وہ جو ٢٠١٣ میں بخشے گئے

نئی قومی اور صوبائی اسمبلی بہت سے سابق وفاقی وزراء اور پارٹی کے اہم رہنماؤں کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے۔وجہ سابق دور کی پالیسیاں ہوں یا وزراء کی اپنی شخصیت ،اس بحث سے قطع نظرشائد ووٹر بھی شعور کی حد کو پہنچ چکا ہے۔اس کے علاوہ شائد یہ مقولہ بھی اس دفعہ بری طرح سچ ثابت ہوا ’’جمہوریت ایک بہترین انتقام ہے‘‘ ۔الیکشن کے نتیجے میں عوام نے ان کو ’’بخش ‘‘دیا جو ان کے ’’مجرم‘‘تھے۔

راجہ پرویز اشرف
رینٹل پاور کے مزے پاکستانی عوام کو چکھانے کے علاوہ راجہ صاحب کو اپنی حکومت کے آخری دنوں میں حادثاتی طورپر قوم پر سواری کا شرف بھی حاصل ہوا۔موصوف اتنے ندیدے تھے کہ اپنا صوابدیدی فنڈ دنوں میں ختم کرکے ’’ہور‘کے خواہش مند تھے۔راجہ صاحب کی خواہش تھی کہ وہ دوبارہ اس منصب پر فائز ہوں جس کے وہ اہل نہیں تھے۔انہوں نے اپنے حلقے کو پیرس بنانے کا وعدہ کیا جس میں وہ کام یاب بھی رہے ۔لیکن حلقے کے عوام اتنا ترقیاتی کام اور نقد صوابدیدی فنڈ لینے لینے کے باوجود انہوں نے راجہ صاحب کو ٹھینگادکھایا اورر ٹھینگا کہیں اورلگا دیا۔

فرودس عاشق اعوان
انہوں نے اپنے پارٹی کے پنج سالہ دور حکومت میں بہت سی وزارتوں کے مزے چکھے۔وہ میڈیا میں ہتھ چھٹ مشہور تھیں۔ان کے لائیو پروگرامز کے دوران کھانے پینے کی اشیاء سے پرہیز ہی رکھا جاتا تھا۔اس کے علاوہ ان کے پروگرامز بیش بہا ’’مستند معلومات ‘‘ کا خزانہ ہوتے تھے۔وہ دفن شدہ معلومات جن کے حصول کے لئے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ان کے پروگرامز کے دوران صیغہ راز سے باہر آ جاتی تھیں۔ ۔انہوں نے ’’روتے ‘‘ بہت سے وزارتیں بدلیں لیکن اپنی پارٹی کی وفادار رہیں۔ ان کو میڈیا میں دیکھ کر یہی محسوس ہوتا تھا جیسے وہ کسی شادی کی تقریب میں شامل ہونے کے لئے آئی ہیں۔الیکشن کے دوران ٹوٹکا آزمانے ایک حلقے میں تحریک انصاف کے امیدوار کے حق میں دست بردار ہونے کے باوجود وہ اپنی سیٹ نہ نکال سکیں۔

یوسف رضا گیلانی اینڈ سنز
واقفان حال کہتے ہیں کہ اگر یوسف رضا گیلانی کو الیکشن لڑنے کی اجازت ہوتی تو وہ نہ صرف اپنی سیٹ بلکہ ان کے ساتھ اپنے صاحبزادوں کی سیٹ بھی جیت کر اپنی پارٹی کے حوالے کر دیتے۔کیونکہ ووٹرز نے بچے سمجھ کر ان کو ووٹ نہیں دیا۔کیونکہ بطور سرپرست وہ ان کے ساتھ ہی نہیں تھے۔جبکہ جلنے والے کہتے ہیں کہ گیلانی فیملی کے شاہانہ طرز زندگی نے ان کی شکست کی راہ ہموار کی۔حالانکہ صرف اپنے آبائی علاقے میں بم پروف محل نما گھر بنا کر اور دوسرے ملکوں کے کوٹ سوٹ اور ٹائیاں پہن کر شاہانہ طرز زندگی تو نہیں گزاری جاتی جبکہ امپورٹڈ کپڑوں کے تو لاہور اور کراچی میں ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔یہ تو کسی عام آدمی کی بھی خواہش ہو سکتی کہ وہ ایک محفوظ گھر میں رہے اور اچھے کپڑے پہنے۔

