نئے سیاسی منظر نامہ اور سول ملٹری تعلقات

انتخابات کے بعد پاکستان اس وقت حکومت سازی کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) مرکز ، پنجاب اور بلوچستان میں حکومت بنانے جارہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخواہ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی صوبہ سندھ میں اقتدار پر براجمان ہوگی۔ اس طرح انتخابات 2013ءمیں پاکستان میں ایک نئے سیاسی دورکا آغاز ہونے جارہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی صورت میںایک نئی سیاسی جماعت ابھری ہے جو فی الحال اپوزیشن میں بیٹھنے کا ارادہ کرچکی ہے۔ اس کا طرز عمل اور رویہ پاکستان کی روایتی سیاست سے کتنا جدا ہوتا ہے وہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم عوام کو اس سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں ۔پاکستان کے عوام اب کتنے باشعوراور انصاف پسند ہیں اس کا اندازہ پاکستان پیپلز پارٹی کے انجام سے ہوجانا چاہئے۔ گزشتہ پندرہ سال کے درمیان ملک میں جو سیاسی اتار چڑھاﺅ آئے اور جو انتخابات ہوئے ان میں عوام نے اپنے ووٹ کا درست استعمال کرنے کی کوشش کی مگر افسوس جس پر بھی انہوں نے اپنے اعتماد کا ٹھپہ لگایا انہیں مایوس ہی ہونا پڑا۔ جنرل مشرف کے پہلے دور میں ق لیگ کے امیدواروں کو کامیابی ملی جب وہ ڈلیور کرنے میں ناکام رہے تو دوسرے دور میںایم ایم اے ابھر آئی۔ ایم ایم اے کو امریکہ اور مشرف مخالف ووٹ ملے تھے لیکن اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتے ہی انہوں نے مشرف کے ساتھ سمجھوتا کرکے عوامی امیدوں پر پانی پھیر دیا ۔ ایم ایم اے کے اتنے بڑے دھوکے کے بعد امید کی جارہی تھی کہ جلاوطن کئے جانے والے نواز شریف آئندہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرلیں گے مگر محترمہ بے نظیر کے قتل کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کو عوامی ہمدردی کا ووٹ مل گیا اورحکمرانی کا تاج زرداری کے سر پر سج گیا۔ زرداری اینڈ کمپنی کی پالیسیاں پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور اور روایات کے بالکل برعکس تھیں۔ لوٹ کھسوٹ کا وہ بازار گرم ہوا کہ اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ اقرباپروری، لاقانونیت، ذاتی مفادات اور سب سے بڑھ کر عوامی معاملات میں عدم دلچسپی نے ملک کو تباہی کے دہانے پرلاکھڑا کیا۔ پارٹی میں نان پارٹی لوگوں کی شمولیت کے بعد اس کے ڈائی ہارٹ رہنماﺅں اور کارکنوں میں مایوسی کے جذبات ابھر آئے اور انہوں نے مجبوراََ دوسری پارٹیوں کا رخ اختیار کرلیا۔ اس طرح پاکستان پیپلز پارٹی اپنی مقبولیت اتنی کھو بیٹھی کہ وہ اس انتخابات میں پہلی سے تیسری پوزیشن پر آرہی۔

اس پس منظرمیں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے عوام نے تو اپنے حالات میں تبدیلی کے لئے اپنے ووٹ کو استعمال کیا مگرااقتدار پر براجمان ہونے والی پارٹیوں نے ملک کو ”مال غنیمت “ خیال کیا اورملکی وسائل کی لوٹ مار کیلئے ہر قسم کا ہتھکنڈہ استعمال کیا۔آج کل سطحی سوچ رکھنے والا شہری بھی اس لوٹ کھسوٹ اور حکمرانوں کی سرمہری اور ذاتی مفادات کی جنگ اور مفادات کو خوب جانتا ہے۔ میڈیا نے اس کی ذہنی بالیدگی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب وہ پہلے کی طرح بھولا بھالا اور جذبات کی رو میں بہہ جانے والا نہیں بلکہ معاملات کا حقیقت پسندی جائزہ لیتا ہے۔اس کی اسی سوچ نے نئی امیدواروں کو منتخب کیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی شمولیت سے ایک اورطبقہ جو پہلے انتخابی عمل کو محض غیر سنجیدہ خیال کرتا تھا، کی دلچسپی اور شمولیت نے پاکستانی سیاست کو ایک نیا رخ عطا کیا ہے۔ یقینا اس سے بھی سیاسی افق پر مثبت تبدیلیاں رونما ہوں گی۔

