا جاتا ہے۔ راجپوت قبائل قبائل شامل ہیں ڈٹ جانے اور مرجانے کے اوصاف والے قبائل کو انگریز نے مارشل رئیس کا نام دیا الگزنڈر برن کے متعلق پیڑ دھوپ کرک کی بیٹی کیتھلین ھوپ کرک اور ولیم ڈیلریمپل لکھتے ہیں کہ وہ بیشمار خوبیوں کا مالک تھاد مگر ایک عام ائیرش یعنی فٹ کانسٹیبل کا بیٹا تھا۔ اس نے اپنی قابلیت ، ذہانت اور علم کی بنا پر انوپنے ہم عصر اور اعلیٰ حسب و نسب کے گوروں پر فوقیت حاصل کی اور ترقی یاب ہوا۔انگریز ہندوستان میں ہی مارشل رئیس کا قائل نہ تھا بلکہ اپنے ہاں بھی اس امتیاز کا حامی تھا ۔ برن نے تاج برطانیہ کی جو خدمت بجا لائیں وہ غیر معلمولی تھیں مگر پھر بھی وہ برطانیہ میں راجہ، چوہدری،ملک ،خان،نواب،وڈیرہ اور میاں نہ بن سکا۔
نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نہ پایا
ککر تے انگور چڑھایا ہر گچھا زخمایا

حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کی قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ میں گدش نشین،پیر،سید زادے،جاگیر دار،نواب،خان ذادے،بڑے زمیندار،قبائلی سردار،راجپوت،گجر،جٹ،ارائیں اور رئیساںاعوان موجود ہیں جن میں سے اکثر کے کردار پر دھبے لگے ہیں۔یہ لوگ کرپشن،بد عہدی،رشوت خوری،قومی خزانے سے چوری سے لیکر اقربا پروری،عوام دشمتی اور بد اخلاقی جیسے جرائم کے مرتکب ہیں مگر ملکی اآئین و قانون کی نظر میں معتبر اور مقدس ہیں۔سر الیگزینڈر برن نے پنجابی اور سندھی عوام کی جو حالت1833ءمیں لکھی آج بھی عوام کی حالت ویسی ہی ہے اسی طرح بلوچستان اور سرحد کے متعلق جو کچھ ینگ ہاسینڈ،پیٹر ھوپ کرک اور ڈیورنڈ نے لکھا عوام کی اآفتاد میں فرق نہیں آیا۔

قائد اعظمؒ بانی پاکستان بوہانہ راجپوت تھے جنکا گھرانہ کسی دور میں سائیوال سے ہجرت کرکے حیدر آباد چلا گیا۔بھٹو خاندان کے بارے میں رائے متضاد ہے۔ارائیں بھٹوﺅں کو سندھ کے ارائیں لکھتے ہیں جبکہ کچھ مصنفین نے بھٹو خاندان راجپوت لکھا ہے۔اس طرح سکھ دور میں جہلم کے ڈسٹرکٹاینڈ سیشن جج کے فیصلے کے مطابق ڈار،بٹ اور سلہریا اقوام راجپوت ہیں۔بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کا گوانہ بٹ خاندان سے تعلق رکھتا ہے دیکھا جائے تو جناب ذوالفقار علی بھٹو میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو میں راجپوتی اوصاف قدر سے مشترک ہیں۔تینوں میں مذ پر اڑ جانے،نقصان کی پرواہ کیئے بغیر ڈٹ جانے،اپنی بات منوانے اور خطرات مول لینے کی عادت ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔قائد اعظمؒ کو ان تینوں پر فوقیت حاصل ہے۔وہ ڈٹ جاتے تھے اور اپنی بات بھی منواتے تھے مگر عقلی،علمی اور قانونی دلائل کا سہارا لیتے تھے وہ خطرات کو مول لیتے تھے اور پھر اسکا رخ اپنے دشمن کی طرف پھیر دیتے تھے۔قائد اعظمؒ کے بعد مستند راجپوت جناب وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف ہیں مگر بد قسمتی سے موصوف میں ایک بھی راجپوتی وصف نہیں،کرپشن،لوٹ مار،اقرباءپروری اور جی حضوری کے جو ریکارڈ آپ نے قائم کیئے وہ شائد ہی کوئی توڑ سکے۔وعدہ خلافی اور بد عہدی بھی آپ کے سیاسی ریکارڈ کا حصہ ہے37ارب روپیہ جس دیدہ دلیری سے آپ نے قومی خزانے سے نکالا اسکا حساب بھی شائد کوئی لے۔اگر37ارب گوجر خان پر ہی خرچ ہوا ہے تو اسکا سروے بھی ہونا چاہیے جبکہ قانون کے مطابق وزیر اعظم کو یہ رقم سارے پاکستان کے دور دراز اور غیر ترقی یافتہ علاقوں کے عوام پر خرچ کرنا تھی۔وزیر اعظم کے حلقے کا تنا ہی حق تھا جتنا ملک کے دیگر حلقوں کا۔

