کراچی میں جب سے اپنا ٹھکانہ
کھویا ہے کچھ عجب گو مگو کا عالم رہتا ہے کس کے ہاں جائیں کہاں ٹھریں،وقت
اور حالات کے ساتھ اپنے شہر بھی پراۓ لگتے ہیں-اگرچہ اس شہر عزیز میں زندگی
کے کئی برس کی یادیں وابستہ ہیں انتھائی تلخ اور انتھائی شیریں ! حالانکہ
اتنے عزیز و اقارب اور دوست احباب ہیں لیکن کچھ ہچکچاہٹ سی ہوتی ہے-وقت اور
حالات بہی متقاضی ہوتے ہیں-اس مرتبہ جب جانا ہوا اور جانا بہی ضروری ٹہیرا
تو کئی محبت بھرے پیغام شد و مد کی ساتھ آئے ،میرے پاس آکر رکیں، غریب خانہ
حاضر ہے ! لیکن سہولت اور حفاظت کے پیش نظر پی این ایس شفاء کےضیافت خانےکی
میزبانی زیادہ بھائی اورایک اور عزیز کے توسط سے کار اور ڈرایئورکا انتظام
ہوا بہترین انتظام اور سھولت--
اگلی ہی شام کو ہمارے دیرینہ رفیق اور کرم فرما نے اپنے دولت خانے پرعشائیے
کا اہتمام کیا محبتوں اور رفاقتوں کی تجدید، سارے خاندان نے اپنی چاہتوں سے
سمیٹ رکھا-
اگلے روز اپنے کام سمیٹنے میں مصروف رہے' کچھ وقت ملیر کینٹ کےشھر خموشاں
میں گزارا---یہ دنیا ،ر اسکی بے ثباتی اور اللہ تبارک و تعالئ کی کڑی
آزمائشیں،اور ایک عاجز ناتواں بندی لیکن اسی اللہ نے اسے حوصلہ اور حالات
سے نبرد آزما ہونے کی ہمت دے رکھی ہے، اسکی نعمتوں کا جتنا شکر ادا کیا
جائے کم ہے ،مذید آزمائشوں سے پناہ کی درخواست ہے ----اور سفر جاری ہے---
زندگی کیا ہے عناصر میں طہور ترتیب ، موت کیا ہے انہی اجزاء کا پریشان
ہونا--
شام کو Port Grand''کا رخ کیا وھاں کے منیجر فیصل بیگ صاحب نے شرف میزبانی
بخشا ،اس پروجیکٹ کی تعمیرو ترقی کی تفصیلات سے آگاہ کیا انتہائی اعلےٰ
پروجیکٹ ، بین الاقوامی معیار کی سطح کی تعمیر ، طبیعت خوش ہوئی اور اللہ
کا شکر ادا کیا کہ تعمیر و ترقی کا کام ہو رہا ہے ، چاہے پرایئویٹ سیکٹر
میں ہی ہو- یہ ایک متروک ڈاک dock تھا جسکو ازسر نو تعمیر کیا گیا ہے اسکی
تعمیر و ترقی میں عارفین گروپ اور دیگر ملوث ہیں- پھلے تو بازار اور کھیل
کود کی جگہیں ہیں اور پھر ریستورنٹ کا سلسلہ ہے، بھت دلچسپ نام ہیں،چینی،
جاپانی، اٹا لیئن، بار بی کیو۔ ماہی گیر ، سماوار ہم سماوار پر جاکر بیٹھے
، وہیں پر فیصل نے کھانے کا انتظام کیا - اس چائے خانے کا مینو دیکھ کر بہت
اچھا لگا ، چائے کے تمام مشہور ذائقوں کے نام تھے ( اب فلیورکی اردو کیا
ہونی چاہیے؟)میں نے ایرانی چائےمنگوائی-وہاں بیٹھ کرمحسوس ہو رھا تھا جیسے
بحری جہاز کے عرشے پر ہیں اور سمندر کا نظارہ کر رہے ہیں- نسیم بحری سے لطف
اندوز ہوتے رہے، بیحد پرسکون اور دلکش ماحول تھا-کافی خاندان ان پرسکون
لمحات سے بہرہ ور ہورہے تھے-میرا بھائی شیشے سے شغل کرتا رہا--
اس مرتبہ عرصہ 4 سال کے بعد کراچی جانا ہوا -شہر کو عموما بہت بہتر حالات
میں پایا -ہر جانب چڑھتے اترتے فلائی اورز ،بند نالے اور خوب ہریالی نظروں
کو بیحد بھائی کوئی نیا پودہ متعارف ہوا ہے جو تیزی سے بڑھتا ہے اور خوب
ہرا ہوتا ہے(بعد میں معلوم ہوا کہ یہ Picus ہے- یہ پودہ امریکہ میں بھت
مقبول ہے ) -کراچی شہر کی بہتری کا کام مئیر کراچی نعمتاللہ خان صاحب کے
