ایک شکاری آدمی ایک دن جنگل میں پرندے پکڑتا تھا۔ اور
دوسرے دن دریا سے مچھلی پکڑ کر فروخت کرتا تھا اور اپنے بال بچوں کیلئے
روزی کماتا تھا۔ ایک دن شکاری پرندے پکڑنے کیلئے جنگل چلا گیا‘ جال بچھا کر
دانے ڈالے اور درخت کی اوٹ میں پناہ لیکر انتظار میں بیٹھا۔ تھوڑی دیر بعد
چند پرندے جال کے قریب آئے۔ اسی دوران جال کے قریب ہی راستے پر دینی مدرسہ
کے دو طالب علم آرہے تھے اور زور زور سے باتیں کررہے تھے شکاری ان کے آگے
جاکر درخواست کرنے لگا کہ آپ یہاں تھوڑی دیر کیلئے رک جائیں اور باتیں بند
کریں۔ میں نے پرندوں کو پکڑنے کیلئے جال پھیلایا ہے اور چند پرندے جال کے
قریب بھی آئے ہیں۔ ایک طالب علم نے کہا کہ بھائی! یہ اللہ کا جنگل ہے‘ کسی
کے باپ کا نہیں کہ ہم کو یہاں پر بات کرنے سے منع کرے ہم باتیں کرتے رہیں
گے۔
شکاری نے منت سماجت کی لیکن وہ اس پر راضی ہوئے کہ اگر پرندے پکڑے گئے تو
ہمیں دو پرندے حوالہ کریں گے بہت دنوں سے مدرسے میں گوشت نہیں کھایا۔ شکاری
نے بھی شرط لگائی کہ جس چیز کے بارے میں آپ باتیں کررہے تھے وہ بھی مجھے
سکھاﺅ گے۔ طالب علموں نے کہا ٹھیک ہے اور خاموش ہوکر بیٹھ گئے۔
تھوڑی دیر کے بعد پرندے جال میں پھنس گئے شرط کے مطابق دو پرندے طالب علموں
نے لے لیے اور باقی شکاری نے لے لیے اور شکاری نے پوچھا کہ آپ دونوں کس چیز
کے بارے میں بحث کررہے تھے جواب دیا کہ ہم دونوں میراث کے ایک مسئلہ میں
الجھے ہوئے تھے کہ خنسا مشکل کو میراث میں کتنا حصہ ملے گا شکاری نے پوچھا
کہ خنسا مشکل کون ہوتاہے جواب دیا کہ یہ ایک ایسا انسان ہوتا ہے جو نہ مرد
ہوتا ہے اور نہ عورت شکاری جواب سن کر اپنے گھر چلا گیا۔ اگلے دن شکاری
دریا پر مچھلیاں پکڑ رہا تھا کہ شام کے قریب ایک مچھلی جال میں پھنسی جو
بہت بڑی اور خوبصورت تھی ہر قسم کے رنگ مچھلی پر لگے ہوئے تھے۔ شکاری مچھلی
کو پانی میں ڈال کر زندہ گھر لے آیا۔ بیوی نے مشورہ دیا کہ اس مچھلی کو
بادشاہ کی خدمت میں تحفہ پیش کریں۔ مچھلی کو دیکھ کر بڑا انعام دیگا۔
اگلے دن شکاری مچھلی لیکر بادشاہ کی خدمت میں پیش ہوا۔ بادشاہ مچھلی دیکھ
کر بہت خوش ہوا اور فوراً اعلان کیا کہ اس آدمی کو ایک ہزار روپے انعام دیا
جائے۔ اعلان سنتے ہی ایک وزیر نے بادشاہ کے کان میں کہا کہ بادشاہ سلامت!
یہ آدمی تو سو روپے پر بھی خوش ہوسکتا تھا آپ ایسے اعلان کرتے رہیں گے تو
خزانہ خالی ہوجائیگا۔ وزیر نے کہا کہ اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں یہ
انعام کم کراسکتا ہوں۔ بادشاہ نے اجازت دی۔ وزیر نے شکاری سے پوچھا کہ یہ
مچھلی نر ہے یا مادہ؟ وزیر کا خیال تھا کہ اگر شکاری جواب دے کہ نر ہے میں
اس کے مادہ لانے پر پورا انعام دوں گا اور اگر کہے کہ مادہ ہے تو میں اس
مچھلی کے نر لانے پر پورا انعام دوں گا۔ اور یہ بات ناممکن ہے۔ تو شکاری
مذکورہ انعام سے کم لینے پر بھی راضی اور خوش ہوجائیگا۔ شکاری نے فوراً
جواب دیا کہ مچھلی اس لیے رنگ برنگی اور خوبصورت ہے کہ یہ مچھلی خنسا مشکل
ہے۔ یعنی نہ یہ مچھلی نر ہے اور نہ مادہ۔ بادشاہ نے جب یہ جواب سنا تو
اعلان کیا کہ پہلے ایک ہزار روپے تھا اب اس کو دو ہزار روپے انعام میں دئیے
جائیں۔ محترم قارئین! اس شکاری کو دین کے ایک لفظ سیکھنے پر اتنا فائدہ ہوا
ہمیں بھی چاہیے کہ روزانہ کم از کم ایک بات اپنے دین اسلام کے بارے میں
سیکھیں۔ |