نواز شریف بہ حیثیت وزیراعظم - پس منظر و منظر

پاکستان کی قومی اسمبلی کے انتخابات میں پی پی پی کی شکست تو خاصی حدتک یقینی تھی ۔ عمران خاں اور نواز شریف میں سخت مقابلے کی توقع تھی بعض حلقوں میں تو عمران خان کی کامیابی کی خاصی توقع کی جارہی تھی لیکن عام طور پر معلق پارلیمان اور مخلوط حکومت کی توقع تھی عمران خان کے بارے میں عام رائے یہ تھی کہ وہ بادشاہ نہ سہی بادشاہ گر ضروررہیں گے لیکن عمران خان اور نواز شریف میں کامیابی کا فرق توقعات کے برعکس ہے ۔ نواز شریف کو تقریباً قطعی اکثریت مل جائے گی یہ بات شائد ہی کسی نے سونچی ہو اسی طرح عمران خان کو اتنی کم نشستوں کا حصول بھی حیرت انگیز ہے۔

نواز شریف کی غیر متوقع اور غیر معمولی کامیابی پر غور کرنے سے قبل یہ بات بھی حیرت انگیز ہے کہ ہندوستان میں نواز شریف کی کامیابی کا جس طرح خیر مقدم کیا گیا بلکہ جشن منایا گیا وہ ناقابل فہم ہے۔ بلکہ ایک معاملے میں تو خوش فہمی اور عجلت پسندی کے سبب ہم مذاق کا موضوع بن گئے۔ کسی پریس کانفرنس میں نواز شریف سے کسی اخبار والے نے یہ سوال کیا کہ کیا آپ اپنی حلف برداری کی رسم میں منموہن سنگھ کو بلائیں گے؟ تو انہوں نے اثباب میں جواب دیدیا ادھر دھوم مچ گئی (جو ناقابل فہم ہے) طرفہ تماشہ یہ کہ بی جے پی اور ’’ٹائمز ناو‘‘ جیسے چینل کے میزبان ارنب گوسوامی نے پیالی میں طوفان کھڑا کردیا۔ سرکاری طور پر دعوت نامہ ملنے سے قبل یہ سب ناقابل فہم ہے ممکن ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک سرکاری طور پر دعوت نامہ مل ہی جائے نواز شریف کے معاملے میں غیر ضروری اظہار مسرت اور عجلت پسندی غیر ضروری ہے اور تو اور انتخابات سے قبل اور بعد میں چند ایسے صحافی اور کالم نویس یا تجربہ نگار جو شائد اس جنت کی بھی مدح نہ کریں جو حدود پاکستان میں ہو مثلاً قمر آغا، پارتھا سارتھی، معروف رضا کے سی سنگھ اور کئی دوسرے یوں تو نواز شریف کی قصیدہ گوئی کررہے تھے اور کررہے ہیں جیسے نواز شریف نے ہندوستان کا ہر مطالبہ تسلیم کرنے کا حلف اٹھاکر الیکشن لڑا ہو۔ اکثر کا خیال یہ ہے کہ یہ مدح سرائی عارضی ہے۔ دوسرے طرف یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اصل طاقت کا مرکز اب بھی فوج اور آئی ایس آئی ہے جب نواز شریف سے توقع ہے کہ وہ ہند۔پاک تعلقات بہتر کرسکیں گے تو پھر جب فوج اور آئی ایس آئی پر تبرہ بازی سے نوازشریف کو بھلا کیا مدد ملے گی؟ نوازشریف اور فوج کے تعلقات کے بارے میں ابھی پیش قیاسیاں قبل از وقت ہیں۔ صدر مشرف سے بھلے ہی فوج کو دلچسپی نہ سہی لیکن اپنے سابق سربراہ کی حد سے زیادہ تحقیر یا مشرف کی عدم سلامتی کو خطرہ ہوتو عدلیہ یا نواز شریف کا افواج شائد ہی لحاظ کریں انتقام لینے سے عدلیہ اور نواز شریف کی انتظامیہ کو سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگر مشرف اور ان کی جماعت آزادی کے ساتھ انتخابات میں شریک ہوتی تو وہ نواز کے ووٹ بینک کو کاٹتی اور اس کا فائدہ عمران خان کو ہوتا۔ عمران خان کو ووٹ دینے والوں میں نئی نسل کے نوجوان زیادہ ہیں جو ’’تبدیلی‘‘ کے خواہاں ہیں۔ تبدیلی کے خواہاں مشریف اور نواز شریف کو ووٹ نہ دیتے۔

