چناردیس کے پرکیف نظاروں اور پیاروں سے ملاقات کا احوال - قسط نمبر 1

(سفرنامہ کشمیر)
”گھر سے گھر تک“

ریاست جموں کشمیر اپنی صدیوں پرانی تہذیب وثقافت، کلچراور اپنے مخصوص جغرافیائی خدوخال کے لحاظ سے دنیا کاایک ایساخطہ ہے ، بلاشبہ جس کاکوئی ثانی نہیں۔ تاریخ شاہدہے کہ ریاست جموں وکشمیرمیں دین اسلام کی روشنی اولیاءکرام کی محبت،امن وآشتی اور مروت کے حسین جذبوں کے پیام سے پھیلی۔کشمیر کی سرسبز وشاداب وادیاں ایسے ہی جلیل القدربرگزیدہ ہستیوں اور اولیاءاللہؒ کے آستانوں کی امین ہیں، جن سے آج بھی امن ومحبت کی خیرات بانٹی جارہی ہے۔ اطراف واکناف کے پہاڑی سلسلے ، گھنے جنگلات ، باغات ، جھلیں ، آبشاریں اور میٹھے وٹھنڈے پانی کے قدرتی چشمے، یہاں کے بسنے والے لوگوں کے پرامن مزاج اور سادہ مگر پروقار طرز زندگی کی مثالیں پوری دنیاکیلئے ضرب المثال ہیں۔تاریخ کشمیر سے واقف لوگوںپرعیاں ہے کہ کشمیر کے لوگ فطری طورپر ملنسار ، مہمان نواز اور فراخ دل واقع ہوئے۔ صدیوں سے چلی آرہی ان کی مخصوص باوقار تہذیب وتمدن رسم ورواج او رمذہبی میلانات میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی ہے ۔دنیا میں برپا ہونے والے کسی بڑی سے بڑی تہذیبی وثقافتی تبدیلی نے ان کے مزاج کوباغی نہیں کیاہے۔ حضرت سلطان زین العابدین المعروف بڈھ شاہ ؒ کے معتقد،یہ بندگان خدا حتی المقدر اپنے اپنے کام کاج میں لگے رہتے ہیں ۔

اگست1947ءمیں جب پاکستان قائم ہو ا،اُس وقت میرے والد محترم غلام رسول مغل کی عمر تقریباً 13-14 سال تھی، جوکہ الحمداللہ حیات ہیں ،بیان کرتے ہیں کہ” ہمارا آدھا خاندان کرناہ کے نواحی علاقہ گبرہ( موجودہ تحصیل ٹنگڈھار ) اور نصف ہٹیاں بالا (موجود ضلع) کے بلند وبالاعلاقہ ریشاں میں آباد تھے۔گبرہ ریشیاں سے شمال مشرق کی طرف تقریباً40سے45میل کے فاصلے پروقع ہے۔تقریباً آدھے دن کاپیدل سفر کرکے ہم ایک دوسرے کے معاملات ،خوشی غمی میں باآسانی شریک ہوتے تھے۔ زیادہ ترلوگ زمینداری ، کھیتی باڑی کرکے گزر بسر کرتے تھے ، کچھ لوگ چھوٹے موٹے کاروبار بھی کرتے تھے ۔ عمومی طورپر شدید سردیوں کے موسم میںبرفباری کے دورا ن خاندان کے زیادہ لوگ زیادہ تر ریشیاں میں ہی رہتے تھے اور بہت کم گبرہ میں۔ جبکہ بہار کے موسم میں اسکے برعکس زیادہ لوگ گبرہ میں رہنا پسند کرتے تھے ۔گبرہ میں جانوروں کوباآسانی پالاجاسکتا تھا اوروہاں پرفضل بھی اچھی ہوتی تھی ، بہ نسبت اس علاقہ ریشیاں کے۔ الغرض دا دا محترم مرحوم اور ان کے بھائیوںوغیرہ کے ملکیتی رقبہ جات گبرہ میں بھی تھے اور ریشیاں میں بھی“۔ والد صاحب گوکہ زیادہ عمر نہ تھی، تاہم اپنے والدصاحب کے ہمراہ آتے جاتے رہتے تھے ۔جب 1947 ءمیں انقلاب برپا ہوااور ہندوستان دوآزاد وخودمختیار ملکوں میں تقسیم ہوگیا ،گویا ایک بھونچال آگیا تھا۔ والد صاحب بتاتے ہیں کہ ”ہم نے اس زمانے میں جبکہ ریڈیو سیٹ پورے گاﺅں میں صرف ایک دولوگوں کے پاس ہی تھے سناکہ مسلم اکثریت کے علاقے پاکستان میں شامل کردئے گئے ہیں اورہندواکثریتی علاقے انڈیا کے ساتھ ۔ کشمیر کامعاملہ ،،گول ،، ہے کشمیر یوں کی آزادی کافیصلہ کشمیر ی خود کریں گے کہ وہ بھارت سے ملنا چاہتے ہیں یاکہ پاکستان کے ساتھ۔ ستمبر اور اکتوبر 1947 ءکے درمیانی عرصہ میں فسادات برپا ہوناشروع ہوگئے، افراتفری کے عالم میں دیہی علاقوں کے لوگ زیادہ تراپنے اپنے قبلیوں اور رشتہ داریوں کی بنیاد پرحفظ ماتقدم کے طور پر اکھٹے ہوگئے تھے ،تاکہ کوئی نقصان نہ پہنچادے ۔ انہی حالات میں ہم نے دیکھا ہے کہ کوئی دیو ہیکل قدومامت والے بندوق بردار ملیشیاءملبوس سپاہیوں کے لشکر کے لشکر آرہے ہیں، اور بڑھتے چلے جارہے ہیں، لوگ گھروں میں دبکے ہوئے سہمے سہمے جمع ہورہے تھے ،جوکوئی جہاں تھا ،وہیں کاہوکررہ گیاتھا۔ کچھ ہی عرصہ بعد جب پنجال کی چوٹیوں سے ”گھن گرج“ کی آواز یں آنا شروع ہوگئیں ............... اک قیامت کامنظرتھا۔لوگوں نے چونکہ اس سے پہلے ایسے مناظرنہیں دیکھے تھے، اس لئے بہت زیادہ گھبرائے گھبرائے رہنے لگے،کچھ کوگون نے پہاڑیوں کی اوٹ میںپناہ لی ۔ہم نے دیکھاکہ اس وقت جو سکھ یاتری اور پنڈت مظفرآباد ودیگرہمارے علاقوں میں رہتے تھے بھاگم بھاگ اندیاکی طرف جارہے تھے اور اُدھرسے لٹے پٹے لوگ ادھرآرہے تھے،جن کی حالت بہت قابل رحم تھی ۔ 48ءکی لڑائی کے ختم ہونے پرہماری جانے میںجان آئی مگر............ پھر دوبارہ ہم گبرہ نہ جاسکے ۔گبرہ اورریشیاں کے درمیان واقع لیپہ ویلی کے گاﺅں چھتکڑیاں میں سائیں مٹھابابا سرکارؒ کی خانقاہ ہے۔ جہاں انقلاب سے پہلے ریاست کے دونوں حصوں کے لوگ ہزاروںکی تعدادمیں سالانہ 12 روزہ عرس پربڑے اہتمام ،عقیدت واحترام سے آتے تھے ۔اس زیارت کوتریڈہ شریف کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔ اس عرس مبارک کے موقع پرغالباً1987ءتک ہم لوگ زیارت تریڈہ شریف میں ملاقات کرتے رہے اور پھریہ ملاقات بھی بند ہوگئی ، کیونکہ اسکے بعد حالات بگڑگئے۔ بھارت کے زیرانتظام کشمیرمیں آزادی کی تحریک زور پکڑ گئی اور لائن آف کنٹرول کومزید سخت سیکورٹی حصار میں دیدیاگیا۔87ءسے پہلے نہ صرف گبرہ کے لوگوں میں سینکڑوں کی تعداد میں تریڈہ شریف عرس پرآتے تھے ،بلکہ ٹنگڈھار سمیت وادی کے دور دراز علاقوں سے ہزاروں عقیدت مند زائرین کاایک سیلاب امڈ آتاتھا۔ بھارتی سرکار نے اپنے زیر انتظام کشمیرکے زائرین کے تریڈ شریف عرس میںآنے پرپابندی لگادی ۔اس کے بعد معلوم ہواکہ ریاست کے اُس حصہ کے لوگ تریڈ ہ شریف کے بالکل سامنے ہرسال عرس مناتے ہیں ۔تاہم دربار عالیہ پرحاضرنہیں ہوسکتے۔اس کے بعد ہماری ملاقات خطوط تک ہی محدودہوکررہ گئی۔درجنوں بھیجے گئے خطوط میں سے مقدرسے ایک دو ہی اةن تک اور ہم تک پہنچ پاتے تھے۔90ءکی دھائی میں حالات زیادہ کشیدہ ہوگئے اور پھر یہ خطوطکاسلسلہ بھی منقطع ہوگیا۔“

