تحریک انصاف کے متعلق کچھ لکھتے
ہوئے ڈر لگتا ہے کیونکہ تحریک انصاف کے رہنماﺅں میں جس طرح برداشت کا مادہ
نہیں ہے اسی طرح عمرانی سیاست کی ڈکشنری میں بھی برادشت کا لفظ موجود نہیں
ہے ۔ تحریک انصاف سترہ سال قبل جس نظرئےے کی بنیاد پر اٹھی ، وہ اس قدر
مشکل کام تھا کہ انھیں فرشتے نہیں مل رہے تھے لیکن بعدازاں انھوں نے بھی
اپنی صفوں میں ایسے لوگوں کو شامل کرلیا جن کے نظریات دوسری سیاسی جماعتوں
میں کا وطیرہ رہا ہے ۔ یہ بات بھی کسی سے دھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ تحریک
انصاف کو سابقہ سربراہ حساس ایجنسی کی سرپرستی حاصل ہونے کے بعد ایک دم
میڈیا میں تبدیلی کا نشان بنانے کی کوشش کی گئی ۔لیکن درمیان میں جب طاہر
القادری وارد ہوئے تو جمہوری نظام کو رڈیل کرنے کی تمام کوششوں کو ناکامی
کا سامنا کرنا پڑا ، گو کہ موجودہ ھالات میں اگر دیکھا جائے تو طاہری
القادری کی بعض باتوں پر سخت تنقید کی گئی تھی جس میں ، میں سر فہرست تھا ،
لیکن ان کی اچانک آنا اور ان کا انداز بیان اور منصوبے اس قدر ہولناک تھے
کہ ان کی درست باتوں پر بھی عوام کویقین نہیں تھا ۔پھر تحریک انصاف نے جس
طرح سوشل میڈیا میں جس قدر بھیانک اور غلیظ سیاسی تشہیر شروع کی اس کا جواب
دینے پر بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔سوشل میڈیا میں جس قدر گھٹیا انداز تحریک
انصاف نے شروع کیا اس نے ثابت کردیا کہ تحریک انصاف میں برداشت کا عنصر بہت
کم ہے ۔بعد ازاں عمرا نی سیاست کی جانب سے مسلسل قلابازیوں نے عوام میں ان
کی مقبولیت کو نہایت کم کردیا ، لیکن ان کے جلسوں میں نیم عریاں لباس اور
برگر لوگوں کی آمد نے بن کباب کے منچلے نوجوانوں میں ٹھرکی انقلاب پیدا
کردیا ۔ عمرانی سیاست کے تمام جلسے اس بات کے گواہ ہیں کہ ان کے جلسوں میں
عریانیت ، فحش لباس کے ساتھ ، فیشن ایبل برگر فیملوں کی شرکت کی وجہ سے
جلسے ڈانس پارٹی کا گمان لگتے تھے ۔گالیاں ، فحش جملے اور مغرب زدہ سونامی
خان کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ ان کا ماضی ان ہی حرکات کی وجہ سے
بھرا پڑا پے ، سوشل میڈیا پر جب عمران خان کے کرتوت باتصویر موجود ہوں تو
پھر ان کے پیروکاروں کا ان جیسا ہونا ، حیران کن نہیں ہے۔ فیس بک ، ٹوئٹر
اور دیگر ساہیٹس پر دیکھ لیا جائے کہ اپنے مخالفیں کو جس طرح تحریک انصاف
مخاطب کرتی ہے اس نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔بات صرف یہاں تک آکر
ختم نہیں ہوتی بلکہ میں اپنے بیشتر کالم میں سیاسی رہنماﺅں کی جانب سے عام
پبلک جلسوں میں اخلاق کے دائرے میں مخاطب ہونے کی اپیل کرتا رہا ہوں لیکن
ان رہنماﺅں کے کانوں پع جوں بھی نہیں رینگتی ، تحریک انصاف کے جتنے جلسے
بھی دیکھ لیں اس میں کارکنان کو تشدد کی تعلیم ، تلقین اور اشتعال انگیزی
کا درس دیا ہی نہیں بلکہ ایک ایسی اشتعال کی فضا پیدا کی جس کی گونج اب
تمام ملک میں پھیل چکی ہے ۔ مغرب زدہ عریانیت کے دلداہ عمرانی سیاست کا
محور تما م جلسوں میں صرف تشدد اور اخلاق سے گرے ہوئے ایسے خطابات تھے کہ
کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ عمران خان کو اخلاقیات چھو کر بھی گذری ہو۔تحریک
انصاف کی پارٹی انتخابات کے موقع پر بھی کارکنان اور عہدران کے جانب سے جس
عمل کا مظاہرہ کیا گیا یسے مستقبل کے لئے قطعی حوصلہ افزا قرار نہیں دیا
