کچھ لوگوں کہنا ہے کہ یہ امریکہ کی جنگ ہے جو کہ ہم لڑ رہے ہیں جبکہ کچھ
لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ہماری اپنی جنگ ہے۔ ہمارا بھی یہ ماننا ہے کہ یہ
پرائی جنگ ہے جو کہ پاکستان کے اوپر مسلط کی گئی ہے۔ دیکھیں اس کا آغاز تو
دراصل جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور سے ہوا۔ جب روسی سفید ریچھ گرم پانیوں
کے تعاقب میں افغانستان میں گھس گیا۔ اس وقت دنیا میں دو سپر پاور تھے ایک
روس اور ایک امریکہ، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سوائے ذوالفقار علی بھٹو
مرحوم کے پاکستان کی کسی حکومت نے روس کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی نہیں
دکھائی بہر حال یہ موضوع پھر کبھی چھیڑیں گے اس وقت بات ہو رہی تھی روس کی
افغانستان میں آمد کی۔ روس کی افغانستان میں گھسنے کی غلطی کا امریکہ نے
فوراَ فائدہ اٹھایا اور جہاد کے نام پر افغانستان اور پاکستان میں سرمایہ
کاری کی۔ اس طرح امریکہ نے پاکستان کو سامنے رکھ کر اپنی لڑائی لڑی۔
پاکستان نے اس میں اپنی فوج، اور افرادی قوت مہیا کی اور مجاہدین کو سپورٹ
کیا۔ اسی دور میں پاکستان میں جہادی کلچر فروغ پایا اور دنیا بھر کے
مجاہدین کو سپورٹ کیا اور ان کو پاک افغان سرحد کے ساتھ واقع علاقوں میں
بسایا گیا اور مقامی لوگوں نے ان مجاہدین کو خوش آمدید کہا اور ان کے ساتھ
رشتہ داریاں قائم کیں۔ اسی دور میں پشاور سے امریکی طیارے اڑان بھر کر روسی
ٹھکانوں پر بمباری کرتے تھے اور اسی دور میں روسی صدر نے کہا تھا کہ ہم نے
نقشے میں پشاور کے گرد سرخ دائرہ بنا دیا ہے یہ دور پاک امریکا تعلقات کی
تاریخ کا نسبتاً بہتر دور کہا جاسکتا ہے۔ اس دور میں پوری دنیا میں امریکی
ذرائع ابلاغ میں پاکستان کو نمایاں اور مثبت انداز میں پیش کیا گیا۔ اسی
دور میں امریکہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی مخالفت
نہیں کی۔اس دور میں ہالی ووڈ میں مشہور مووی (ریمبو تھری ) بنائی گئی۔ جو
کہ جہادی کلچر کی حمایت میں ہے ۔بہر حال انجام کار یہ ہوا کہ روس کو
افغنستان میں شکست ہوئی اور وہ وہاں سے رسوا ہو کر نکلا یہ سوال بے محل
ہےکہ جہادیوں نے نکالا یا فوج نے بہرحال امر واقعہ یہ ہے کہ روس کو شکست
ہوئی۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ روس کو افغانستان میں شکست ہوتی ہے انیس سو
نواسی میں اور پاکستان میں جہادیوں کو دشمن سمجھا جاتا ہے دو ہزار دو کے
بعد ! وہ لوگ کہ جن کو خود پاکستانی عوام اور حکومتوں نے سپورٹ کیا جہاد
افغانستان کے تقریباً بارہ سال بعد ان کو دشمن کیوں سمجھا گیا؟ یہی وہ
بنیادی سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈنا چاہیے اور جواب بہت واضح ہے۔ دراصل روس
کی شکست کے بعد امریکہ کو اپنی حکمت عملی میں ایک جھول نظر آیا کیوں کہ روس
کی شکست کے بعد دنیا بھر میں جاری مسلمانوں کی تحریک آزادی میں ایک نیا
ولولہ ایک نیا جوش و جذبہ پیدا ہوگیا۔ کشمیر میں جہاں کشمیر عوام چالیس
پیتالیس سال سے مظاہرے اور اقوام متحدہ کو قرار دادیں پیش کرتے تھے لیکن
بھارت پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا اور دنیا میں کسی کو اس مسئلہ کی سنگینی
کا اندازہ نہیں تھا لیکن روس کی شکست کے بعد جب وادی کشمیر میں مسلح جدوجہد
کا آغاز ہوا تو پھر بھارت کو بھی محتاط ہونا پڑا اور پوری دنیا کو بھی
احساس ہوا کہ کشمیر کا بھی کوئی ایشو ہے۔ فلسطین میں تحریک آزادی کو مہمیز
ملی اور افغانستان سے مجاہدین نے کشمیر، فلسطین اور روس کے مقبوضہ علاقے
چیچن کا رخ کیا۔ یہ چیز امریکہ کے لیے قابل قبول نہیں تھی اس لیے افغانستان
سے روس کی شکست کے صرف تین سال بعد سن بیانوے ہی سے جہاد اور مجاہدین کی
کردار کشی شروع کردی گئی۔
اس دوران افغانستان خانہ جنگی لی لپیٹ میں آگیا اور اس خانہ جنگی سے طالبان