کارگل محاذ کے بعد جب پاکستان کے اقتدار پر جنرل پرویزمشرف قابض ہوئے توانہوں نے رفتہ رفتہ بھارت و پاکستان کے درمیان خلیج کم کرنے کی کامیاب کوششیں شروع کردیں بھارت سرکار کی طرف بڑھایاگیا مشرف کی دوستی کا ہاتھ کشمیریوں کے لئے قدرے آسانیاں پیداکرنے میں کامیاب ہوااور دونوں ممالک کی کشیدگی میں ناقابل اعتبار حد تک کمی واقع ہوئی اسی Peace Proses کے نتیجے میں پہلی بار بس سروس اور بعد ازاں تجارت شروع ہو گئی۔جب پہلی بار ٹیٹوال ،چہلیانہ کراسنگ پوائینٹ کوکھولا گیا،ایسالگا کہ دونوں اطراف کشمیریوں کو جیسے صدیوں بعد کوئی ایسی خوشی ملی ہو جس سے بڑھ کر ان کے لئے کوئی عید نہیں۔دریائے( کشن گنگا)نیلم کنارے ملاقات ....................!،اُس وقت کے وہ بے حدجذباتی مناظر تاریخ نہیں بھلاسکتی ،جب ایک بے سہارابہن نے ،جو بھارت سرکار کے رحم وکرم پر کشمیر کی بلند وبالا چوٹیوں پرواقع ایک پسماندہ گاﺅں میںاپنوں سے بہت دور انتہائی کسمپرسی کی زندگی کا عذاب جھیل رہی تھی ،دریا میں چھلانگ لگا دی ۔یقیناًوہ اپنے پیاروں سے لپٹ لپٹ کر روناچاہتی تھی۔لوگ نیلم کی تندوتیزموجوں کے شور میں اپنے پیاروں کو تلاش کررہے تھے،ایک دوسرے کو پہچاننے کی کوشش کررہے تھے اور بے تابی سے ڈھونڈ رہے تھے ۔دریاکے درمیان فاصلہ ذیادہ ہونے کی وجہ سے پہچان مشکل تھی۔ذیادہ تر خاندان سارادن روتے دھوتے رہے اور شام کو حسرت ویاس کی تصویر بنے نمناک آنکھوں سے واپس ہوئے ۔ان راستوں کے کھلنے اورکشمیری باشندوں کے آرپار Travel Proses کی شروعات سے کشمیریوں کو کم ازکم یہ امید ضرورپیداہوئی کہ اللہ رب العالمین کے فضل وکرم سے وہ ایک نہ ایک دن بچھڑے ہوﺅں سے مل کررہیں گے، لیکن ان میں سے بیشتر کی امیدیں اس وقت دم توڑگئیں جب انہیں ”ویزہ “کے پیچیدہ معاملات میں الجھادیاگیا۔سخت ترین شرائط سامنے آنا شروع ہوگئیں اور دودوالون تک تمام کوائف جمع کرانے کے باوجود ان کی” پار“ جانے کی باری نہ آئی ،اس طرھ پھرمایوسی بڑھی۔ہرکشمیری کی خواہش تھی کہ سب سے پہلے وہی اپنے پیاروں سے ملاقاتی ہو لیکن ایسا کس طرح ممکن تھا۔تاہم پھربھی ہزاروں لوگوں نے اپنی آنکھوں میں اس انہونی خوشی کے خواب سجا رکھے تھے ۔

یہی حال کچھ ہمارابھی تھا جب Peace Proses کاآغاز ہو تھا تو ہم نے بھی ”پار“ جانے کی ٹھان لی تھی۔میرے بڑے بھائی جو 87ءسے پہلے دوتین مرتبہ تریدہ شریف درگاہ پر ہمارے رشتہ داروں سے بالمشافہ ملاقات کر چکے تھے ،کوبھی پار جانے بہت زیادہ اشتیاق ہوا۔ہم نے اپنے مطلوبہ کوائف متعلقہ اتھارٹیز کو جمع کروادئے اور اس دن کا بے صبری سے انتظارکرنے لگے جب ہماری باری آئے گی۔کاغذات کی جانچ پڑتال کے مرحلہ میں تقریباًڈیڑھ سال کا عرصہ بیت گیا،جب Verification مکمل ہوچکی تو ہمیںاطلاع دی گئی کہ اگلی کراسنگ پرآپ ”پار“جاسکتے ہیں۔