جاسکتا ۔ کرپشن کے خلاف بڑے بڑے دعوے کرنے والوں کی جانب سے خود پارٹی
انتخابات میں جس طرح کرپشن کا استعمال ہوا وہ ظاہر کر رہی ہے کہ تحریک
انصاف ، اے این پی کے ایزی لوڈ کا ریکارڈ توڑ کر رہے گی۔کراچی بذات خود ایک
حساس شہر ہے ، سوچھے سمجھے پلان کے تحت ایسے دوبارہ مقتل گاہ بنانے کے لئے
اس بار اے این پی کی جگہ تحریک انصاف کو آگے لایا جارہا ہے ۔کیونکہ تحریک
انصاف میں برداشت کی سیاست نہیں ہے اس لئے ان کے دھرنوں تقاریر اور خود
عمران خان کی جانب سے غیر ذےدار روئےے نے کراچی سمیت پورے پاکستان کی عوام
کو اضطراب میں مبتلا کردیا ہے ، اللہ اللہ کرکے کراچی کی عوام کی جان اے
این پی سے چھٹی تھی اور عوام نے سکون کا سانس لینا شروع کیا تھا لیکن ایک
بار پھر عدم برداشت کی تحریک انصاف کے ذمے داروں نے جلد بازی کا مظاہرہ
کرکے کراچی میں شدید خوف و ہراس پیدا کردیا ہے۔زہرہ شاہد حسین کے قتل پر
ردعمل کی عجلت ، ایک سوچءسمجھے سازش ہے ،۔ عریاں ، فحش کلچر کے دلداے کے
پیروکاروں کی جماعت نے طبقاتی تفریق میں امتیاز پیدا کرکے کراچی ہی نہیں
بلکہ پورے پاکستان میں نفرت کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی ہے جس قابل مذمت ہے
، عمران خان کو بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سابقہ ماضی پلے بوائے کو
بھول جاناچاہیے تھا ، لفٹ سے گر کر ہسپتال میں پڑے رہ کر بھی قدرت کی جانب
سے مکافات عمل کا احساس نہیں ہورہا کہ جلسوں میں جھوٹی قسمیں ، غیبت ، تشدد
کی جانب عوام کو مائل کرنے کا الٹی میٹم قدرت نے دیا ہے ۔ انھیں اپنے پلے
بوائے عمرانی سیاست کو ختن کرنا چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ کسی انسان کا
قتل پوری انسانیت کاقتل اور کسی انسان کی جان بچانا گویا پوری انسانیت کی
جان بچانے کے برابر ہے۔یہ حکم خداواندی یکساںطور پر تمام بنی نوع انسان
کےلئے بلا تفریق رنگ و نسل، زبان و قوم اور کسی مذہبی امتیاز کے بغیر دیا
گیا۔چونکہ قرآن کریم میں یہ آیت نازل ہوئی لہذا کچھناعاقبت اندیش عناصر
کیجانب سے یہ سمجھ لیا گیا کہ اس حکم کا اطلاق صرف مسلمانوں پر ہوگا ۔ مسلم
امہ میں موجود کسی فرقے کو مسلم، مومن اور کسی کو لادین از خود سمجھ کر تما
م فتووں پر من و عن یقین کرلینا کسی ذی حس کے لئے ممکن نہیں۔ احساس محرومی
کی بنیا د کسی بھی مفروضے پر ہو کسی کو حق حاصل نہیں کہ مخصوص اوقات میں،
مخصوص مفادات کے تحت ،مخصوص فقہ یا سیاسی جماعتوں کے پیروکاروں کےخلاف ،
جان لینے کےلئے فاشزام کے داعی بن جائیں۔ دین اسلام میں کوئی جبر نہیں،فقہی،
سیاسی اختلاف کی بنیاد کو علمی ، سیاسی اختلاف تو قرار دیا جاسکتا ہے لیکن
اسے بنیاد کر کسی انسان کا خون ناحق کرنے والوں کا تعلق کم ازکم دین اسلام
سے نہیں ہوسکتا۔قتل ناحق ، فقہ کی بنیاد پر ہو ، نسل کی نبیاد پر ، زبان کی
بنیادپر ، قوم کی بنیادپر یا مذہب کی بنیاد پر دین اسلام کسی کو بھی قطعی
اجازت نہیں دیتا کہ کوئی شر پسند اپنے مفادات کی آبیاری کسی بے گناہ کے خون
و بر بریت سے کرے۔سفاکیت کی کوئی بھی شکل ہو ، درندیت کی کوئی بھی شکل
ہو،ابلیسیت کی کوئی بھی شکل ہو ، دنیا کا سپریم قانون قرآن کریم ایسے عوامل
کی شدید الفاظوں میں مذمت اور دین اسلام سے لاتعلقی کا علان روز اول سے
کرچکا ہے ۔ بے قصور انسانوں کا قتل،مثل حیوانیت کا مسخ شدہ نمونہ ہے جس کی