زمانے میں شروع ہوا تھا-لیکن غنیمت ہے کہ اس کام کو مصطفیٰ کمال صاحب نے
خوب بڑھایا ، ایک عزیز سے میں نے کراچی کی خوبصورتی کی لیے جب تعریفی کلمات
کہے تو گویا ہوۓ ،'کتنے لوگوں کی لہو سے یھ سب سینچا گیا ہے؟ " ،" لہو تو
بہ رہا ہےاور اسکا کوئی حساب دینے والا نہیں ہے ،کم از کم کچھ بہتر کام تو
ہوا " میں کسی کی اچھے کام کی تعریف کنے بنا نہیں رہ سکتی " لیاقت آباد
کیطرف سے گزر ہوا پوری پوری دیواریں ایم کیو ایم کے جھنڈوں اور نعروں سے
رنگین تھیں صاف الفاظ میں درج تھا ' الطاف حسین کا قلعہ" اب سیاسی لحاظ سے
کسی کو انکار کیسے ہوسکتا ہے؟
بھاگتا دوڑتا شہر ، زندگی اور چہل پہل سے بہر پور -- کراچی جو پاکستان کی
شہ رگ ہے ، جو منی پاکستان ہے---
میرے پاس وقت کی قلت تھی ، موسم اچانک ظالم ہوگیا ، سخت گرمی اور بے انتہا
حبس مجھے کینیڈا یاد آرھا تھا جھاں 15 جون سے سرکاری طور پر گرمی شروع ہوتی
ہے اور لوگ ایک دوسرے کو گرمی کی مبارکباد دیتے ہیں کارڈ بھی دیئے جاتے ہیں
اور جب میں انکو بتاتی ہوں کہ مجھے گرمیاں بلکل نہٰیں پسند " تو انہیں مین
کوئی عجوبہ لگتی ہوں -- جب مجھے امریکا کا امیگرانٹ ویزہ لگا تو مانتریال
میں میرے ساتھ اک سکھ جوڑا تھا -اتفاق سے ہم دونوں کو بعد میں فینیکس جانا
تھا--بلونت کہنے لگی،' انڑ شکر کیتا اے گرم شھر دے وچ جاؤنگے، 25 ورشان توں
برفاں چک چک کے ٹوٹ گیے نیں،اتے تے ہر کار دے پیچھے ایک وڈا پول نے"( اب ہم
نے شکر کیا ہے کہ گرم شہر میں جارہے ہین ،25 برسوں سے برف اٹھا ٹھا کر ٹوٹ
گئے ہیں- وہان تو ہر گھر کے پیچھے ایک بڑا پول ہے) جبکہ فینیکس والے وہاں
کی گرمی سے عاجز--انسان بھی بڑا ہی ناشکرا ہے کسی حال میں خوش نہیں ہوتا
----- ارے بھیئ پاپ کہانیوں کے اس دور میں' میں چھوٹی سی بات کو کیوں طول
دے رہی ہوںٓٓٓ----
سہراب گوٹھ کی طرف جانا ہوا تو یوں لگا کراچی شہر کی حدود ختم ہو گئی ہیں
اور دشمن کے علاقے میں داخل ہوگئے ہیں --گندگی ِ غلاظت کے ڈھیر ، درخت کا
نام و نشان نہیں--ہر طرف اے این پی کے جھنڈے لگے ہوۓ تھے--بر سر پیکار
گروہوں نے علاقے کا ستیا ناس کر رکھا تھا--انھی دنوں میں لیاری آپریشن جاری
تھا --باہر سے فون پر فون آرہے تھے نکلو کراچی سے ----
ایک عزیز کے ہاں دو تین روز قیام کیا ،کڑی پتے کا درخت انکی بالائی کھڑکی
تک آرھا تھا خوشبو دار پھول کھلے ہوئے، اسپر خوب کوئیلیں کوکتیں -اسکا پودا
وہ مجھ سے لے گۓ تھے اور اب یہ ایک تناور درخت بن چکاتھا-- اتنا بڑا کڑی
پتے کادرخت اور اسکے پھول زندگی میں پھلی مرتبہ دیکھے- شمالی-امریکا میں
میری دوستوں نے چھوٹے ،بڑے گملوں میں اسے اندرون خانہ رکھا ہوتا ہے--
الحمدللہ پیار و محبت کا یہ سفر بھت بھاگ دوڑ میں بعافیت پورا ہوا, بعد میں
بہت سے فون اور ای میل آئے ، بتایا کیوں نہیں ، فون کیوں نہیں کیا--- یار
زندہ صحبت باقی--پاکستان کے قرئے قرئے چپے چپے کی طر ح اللہ تعالیٰ کراچی
کو امن و سکون کا شہر اور گھوارہ بنادے ،جہاں ماؤں کی گودیں ، بیویوں کا
سھاگ اور معصوم بچے بحفاظت اور سلامت رہیں ---
***
جہاں ظلمت رگوں میں اپنے پنجے گاڑ دیتی ہے
اسی تاریک رستے پر دیا جلتا نہیں ملتا |