جناب پرویز اشرف جسطرح جناب صدر کے سامنے اداس بیٹھتے ہیں لگتا نہیں کہ وہ وزیر اعظم ہیں۔حالیہ دورہ اجمیر شریف میں وہ سارے خاندان کو ساتھ لے گئے اور رقم سرکاری خزانے سے خرچ کی جو کہ کرپشن ہی کے زمرے میں آتی ہے۔اسی طرح آپکا دورہ انگلستان تھا جسکا حساب شائد الیکشن کمیشن بھی نہ لے۔اجمیر شریف کادورہ حاضری کے نہیں بلکہ جگ ہنسائی کے زمرے میں آتا ہے۔درگاہ کے متولی نے آپ کے استقبال سے معذرت کر لی اور بھارتی حکومت نے بھی سرد مہری دکھلائی۔ڈمی اور نمائشی وزیر خارجر سلمان خورشید نے مجبوری کے عالم میں چہرے پر ناگواری کے تاثرات کے ساتھ ہاتھ ملایا تو پرویز اشریف صاحب نے بیچارے سمان خورشید کا ہاتھ جنجھوڑ جھنجوڑ کر اور خوشامدانہ مسکراہٹیں بکھیر کر ایسا تاثر دیا جیسے وہ امریکہ کے صدر سے مل رہے ہوں۔پرویز اشرف اپنی راجپوتی کا نہ سہی کم از کم راجپوتانے کا ہی احساس کر لیتے۔مگر کیا کہا جائے موصوف کو راجپوتانے میں بھی راجپوتی جوش نہ آیا۔اگر متولی نے آنے سے منع کیا تھا تو آپ اسے سخت جواب دیتے کہ میاں تمہارا شیخ میرے علی ہجویری کی منظوری سے شیخ الہذ بنا تھا۔تم دہلی دربار کی دال کھاﺅ میں داتا کے دربار پر پلاﺅ کھانے جا رہا ہوں۔

بٹرنگ کا قصبہ گجرات اور بھمبر کی سرحد پر ہے جو کسی دور میں گجرات ہی کا حصہ تھا۔بٹرنگ میں اکثریت چب راجپوتوں کی ہے جنکا پیشہ سپہ گری تھا جس بنا پر آمدنی کے ذرائع محدود تھے۔چونکہ زمینوں سے زیادہ فصلیں نہیں آتی تھیں اسلئے چبتوں نے حکومت پنجاب کو مالیہ دینے سے انکار کر دیا ۔مالیہ وصولی کے وقت گجرات پولس چب سرداروں کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرتی تو سردار مالیہ دینے کے حامی بھر لیتے مگر واپس جاکر انکار کر دیتے۔تنگ آکر انگریز نے حکم دیا کہ چب سرداروں کو عدالت میں پیش کرنے سے پہلے بٹرنگ سے مٹی لاکر عدالت میں اس جگہ پھیلا دی جائے جہاں یہ لوگ کھڑے ہوتے ہیں۔بڑنگ کی مٹی پر کھڑے ہوئے سرداروں سے جج نے پوچھاآپ لوگ مالیہ دو گئے تو سب نے یک زبان ہو کر کہا نہیں دینگے۔جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ یہ بٹرنگ کی مٹی اور راجپوتی خون کا جوش ہے جسے ختم نہیں کیا جاسکتا اسلئے بہتر ہوگا کہ بٹرنگ کے قصبے کو ریاست جموں و کشمیر میں شامل کر دیا جائے چونکہ وہاں کا حاکم بھی راجپوت ہے۔جہاں تک گوجر خان اور پوٹھوہار کے خطے کا تعلق ہے تو اس میں بھی راجپوتوں کی اکثریت ہے اور دوسری اقوام میں بھی مارشل ریس کی کثرت ہے مگر جناب پرویز اشرف کا بیٹا ہی سٹائل ہے۔
وڑھ تمبے دی کڑوی ہوندی سڑیں پتراں سڑیں بیاں
جہی ڈٹھی ما محمد او ہو جہاں ڈٹھیاں دیاں

راجہ صاحب کوئی تو راجپوتی والی بات ہو کہ آپ کا نام بھی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ،جناب ذوالفقار علی بھٹو،محترمہ بے نظیر بھٹواور میاں یا بٹ برادران کی لسٹ میں شامل کیا جائے؟ اور اب عوام نے جس طرح آپ کو بری طرح رد کیا امید ہے اب آپ کو اپنی حیثیت کا اندازہ تو ہو گیا ہو گا؟
asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 100650 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.