ٓآہ۔۔۔۔ عارف شاہد

میری پہلی ملاقات محترم عارف شاہد سے کب او رکہاں ہوئی ؟یہ تو پتہ نہیں لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ پہلی ملاقات میں ان کی جس بات سے ہمارے تعلقات آگے بڑھے وہ ان کا اخلاق اور دوستانہ رویہ تھا، 2001میں جب میں اسلام آباد ایک نیوز ایجنسی کے ساتھ وابستہ تھا تو قدرے معمول سے ہماری ملاقات ان سے ہوتی رہی، وہ انسان دوست شخص تھے اور ہمیشہ انسانیت سے پیار کرتے تھے ، 2002میں میں اپنے ساتھ راجہ کفیل ( ہم ایک ساتھ کام کرتے تھے ) کو لے کر عارف شاہد سے ملنے گئے اور ا س خواہش کا اظہار کیا کہ ایک میگزین اگر ’’دھرتی ‘‘ کے نام سے شرو ع کیا جائے توآپ کیا تعاون کریں گے ؟انہوں نے بغیر سوچے سمجھے کہا کہ ’’ دھرتی ‘‘ کے نام سے مجھے اس قدر پیا ر ہے آپ جو کہیں گے میں تعاون کروں گا، ہم نے وہیں بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ گیارہ فروری کو مقبول بٹ شہید کی برسی پر ’’ دھرتی ‘‘ کا خصوصی نمبر نکالیں گے ، ہم نے عارف شاہد کے تعاون سے صرف ایک ہفتے میں میگزین تیار کیا یوں وہ’ دھرتی‘ ‘ کے نام سے پہلا میگزین تھا جس کیلئے عارف شاہد نے ہر طرح کی مدد کی، بعد میں یہ سلسلہ مستقل نہ رکھ سکے ، لیکن وہ ہمیشہ کہتے رہے کہ آپ کچھ کریں، ہمارے تعلقات وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتے رہے ، عارف شاہد کو لکھنے پڑھنے کا بڑا شوق تھا ، لیکن وہ وہ زیادہ وقت سیاست کو دیتے تھے ، خود مختار کشمیر کے نظریہ کے حا می تھے جس کے باعث زندگی میں انہیں بے شمارمشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان کا نام ایگزٹ کنڑول لسٹ میں ڈالا گیا جسے عدالت نے ختم کر لیا ۔

وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے ، بعض ناقدین ان پر الزم لگاتے تھے کہ وہ کتابیں کسی اور سے لکھواتے ہیں، یہی سوال میں نے ان سے کیا کہ لوگ یہ کہتے ہیں تو کہنے لگے جو لوگ یہ باتیں کرتے ہیں میں انہیں’’ رقم‘‘ بھی دوں گا اور’’ وقت‘‘ بھی کسی سے کتاب لکھوا کر لے آ ئیں توپھر میں مانوں گاکہ درست کہتے ہیں،عارف شاہد سیاست میں جوڑ توڑ کے بھی ماہر تھے ، ان ہی کاوشوں کا نتیجہ تھا کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی قوم پرست جماعتوں کا اتحاد قائم ہوا جو آل پارٹیز نیشنل الائنس ’’ اپنا ‘‘ کے نام سے آج بھی ایک پہچان بن چکا ہے، یہ اتحاد اب تک قائم ہے او روہ شہادت کے وقت بھی اس الائنس کے چیئر مین تھے ،عارف شاہد کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ وہ مقامی نوجوانوں کو روزگار دینے کیلئے سیاحت کو فروغ دینے پر بہت زور دے رہے تھے ، ان کا اپنا ایک گیسٹ ہاؤس تھا ، تما م ملازمین لوکل ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ مقامی لوگوں کو روزگار نہیں ملے گا تو کرائم بڑھے گا، خود راولپنڈی میں مقیم تھے لیکن جب راولاکوٹ آتے توخوب محفل سجاتے ، کھانے پینے کے بہت شوقین تھے ، ہر رمضان المبارک میں ایک افطار ڈنر دیتے تھے جن میں تمام سیاسی ،سماجی ، تنظیموں کے علاوہ انتظامیہ کے آفیسران کو بھی مدعو کرتے تھے خود اکیلے بھی ہوں تو افطار ی کمال کی کرتے تھے ، ایک دفعہ ازارہِ مذاق کہنے لگے کہ ’’ بڑی‘‘ افطاری میری کمزوری ہے میں روزہ رکھتا ہی ’’ افطاری ‘‘ کیلئے ہوں، وہ ہمیشہ ہنس مکھ اور شگفتہ مزاجی سے زندگی بسر کرتے تھے ، حاضر جواب بھی کما ل کے تھے ،ایک واقعہ انہوں نے خود سنایا کہ ایک انگزیز خاتون ان کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہر گئی یوں تووہ کم ہی اپنا تعارف کرواتے تھے کہ میں کون ہوں اور یہ گیسٹ ہاؤس میرا ہے ، وہ اسقبالیہ کمرے میں لگی مہمانوں کی کرسی پر براجمان تھے کہ مذکورہ انگریز خاتون نے کاؤنٹر کے پیچھے آویزاں عارف شاہد کی بڑے سائز کی تصویر دیکھی اور پھر عارف شاہد کی جانب دیکھ کربرجستہ پوچھ بیٹھی کہ یہ آپ کی تصویر ہے ؟انہوں نے جواب دیا ہاں ، خاتون پوچھنے لگی کہ یہاں اکثر اس طرح کی جگہوں پر قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر لگی ہوتی ہے لیکن آ پ نے اپنی تصویر لگا رکھی ہے ، عارف شاہد فوراً بولے کہ قائد اعظم نے پاکستان بنایا تو وہ ادارے ان کی تصویر لگاتے ہیں یہ گیسٹ ہاؤس تو میں نے بنا یا ہے چنانچہ تصویر بھی میں اپنی ہی لگاؤں گا، انگزیز خاتون کو ان کا جواب بہت پسند آیا اور خوب محظوظ ہوئی ۔

2010کے اوائل میں میں نے ان سے ذکر کیا کہ آپ نے 8سال پہلے کہا تھا کہ ’’ دھرتی ‘‘ نام بہت اچھا ہے اور آپ لوگ جو کچھ کریں ۔ ہمارے پورے ڈویژن میں لوکل اخبار کی بڑی کمی ہے ، میں نے اس نام سے ڈیکلیئر یشن بھی لے رکھا ہے لیکن مسائل بہت ہیں وسائل کم ہیں اگر آپ تعاون کریں تو اخبار نکالا جا سکتاہے ، کہنے لگے کہ اس سے بڑی اور کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ میری اس ’’ دھرتی ‘‘ سے ’’ دھرتی ‘‘ کے نام سے اخبار نکلے ، میرے مالی حالات ان دنوں کو ئی زیادہ اچھے نہیں لیکن میں پھر بھی آ پ سے بھرپو ر تعاون کروں گا او ر وقتاً فوقتا تعاون کرتے بھی رہے ، وہ کہتے رہتے تھے کہ پتہ نہیں میری زندگی کتنی ایک ہے لیکن ایک وقت آئے گا کہ روزنامہ ’’ دھرتی ‘‘ کشمیر کا بہت بڑا اخبار ہو گا ، عارف شاہد کے اندرون اور بیرون ملک ہر شعبہ میں بے شمار دوست تھے وہ مشکل میں کام آنے والے انسان تھے ، کھلے دل کے مالک تھے اور دوسرے کی تکلیف دیکھ کر آبدیدہ ہو جاتے تھے اسی وجہ سے ان کی نمازِ جنازہ میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے دور دراز سے آکر شرکت کی ، ہماری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی کوتائیاں کو معاف کرے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے ساتھ ہی لواحقین کو صبر جمیل عطاکرے۔ آمین
عابد صدیق
About the Author: عابد صدیق Read More Articles by عابد صدیق: 34 Articles with 38291 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.