مثال پاکستان کی تاریخ میں مسلسل دوہرائی جا رہی ہے۔ فقہی و سیاسی بنیادوں
پر ہلاک کئے جانے کے واقعات کا سدباب نہ ہونے کے باعث اتحاد بین المسلمین
اور قومی وحدت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ زبان کے نام پر دیگر
قومیتوں کو قتل کئے جانے کے رجحان نے مسئلے کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔ لیکن
اس امر پر ثابت قدم ہوں کہ کسی انسان کو کسی بھی بنیاد پر جان سے محروم
کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں،چاہیے نظرئےے کی بنیاد احسا س محرومی پر ہی
مبنی کیوں نہ ہو۔ عوام کے مذہبی ، سیاسی جذبات کو بھڑکا کر خودساختہ اشتعال
انگیزی کا کاشاخانہ ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ شدت پسندی ، انتہا پسندی ، کے لئے
کوئی بھی و جہ جواز ہو، اسلام نے کسی کو یہ حق تقویض نہیں کیا کہ بے قصور
انسانوں کے پرخچے اڑا دو، خواتین ، مرد ، بچے ار بوڑھوں بے گناہ انسانوں کے
اعضا ءکو آتش گیر دہماکوں کی زد میں لاکر اسلام کے سلامتی و امن کے پیغام
کو اس قدر مسخ کردو کہ پوری دنیا میں پاکستان کا تشخص ماسوائے دہشت گردوں
کے سرپرست کے علاوہ نہ ابھرے۔قرآن و حدیث ، پانچوں فقہی مذاہب یا دین اسلام
میں اس بات کے لئے رائی برابر گنجائش موجود نہیں ہے کہ بے گناہ انسانوں کو
ہلاک کرنے کےلئے احساس محرومی کو بنیاد بنا لیا جائے ۔یا آتش گیر مادوں کے
استعمال سے راہ گیروں اور معصوم جانوں کو ہلاک کرنے کے لئے استعمال کیا
جائے۔اس قسم کی سوچ رکھنا فاشٹ نظریات کا حامل تو ہوسکتا ہے لیکن اسلام کے
کسی اخلاقی اصول اسے کبھی چھو کر بھی نہ گذری ہوگی۔ لسانیت کے نام پر ،
بھتہ خوری کے نام پر ، سیاسی وابستگی کے نام پر ،طاقت کے استعمال پر ،
مفادات کے نام پر ، قومیت کے نام پر ، تاوان کے نام پر،برادری کے نام ،
کاروکاری کے نام ،جاگیردارنہ ،وڈیرانہ سوچ کے نام پر انسانوں کا بھیانک
قتال کا تعلق اسلام سے تو کیا انسانیت سے بھی نہیں ہے۔کیا ڈرون حملوں میں
جلس جا کر راکھ بن جانے والے انسان نہیں ، کیا یہ اسی خدا کی مخلوق نہیں جس
نے بلوچستان ، سندھ ، پنجاب ،خیبر پختونخوا ، کشمیراور گلگت ، بلتسانی کی
عوام کو پیدا کیا ہے۔فوجی ہوں ، یا پاکستانی عوام ،کسی بھی بیرونی جارحیت
کا شکار ہوں ان کے لئے یکساں موقف نیز ملک کے طول و عرض میں انسانوں کا ،
لسانیت، فقہ،قومیت ،سیاسی وابستگی،بھتہ خوری یا تاوان کے غرض سے قتل عام اس
وقت تک نہیں رکے گا ۔جب تک پاکستانی قوم متحد نہیں ہوسکتی ، بیرونی جارحیت
کا مقابلہ نہیں کرسکتی ، اگر اندرونی و بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرنا ہے
توپارلیمنٹ ،عدلیہ ، قومی ومذہبی قیادت ، عسکری اداروں کو پاکستان میں ہونے
والے ہر سانحے پرقومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔انسانیت کا حترام کرنا
ہوگا ۔تمام مذاہب کے پیروکاروں اور سیاسی جماعتوں کے کارکنان کونظریہ کی
بنیاد پر فکری طور پر تو مجادلہ کیا جاسکتا ہے لیکن کسی انسان کی جان لینے
کا سبب احسا س محرومی کے نام پر رکھ کر قیمتی جانوں کو اپنے پیاروں سے
محروم کرنا انسانیت نہیں حیوانیت ہے۔تحریک انصاف پر تشدد سیاست کو ختم کریں
، اور سب سے پہلے خیبر پختونخو کی حکومت سے آڈر دلوائیں کہ ڈرون حملے بند
ہونے تک تمام سرحدیں سیل ہونگی - |