لاالہ الّااللہ

راستہ وہی اچھا ہوتاہے جو منزل تک لے جائے۔کوئی بھی راستہ اس لئے اچھانہیں ہوتا کہ وہ وسیع،کشادہ اور دلکش ہے بلکہ اس لئے اچھا اور اہم ہوتاہے کہ منزل تک لے جاتاہے۔اگر راستہ منزل تک نہ لے جائے تو چاہے کتنا ہی وسیع، کشادہ اور خوبصورت کیوں نہ ہو اسے انتخاب نہیں کیاجاسکتا اور اگر راستہ منزل تک لے جائے تو چاہے کتناہی کٹھن اور دشوار کیوں نہ ہو اسے ترک نہیں کیاجاسکتا۔

جو انسان اپنی منزل کا تعیّن نہ کرے اور راستوں کی لمبائی ،چوڑائی اور دلکشی کو دیکھ کر قدم اٹھانے شروع کر دے وہ جتنا تیزی سے چلتاہے اتناہی منزل سے دور ہوتاچلاجاتاہے اورایسے انسان کے لئے نجات سے زیادہ ہلاکت کی کئی صورتیں نکل کر سامنے آجاتی ہیں۔

برّصغیر کےمسلمانوں کے لئے پاکستان ایک منزل کانام نہیں بلکہ ایک راستے کا نام تھا۔ہندوستان کے مسلمان اس راستے کو طے کرکے اسلامی حکومت کی منزل تک پہنچنا چاہتے تھے۔

مسلمانانِ برّصغیر کا وہ کارواں جو۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کوپاکستان کا مطلب کیا۔۔۔لاالہ الااللہ کی نیت کر کے اپنی منزل کی طرف رواں ہوا تھا ابھی تک راستے میں ہی ہے۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہےکہ پاکستان بننے کے بعد پاکستان کے مسلمانوں نے کوئی ترقی نہیں کی تو یقینا اسے یا تو حالات سے مکمل آگاہی نہیں ہے اور یاپھر کسی اور وجہ سے حقائق پر پردہ ڈالنا چاہتاہے۔

اس سے انکار نہیں کہ پاکستان کو اپنے قیام کے فوراً بعد شدید معاشی اور سیاسی بحرانات کا سامنا کرنا پڑا اور ابھی تک ان مسائل کا شکار ہے لیکن ہمیں اس حقیقت کو بھی مدِّ نظر رکھنا چاہیے کہ وہ ملک جو اپنے جغرافیئے،معیشت اور حکومتی نظام کا آغاز بالکل صفر سے کرے ،اس کے لئے یہ مسائل بالکل فطری اور لازمی ہیں۔خصوصا ایک ایسا ملک جس کے وجود میں آنے سے پہلے ہی اسے ختم کرنے کی فکر جنم لے چکی ہو اور اس کے گرد سازشوں اور دشمنیوں کے الاو دہک رہے ہوں ،صاحبانِ عقل کے لئے ایسے ملک کا مسائل کے گرداب میں پھنسنا ایک یقینی امر ہے۔

یہ ملک اگرچہ مشکلات کے بھنور میں ہے لیکن ملت پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ یہ ملت روزِ اوّل سے دینِ اسلام کی سربلندی کے لئے میدان میں تھی،میدان میں ہے اور ہمیشہ میدان میں رہے گی۔ افغانستان کے کہساروں سے لے کر کشمیر کے چناروں تک اور یوم القدس کی ریلیوں سے لے کر مردہ باد امریکہ کے نعروں تک حرف حرف داستانِ عشق پاکستانیوں کے خون سے رقم ہے۔

یہ ملت گزشتہ کئی برسوں سے ایک کارواں کی صورت میں اپنی منزل کو رواں دواں ہے۔اس سفر کے دوران راستے میں جابجا سیاسی قزاق اور معاشی لٹیرے اس ملت کو لوٹ رہے ہیں چنانچہ ہمارے ہاں ہر ادارے میں کرپشن ،ہر الیکشن میں دھاندلی،ہر کوچے میں خون اور ہر شخص کے چہرے پر اداسی صاف نظر آرہی ہے ۔
کئی سالوں پر محیط اس ابتری اور کشمکش سے پتہ چل رہاہے کہ ملت پاکستان کا انتخاب کردہ راستہ دشوار ترین اور کٹھن ضرور ہے لیکن ہمیں ہر صورت میں دفاعِ پاکستان کرتے ہوئے اپنی منزل یعنی اسلامی حکومت کی طرف بڑھناہے۔

دنیا میں کہیں پر بھی اسلامی حکومت کے قیام کے حوالے سے دو طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں ،ایک یہ ہے کہ چلتے ہوئے نظام کو ہاتھ میں لے کر درست کیاجائے اور دوسرایہ ہے کہ عوام کی تربیّت کرکے اسلامی حکومت کو قائم کیا جائے۔

ممکن ہے کہ کوئی یہ سمجھے کہ پہلا راستہ مختصر اور دوسرا طولانی ہے لیکن درحقیقت پہلا راستہ بھی اتناہی طولانی،کٹھن اور دشوار ہے جتناکہ دوسرا۔

ہمیں دونوں محاذوں پر بنیادوں سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

تاریخ پاکستان کے مختصر دورانئے میں ہمارے تاریخی تجربات سے ثابت ہے کہ اگرملت پاکستان کے لئے علماء کرام اور دانشمند حضرات ٹھوس لائحہ عمل تیار کریں اور مناسب حکمتِ عملی اختیار کریں تو یہ ملت بہت جلد اپنی منزل تک پہنچ سکتی ہے۔

ہمیں اپنی حکمتِ عملی کے حوالے سے یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ کوئی بھی حکمتِ عملی اس لئے اچھی نہیں ہے کہ اسے فلاں فلاں نے تیار کیاہے،اس پر اتنے عرصہ صرف ہواہے اور ۔۔۔ بلکہ حکمتِ عملی کی حیثیت ایک راستے کی سی ہے اور راستہ وہی اچھا ہوتاہے جو منزل تک لے جائے۔کوئی بھی راستہ اس لئے اچھانہیں ہوتا کہ وہ وسیع،کشادہ اور دلکش ہے بلکہ اس لئے اچھا اور اہم ہوتاہے کہ وہ منزل تک لے جاتاہے۔ ممکن ہے کہ کوئی یہ سمجھے کہ چلتی ہوئی حکومت کو ہاتھ میں لینے کا راستہ مختصر ہےاور عوام کی تربیت کا راستہ طولانی ہے لیکن درحقیقت پہلا راستہ بھی اتناہی طولانی،کٹھن اور دشوار ہے جتناکہ دوسرا۔لہذاجن کے راستے دشوار،کٹھن اور طولانی ہوں انہیں دوسروں کی نسبت زیادہ متحد اور چوکنّا رہنے کی ضرورت ہواکرتی ہے۔
نذر حافی
About the Author: نذر حافی Read More Articles by نذر حافی: 35 Articles with 29949 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.