نے جنم لیا۔ طالبان کا ظہور انیس سو چورانوے میں ہوا اور انیس سو چھیانوے
میں طالبان نے کابل پر قبضہ کرلیا، اس کے بعد طالبان کی پیش قدمی بڑھتی رہی
اور بہت جلد انہوں نے افغانستان کے نوے فیصد علاقے میں کنٹرول حاصل کرلیا
اور وہاں اسلامی حکومت قائم ہوگئی۔ اگرچہ اس کے خلاف پروپیگنڈا تو کافی کیا
گیا لیکن دراصل وہ دور افغستان کی تاریخ کی سب سے پر امن دور تھا جب پہلی
بار تمام مسلح گروپوں کو غیر مسلح کیا گیا، افغانستان میں پوست ( ہیروئین )
کی کاشت ختم کی گئی۔ افغانستان میں امن قائم کیا گیا اور تاریخ میں پہلی
بار پاکستان کو پاک افغان سرحد سے اپنی فوج ہٹانی پڑی اور وہاں صرف سیکورٹی
فورسز کا کنٹرول ہوتا تھا اور پاکستان نے پوری توجہ اپنی مشرقی سرحدوں پر
مبذول کردی۔ یہ چیز امریکہ اور بھارت کے مفادات کے خلاف تھی۔ اسی لیے ایک
سازش کے تحت نائین الیون کا خونی ڈرامہ اسٹیج کیا گیا اور اسامہ بن لادن کو
اس کا ذمہ دار ٹہرایا گیا اور پھر اس کو جواز بنا کر افغانستان پر جنگ مسلط
کردی گئی۔ افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کے بعد ہی طالبان اور جہادی تنظیموں
کے خلاف پاکستان میں کاروائیاں کی گئیں اور ان کو پاکستان کا دشمن کہا گیا۔
قارئین اب تک کی جو صورتحال بیان کی گئی ہے اس کو سامنے رکھیں اور پھر
دیانت داری کے ساتھ یہ فیصلہ کریں کہ طالبان یا مجاہدین پاکستان کے دشمن
ہوسکتے ہیں اگر وہ پاکستان کے دشمن ہوتے تو پاکستان کو کبھی بھی اپنی مغربی
سرحدوں سے بے فکر نہیں ہونا پڑتا۔ اگر وہ پاکستان کے دشمن ہوتے تو اس وقت
پاکستان کے خلاف کاروائیاں کرتے جب کسی کو ان پر شک ہی نہ تھا اور پاکستان
کے حکام ان کی سپورٹ کرتے تھے۔ اگر وہ پاکستان کے دشمن ہوتے تو بارہ سال کے
بعد کیوں دشمنی کرتے جب وہ ویسے ہی مشکلات کا شکار تھے؟ ہم جانتے ہیں کہ
افغان جہاد سے لیکر امریکہ کی جارحانہ پیشقدمی تک کوئی ایسی رپورٹ کوئی
ایسی خبر ہمارے سامنے نہیں ہے کہ جہادی تنظیموں نے کوئی واردات کی ہو۔ رہی
فرقہ واریت تو وہ پاکستان میں کئی عشروں سے موجود ہے اس کو جہاد کے ساتھ یا
جہادی گروپوں کے ساتھ نتھی کرنا درست نہیں ہے۔
بہت سے لوگوں کے نزدیک جنرل ضیاء الحق کا روس کے خلاف جنگ میں حصہ بننا ایک
غلط فیصلہ تھا۔ ہوسکتا ہے کہ ایسا کہنے والے درست کہتے ہوں لیکن میں آپ
تمام لوگوں سے کچھ سوال کرنا چاہوں گا۔ آپ ساری صورتحال کو سامنے رکھیں کہ
ایک طرف بھارت جیسا کینہ پرور ہمسایہ جس نے کبھی پاکستان کو دل سے تسلیم
نہیں کیا۔ دوسری طرف اس وقت افغانستان میں جو گروپ روس کی حمایت کررہا تھا
وہ علی الاعلان پاکستان کے صوبہ سرحد کو اپنا حصہ سمجھتا ہے۔ تیسری طرف
امریکہ جیسا مکار جس کا جھکاؤ ہمیشہ پاکستان کے بجائے بھارت کی طرف رہا ہے
اور اب بھی یہی صورتحال ہے۔ اب فرض کریں کہ اگر روس کو اففانستان میں شکست
نہ ہوتی اور وہ افغنستان کو پچھاڑنے کے بعد اگر پاکستان کے اوپر حملہ آور
ہوتا تو کیا بھارت اس کے مقابلے میں پاکستان کی حمایت کرتا؟ کیا امریکہ
پاکستان کو مدد کے لیے آتا ؟ کیا اسلامی ممالک کے حکمران پاکستان کی کوئی
مدد کرتے؟ اس کا جواب بہت واضح ہے کہ نہیں بلکہ بھارت اس موقع سے پورا
فائدہ اٹھاتا اور پاکستان کو توڑنے کی پوری کوشش کرتا۔امریکہ کبھی بھی روس
کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ جس طرح اس نے اکہتر کی پاک بھارت جنگ میں چھٹے
بحری بیڑے کا لارا دیا تھا اسی طرح پاکستان صرف تسلیاں دیتا اور انجام کار
اس سارے معاملہ کو پاکستان ہی کو بھگتنا پڑتا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ
جنرل ضیاء الحق کا وہ فیصلہ بالکل درست تھا اور اس وقت جو جنگ جاری ہے وہ
پاکستان کی نہیں بلکہ امریکہ کی جنگ ہے جو ہم پر مسلط کی گئی ہے جس میں
دونوں طرف مسلمان ہی مر رہے ہیں |