قمر زمان کائرہ
قمر زمان کائرہ کے ہارنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔پارٹی میں وہ ایک سمجھدار ،باشعور رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں۔اپنی پارٹی کے پانچ سالہ دور میں ہر نازک موڑ پر انہوں نے جھوٹے سچے اپنی پارٹی کی عزت پر سے آنے والے ہر حرف کو ٹالنے کی کوشش کی۔ان پر شائد کوئی داغ نہ ہو لیکن ان کی پارٹی کے اکثر کا ماننا تھا’’داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘اورانہی اجتماعی داغوں کو وہ اکثر دھونے کی کوشش کرتے رہے۔ اپنی نحوست نہ سہی لیکن دوسروں کی نحوست کے سائے ان کا بھی پیچھا کرتے رہے ۔ان کی ناکامی پر ’’بابا جی‘‘کا کہنا ہے اس شخص کو کسی درویش کی ’’نقلیں ‘‘ اتارنے کی سزا ملی ہے۔او پیمرا والوں ،او واپڈا والوں۔۔۔۔

ملک ربانی کھر
حنا ربانی کھر نے اپنی سیٹ کو محفوظ کرنے کے لئے اپنے والد کے حوالے کر دیا۔لیکن اتنی بڑی’’ قربانی‘‘ دینے کے باوجود حلقے کے عوام کو قربانی پسند نہیں آئی ۔شائد حنا ربانی کھر براہ راست ہارنے سے ڈر رہی تھیں ۔ایک پڑھی لکھی قیمتی سے قیمتی پرس اورنمبر ون فیشن کی عینک پہننے والی فر فر انگلش بولنے والی وزیر خار جہ کے مقابلے میں حلقے کی عوام نے ایک ایسے جعلی ڈگری ہولڈر کے حق میں فیصلہ دے دیا جو اپنے کاغذ نامزدگی جمع کروانے کے لئے بھی گدھا گاڑی پر جاتا ہے ۔جبکہ وہ ٹھنڈی ٹھارگاڑی سے اترنا اور عوام سے ملنا بھی ’’نحوست ‘‘ خیال کرتی ہوں گی ۔اپنے ’’باپو‘‘ کے بھی ہارنے کے بعد باپ بیٹی سوچ تو ضرور رہے ہوں گے ۔یہ حلقے کے عوام کونسی تبدیلی کی خواہش مند ہیں۔

میاں منظور وٹو
پنجاب میں روز بروز گھٹتی ہوئی پارٹی پوزیشن کو سہارا دینے اور اس کو مزید فعال عمران اور ن لیگ فیکٹر کا مقابلہ کرنے کے لئے پارٹی کے ’’سیانوں ‘‘نے کھوسہ صاحب کی ’’بلی ‘‘دینے اور میاں منظور وٹو کو یہ ٹاسک دے دیا۔انہوں نے اپنے ’’ٹاسک‘‘کو کچھ اس انداز سے پورا کیا کہ وہ نہ صرف خود ہارے بلکہ ان کے پارٹی پوزیشن کی بہتری کے لئے اٹھائے گئے ’’اقدامات‘‘ کی بدولت اب نو ن لیگ کو پنجاب میں اتنی عددی اکثریت حاصل ہے کہ انہیں کسی بھی جانب دیکھنے کی ضرورت نہیں ۔ میاں منظور وٹو کے لئے بھی راوی پانچ سال کے لئے چین ہی چین لکھتا ہے۔

راجہ ریاض احمد
راجہ صاحب پنجاب میں اپنی پارٹی کے سب سے فعال رکن تھے۔پنجاب اسمبلی میں جب شہباز شریف نے یونیفیکیشن گروپ کی بدولت ان کی پارٹی سے جان چھڑائی تو سب سے ذیادہ اردو اور انگلش میں ان کے ہی بیان آئے تھے۔ایک چینل پر ان کی انگلش کا ایک کلپ دیکھنے کا تفاق ہوا۔اس کلپ سے ان کی انگلش سے محبت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔انہوں نے ہر لفظ ہر اٹکنے کے باوجود پورا پیپر پڑھ کر چھوڑا۔ان سے اچھی انگلش تو میرا فی البدیہہ بول لیتی ہیں۔شہباز شریف کے وفاقی حکومت کے خلاف دھرنوں کے جواب میں انہوں نے صوبائی حکومت کے خلاف دھرنوں کا اعلان کر دیا۔جس کے جواب میں شہاز شریف نے شائد ان کے جثے کو دیکھتے ہوئے دھرنے منسوخ کر دیئے۔پنجاب میں پارٹی کی پوزیشن کو ’’مستحکم ‘‘رکھنے میں میاں منظور وٹو کی طرح ان کا بھی ہاتھ ہے۔

Khalid Mehmood
About the Author: Khalid Mehmood Read More Articles by Khalid Mehmood: 37 Articles with 35297 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.