یہ خبرسن کرہماری خوشی کی انتہانہ رہی،آج وہ تاریخی لمحہ ھا جس کا ہم پچھلے 60سالوں سے بے چینی سے کرب کے ساتھ انظارکرررہے تھے،ہم نے فوراًحامی بھرلی اورتیاری شروع کردی13 ولائی کو جب ریاست کے دونوںاطراف کشمیری یوم شہدائے کشمیرمنارہے تھے ،ہم نے دن گیارہ بجے اپنے ویزہ کی کلئرنس ملنے پر پار جانے کی تیارہ شروع کر دی۔اس وقت ہمارے جذبات کا اندازہ نہیں لگایاجاسکتاتھا جب ہمیں پتہ چلاکہ کل کا سورج ہم گبہ میں غروب ہوتادیکھیں گے۔

جلدبازی میں ذیادہ لوگوں کو نہیں بتایاجسکاکہ ریاست کے اُس پار جارہے ہیں ۔بیشتر لوگوں کو ہمارے جانے کے بعد معلوم ہوااور وہ اس باعث ہم سے ناراض بھی ہوئے کہ مل کر جاتے تاکہ کوئی پیغام،سلام ،دعادیتے۔خداخداکر کے 14جولائی کی صبح ہوئی ۔نمازِفجرکے بعد سورج طلوع ہونیوالاتھا،مظفرآباد شہرکاموسم بڑاخوشگوار لگ رہاتھا،گویاہمیں اس مبارک سفرکی مبارکباددے رہاہو۔ٹھنڈی ہواکے تازہ جھونکے اور ہلکی ہلکی بونداباندی کے ساتھ ماحول کو اورزیادہ نکھاررہے تھے۔ہم نے جلدی جلدی ناشتہ کیا ۔اس دوران ہمارے گھر عزیزواقارب اور رشتہ داروں کا تانت بندھ گیاتھا،ہرکوئی ہمیں مبارکباد اوردعائیں دے رہاتھا،ہرکوئی اپنے اپنے چاہنے والوں کے لئے پیغامات اور دعاﺅں کے تحفوں کی امنتیں ہمارے سپردکررہا تھا۔جب یہ سلسلہ ختم ہواتو ہم گاڑی پر اس طرح بیٹھے جیسے کوئی بارا ت جارہی ہو۔گبرہ جانے والوں میں ہم تین لوگ شامل تھے،بڑے بھائی صاحب،ڈاکٹرمحمدرفیق چغتائی، ایک میں (راقم الحروف) اور میری بھتیجی ارم رفیق ۔والد صاحب نے اشکبا آنکھوں سے دعائیں دیتے ہوئے ہمیں رخصت کیا ۔(والدہ محرمہ 1996ءمیں وفات پاچکی ہیں)۔

تقریباً ساڑھے نوبجے صبح ہم چلہیانہ کراسنگ پوائنٹ پر پہنچ چکے تھے ،معلوم ہواکہ ابھی تک ایس ڈی ایم سمیت انتظامیہ کا کوئی اہلکاریاآفیسر نہیںتشریف نہیںلائے۔خیرہم نے سامان یاک طرف رکھ چھوڑااور نیلم کی تیزموجوں کے کنارے آگئے ۔جب نیچے پہنچے تو سامنے بیسیوں لوگوں کو پہلے سے موجودپایا۔دریاکنارے دونوں اطراف موجودلوگ ایک دوسرے کو ہاتھ ہلاہلا کرسلام دعاکررہے تھے اور اپنے ارمانوں کو اور زیادہ برھاوادے رہے تھے۔ہم نے ایک پتھرسے بندھی چھٹی کے ذریعے پارپیغام دیاکہ کچھ ہی دیر بعد ہم آپ کے ساتھ ہوں گے۔لگ بھگ 11بجے مجھے ٹرمینل میں بھیجاگیاکہ اپنے سامان کی چیکنگ اورباقی کا Prosess مکمل کراﺅں۔دن ایک بجے تک سارے مسافر اِدھراُدھربھٹکتے رہے کیوں کہ مسافروں کے بیٹھنے کا کوئی معقول انتظام نہیں تھا۔اورپھر کاغذات کی وصولی اور سامان کی تلاشی کا مرحلہ شروع ہواسامان کی تلاشی کرنے والے بے رحمانہ اندازسے چیرپھاڑکررہے تھے ۔ان کے رویہ سے کسی بھی طرح نہیں لگ رہاتھاکہ وہ کسی اپنے ہی ملک کے باشندے سے ڈیل کرہے ہیں ،ایسے محسوس ہواکہ وہ کسی جنگ میں ہاتھ آئے مال غنیمت کو ٹھکانے لگارہے ہوں۔ آخرکا یہ مرحلہ بھی تمام ہوا۔ ہمیںبڑی بے چینی سے اُس لمحے کا انتظارتھا جب ہم وہ خونی لکیرپارکرتے جو ہمارے مقدر پرجبراً کھینچ دی گئی تھی ۔دوبج چکے تھے، لیکن دونوں طرف سے مسافروں کی نقل وحمل کا کوئی اشارہ نہیں مل رہاتھا،سارے مسافربے چین ہورہے تھے کہ کب اس قید سے ہماری جان چھوٹے گی۔پتہ چلاکہ ابھی تک یہاں کسی مسافر کا انتظار ہورہاہے جو صاحب ابھی تک وارد نہیں ہوئے تھے۔ان سارے معملات کے دوران میں کبھی باہردریاکے اُس پار جھانکتاتوکبھی اِس پار کڑھتا ہوا ٹہلتا رہاکیونکہ ٹرمینل کے اندر داخل ہونے کے بعد باہر نکلنامنع کردیاگیاتھا۔دراصل اس ٹرمینل پر اتنے ناقص انتظامات تھے کہ کسی معاملے کا کوئی طورطریقہ سجھ میں نہیں آرہاتھا ،کسی کے آنے کا کوئی وقت نہ شیڈول۔نامعلوم پھر وہ مسافر آیانہ آیا البتہ اڑھائی سے تین بجے کے درمیان ہمیں بتایاگیاکہ مسافروں کاسامان پارپہنچادیاگیا ہے۔ اور دونوں طرف سے دستاویزات کا تبادلہ بھی ہوچکا ہے۔مسافروں نے ٹھنڈی آہ بھری اوراٹھ کھڑے ہوگئے۔پاکستانی وقت کے مطابق ٹھیک 2:54پرہم اُس پل کے سامنے کھڑے تھے جس کے عین درمیان پاکستانی اور بھارتی فوجی ایک دوسرے سے کسی بات پر ہاتھ پے ہاتھ مارکر قہقہہ لگارہے تھے۔سارے مسافروںسے پاکستانی آفیشل نے الوداعی مصافحہ کیا اور اُدھرپُل سے ایک سپاہی کھاردار تار ہٹاتے ہوئے ہماری طرف آیااور پھر ہمارے آگے آگے چلنے لگا۔بھائی صاحب نے قدم بڑھایا تو میں”چھوٹی“کاہاتھ تھامے ہوئے اُن کے پیچھے ہولیا، باقی مسافر بھی ساتھ ساتھ چل رہے تھے ۔2:57بجے ہم نے اُس پل پرپہلاقدم رکھاجو دونوں جانب کشمیریوں کے لنے کاواحدذرعہ مگر کمالظالم ہے کہ اس ملاقات کے لئے ہزار چکرلگواتاہے۔ہمارے ساتھ اُس سفر ے دوران غالباً17مسافرتھے جومظفرآباد اور دیگر علاقوں سے اپنے پیاروں کادیدار کرنے جارہے تھے ۔ایک لمحہ کے لئے مجھ پر اک سکتاساطاری ہوگیاتھا،مجھے یقین ہی نہیں آرہاتھاکہ میں آج”بارڈر“کراس کررہاہوں۔

وہ پُل تھاکہ کوئی جھولا،اس طرح ہِل رہاتھا جیسے کسی بچے کو پنگھوڑے میں ڈال کر جھولاجھلایاجارہاہو۔اگر کوئی مسافر تھوڑا ساتوازن برقرار نہ رکھ سکے تو نیلم کی ٹھنڈی موجوں کا ترنوالہ بن جائے۔پل کے آس پاس دریاکے دونوں طرف وجود لوگ ہماری طرف بڑی چاہت اور محبت سے دیکھ کر پرجوش اداز سے ہاتھ ہلارہے تھے۔پل کے درمیان کھڑے دونوں لکوں کے فوجیوں نے ہم سے رسمی طور پرہاتھ ملایا اورآخرکار اُس ................خونی لکیر..................سے آر،پارکردیاجوخودبھی پچھلے 64سالوں سے ہم کشمیریوں کی بدقسمتی پر ماتم کناں ہے۔
Safeer Ahmed Raza
About the Author: Safeer Ahmed Raza Read More Articles by Safeer Ahmed Raza: 44 Articles with 48095 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.