عمران خان جب زخمی ہوئے ہیں تو خیال یہ تھا کہ ہمدردی کے جذبے سے اور زیادہ لوگ عمران خان کو ووٹ دیں گے لیکن یہ اندازہ غلط ثابت ہوا ہمدردی تو عمران خان کو بہت ملی لیکن ووٹ نہیں ملے۔
نواز شریف کی کامیابی کی دو اہم وجوہات یہ ہیں کہ تنظیمی اعتبار سے نہ صرف شہری علاقوں میں بلکہ دیہاتی علاقوں میں مسلم لیگ (ن) خاصی مضبوط ہے۔ اس کے پاس وسائل خاص طور پر دولت کی افراط ہے ۔ عمران خان کی پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ خاصہ کمزور ہے وسائل خاص طور پر پیسہ کم ہے کرپشن سے مکمل آلودہ معاشرہ میں کسی جماعت کا کارکن کا سوچنا ہے کہ ’’بڑے لوگوں پر توہن برس رہا ہے تو میں کیوں مفت میں کام کروں؟ دوسرا بڑا سبب یہ ہوا کہ پنجاب میں رائے دہندوں نے پیپلز پارٹی کوتوقعات سے بہت کم ووٹ دئیے ۔ مسلم لیگ نواز کو ملنے والے ووٹس میں قابل لحاظ تعداد ان ووٹوں کی ہے جو پیپلز پارٹی کی جھولی میں جانے والے تھے! یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ شروع ہی سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز ک ایک دوسرے کا نعم البدل سمجھا ’’بی بی‘‘ (بے نظیر بھٹو) سے ناراض ہوئے تو ’’میاں‘‘ (نواز شریف )کا دامن تھام لیا اسی طرح اس کے برعکس بھی ہوا۔ میاں جی کو مسترد کیا ’’بی بی‘‘ کو اپنالیا۔ یہی عمل جاری رہا۔ تیسرے متبادل کو پنجاب اور سندھ میں اہمیت نہیں دی گئی۔ پنجاب اور سندھ میں ’’وڈیرا شاہی‘‘ کا زورچلتا ہے جو وڈیروں سے ہی تعاون کرتے ہیں۔ عمران خان کو وڈیروں کی حمایت بہت کم ملی ۔کراچی اور سندھ کے چند شہروں میں ایم کیو ایم کی غنڈہ گردی کے آگے کسی کی چلتی نہیں ہے تو عمران خان کو ووٹس کہاں سے ملتے؟ اس طرح مجموعی طور پر عمران خان کا نقصان نواز شریف کے لئے نفع ثابت ہوا۔

نواز شریف امریکہ کے اتنے ہی وفادار اور تابعدار ہیں جتنی کہ پیپلز پارٹی ہے امریکہ کبھی ڈوبتی کشتی میں سواری نہیں کرتا ہے۔ اس لئے زرداری کی پیپلز پارٹی سے امریکہ کی توجہ نواز شریف پر تھی کیونکہ عمران خان امریکہ کے تابعدار نہ رہتے۔ اس لئے اتنے منفی عناصر کے آگے عمران خان کی تبدیلی کی خواہش دھری کی دھری رہ گئی اور ہماری طرح بیشتر لکھنے والوں کے اندازے غلط ثابت ہوئے۔

نواش شریف ہر دور میں ہندوستان کے عوام و خواص کو گمراہ کرتے رہے ہیں کہ کارگل میں پاکستان کی جارحیت سے ان کا کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔ اور صدر مشرف نے ان کو بے خبری میں رکھ کر فوجی کارروائی کی تھی۔ مانا کہ پاکستانی افواج کا انتظامیہ پر خاص اثر ہے لیکن اتنی بڑی فوجی کارروائی سے کسی ملک کے وزیر اعظم بے خبر رہے تو وہ اس کے لائق نہیں ہے۔ ہندوستان کے بڑے بڑے گھٹالوں(2جی ، کولگیٹ اور دیگر گھٹالوں کے لئے وزیر اعظم منموہن سنگھ کو ذمہ دار ٹھیرانے ان سے مستعفی ہونے کے مطالبہ کا پھر کوئی جواز نہیں رہتا ہے اس لئے اس بات میں کوئی وزن نہیں ہے کہ ’’کارگل‘‘ کی ذمہ داری صرف مشرف پر ہے اور میاں نواز شریف کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میاں نواز شریف صدر مشرف سے ہندوستان کے عوام کو بدظن کرنے کے لئے اور اپنی امن پسندی کی تشہیر کے لئے یہ کھیل کھیل رہے ہیں۔

ہندوستان کی طرف نواز شریف کے التفات کی دو اور وجوہات بھی ہیں ایک تو یہ کہ میاں صاحب کے شکر کے کارخانوں کی شکر ہندوستان میں بک سکے اور اگر فوج سے نواز شریف کا ٹکراؤ ہوتا ہے تو ہندوستان کی ہمدردی نواز شریف کے ہاتھ رہے۔ نواز شریف کی ہندوستان میں خاصی مضبوط لالی ہے۔ اسی لئے انتخابات سے قبل میڈیا میں نواز شریف کا خاصہ چرچا رہا تھا اور ان کی کامیابی پر ہندوستان کا جشن سب دیکھ چکے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہندوستان کا میڈیا واقعی نوازشریف کا مداح ہے نواز شریف کا حامی اور مدد گار امریکی اور مغربی میڈیا ہے۔ جس پر صیہونی اور اسرائیلی کنٹرول ہے۔ خود پاکستانی میڈیا پر صیہونیوں اور اسرائیلیوں کا خاصہ اثر ہے۔ نواز شریف نے اپنے وزارت عظمیٰ کے دوسرے دور میں انہوں نے تقریباً تمام اسلامی ملکوں کے طریقے برعکس جمعہ کی چھٹی ہی ختم کرکے اپنے اس غیر اسلامی عمل سے اپنے آقاؤں کو خوش کیا تھا۔ نواز شریف کے سر پرست شہید جنرل ضیاء الحق تھے۔ وزیر اعظم بن کر انہوں نے اپنے محسن کو ہی نہیں بلکہ نفاذ اسلام کے ضیاء الحق کے پروگرام کو نہ صرف خاصی حدتک معطل بلکہ منسوخ کردیا۔ بھٹو کے جانشین ’’بھٹوازم‘‘ کو فروغ دیا نواز شریف صدر ضیاء الحق شہید کے خلاف مذموم پروپگنڈہ کرنے والوں کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔

نواز شریف الیکشن سے قبل یا بعد میں اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی کو اقتدار میں رہنے دینے میں ان کی کیا مصلحت تھی؟ ورنہ پیپلز پارٹی کے نااہل کرپشن سے آلودہ اور قومی دولت کو لوٹنے والے ٹولے کی حکومت کب کی ختم ہوچکی ہوتی! لیکن میاں صاحب نے یہ سب کچھ کیوں گوارہ کیا یہ وہی جانتے ہیں۔ سعودی عرب سے میاں صاحب کے تعلقات بھی صدر ضیاء الحق کے مرہون منت ہیں لیکن سعودی عرب کی اسلامی طرز حکومت کا کوئی اثر انہوں نے شائد ہی قبول کیا ہے۔

تبدیلی کی بات کرکے عمران خاں تو جیت نہ سکے اور اب کامیابی کے بعد نواز شریف تبدیلی کی باتیں کررہے ہیں ان کو اصل تبدیلی کی تو یہ بات کرنا ہے کہ وہ اور ان کا انتظامیہ کرپشن کو ختم کرے گا اس کے لئے ضروری ہے کہ خود نواز شریف دیانت داری سے کام لیں اور پاکستان کی جمہوری حکومتوں نے جس طرح ملک کو لوٹا ہے وہ لوٹ ہر سطح پر ختم کرنا ہوگا۔ پاکستان میں آمروں جنرلوں کے دورِ حکومت میں معیشت مضبوط ہوئی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخیروں سے خزانہ بھرا رہتا ہے۔ شرح ترقی، پیداوار بڑھتی ہے اور جب جمہوری دورِ حکومت میں ملک معاشی حالت تباہ ہوجاتی ہے ۔ شرح ترقی شرح نمو رک جاتی ہے۔ زر مبادلہ سے سرکاری خزانہ خالی رہتا ہے او ر ملک پر قرض کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف ایسی تبدیلی لاسکیں گے کہ ملک میں معاشی بد انتظامی وزیر اعظم اور وزرأ کی لوٹ، کھسوٹ کرپشن کے دور کا اعادہ نہ ہوگا۔ نواز شریف کے کرکٹ کے شوق پر لاکھوں کا خرچ نہ ہوگا۔ وزیر اعظم کے طیاروں میں نلوں کی ٹونٹیوں وغیرہ سونے کا پانی نہیں پھیرا جائے گا جس قومی مفاہمتی حکم کے تحت ان کو معافی ملی تھی وہ اب دوسروں کو معاف کریں گے۔ انتقام کی آگ میں مشرف سے بدسلوکی کرکے تنگ نظری سے گریز کریں اور جو باتیں کہتے رہے ہیں اور کہہ رہے ان پر عمل کرنے کی صدق دل سے کوشش کریں گے۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 184993 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.