اب بات کرتے ہیں نواز شریف حکومت کو درپیش چیلنجز کی تو سب جانتے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) اس وقت حکومت سنبھال رہی ہے جب پاکستان اندرونی و بیرونی طور پر عدم استحکام کی صورتحال سے دوچار ہے۔ ایک طرف توانائی، معاشی بدحالی، بے روزگاری اور بری گورننس کے مسائل ہیں تو دوسری طرف دہشت گردی، ہمسایہ ممالک سے کشیدہ تعلقات، ڈرون حملے اور پاکستان کی سالمیت کو لاحق دوسرے خطرات ہیں۔ ان مسائل کے پیش نظر یہ واضح ہے مسلم لیگ (ن) کے لئے اقتدار کوئی پھولوں کا بستر ثابت نہیں ہوگا بلکہ ان کو حلف اٹھاتے ہی ٹھوس، سنجیدہ اور جرات مندانہ فیصلے کرنے اور ان پر عملدآمد یقینی بنانا پڑے گا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی طرف سے بالغ النظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتخابات سے کافی عرصہ قبل ہی ملک کو درپیش مسائل کا ادارک کرکے ان کے حل کے سلسلے میں غوروفکر شروع کردیا گیا تھا۔ خاص طور پر توانائی کے بحران پر قابو پانے کے سلسلے میں انہوں نے اپنے منصوبوں کو حتمی شکل بھی دے دی تھی اور اب اطلاعات یہ ہیں کہ نوازشریف وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے سے متعلق اپنی پالیسی کو عوام کے سامنے لائیں گے۔ اسی طرح دیگر معاملات پر بھی ان کی گہری نظریں ہیں۔

جہاں تک خارجہ اور دفاعی پالیسی کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے بھی مسلم لیگ (ن) کی قیادت اپنی سوچ کو واضح کرچکی ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی، پاک امریکہ تعلقات میں اعتدال اور سب سے بڑھ کر ڈرون حملوں کے آگے پل باندھنا واقعی کٹھن اور اعصاب شکن ہوگا۔2014ءمیں افغانستان سے امریکی افواج کا انخلائ، افغانستان کے ساتھ سرحدی تنازعات اور کرزئی کی بھارت نوازی اور بھارت سے اسلحہ خریدنے کے معاہدے، بھارت کا طرز عمل، دہشت گردی اور شدت پسندی کاعفریت ایسے معاملات ہیں جو سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے اہم ہیں ۔ یہاں حکومت کو افواج پاکستان کی باہمی مشاورت سے آگے بڑھنا ہوگا۔ یہاں احتیاط کا پہلو اس لئے ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے کہ 9/11کے بعد جو معاملات چلے آرہے ہیں ان میں یکایک تبدیلی لانے کی بجائے ملکی مفادات کے زیر اثر بتدریج تبدیلی لائی جائے۔ جہاں تک شدت پسندوں کا تعلق ہے تو ان سے مذاکرات ضرور کئے جائیں مگر اس سے قبل ان سے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کے لئے کہا جائے اور تمام معاملات اور امورفوج کی مشاورت آگے بڑھائے جائیں۔

نئے سیاسی ماحول میں پاک فوج کی جانب سے بھی مثبت اشارے مل رہے ہیں۔چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی جمہوریت اور جمہوری عمل کے تسلسل کو پنپنا دیکھنا چاہتے ہیں۔ انتخابات سے قبل، انتخابی عمل کے دوران اور بعد میں فوج کے سپہ سالار کی جانب سے جو طرزعمل اختیار کیا گیا اس سے پاکستان اور جمہوریت مخالف قوتوں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے ۔ سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی نوازشریف سے ملاقات کوملکی اورعالمی حلقوں میں انتہائی اہم قراردیا جارہا ہے۔ اس ملاقات میں سکیورٹی کی صورتحال خاص طور پر دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے پاک امریکا تعلقات، بھارت، افغانستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ درپیش صورتحال ، طالبان سے امن کیلئے مذاکرات پر فوجی قیادت کے موقف اور اس حوالے سے جاری پالیسیوں پر تبادلہ خیال اورملک کو درپیش مسائل سے نجات دلانے کے حوالے سے مستقبل کی حکمت عملی کیلئے مشاورت کی گئی اور باہمی تعاون کی فضا برقرار رکھنے کا عزم کیا گیا۔

انتخابات کے بعد نئی سیاسی قیادت کا دوسری سیاسی جماعتوں سے ملکی معاملات پر تعاون کا عزم اورخاص طور قومی اداروں کے درمیان ہم آہنگی کی اس فضا نے عالمی سطح پر بھی پاکستان کے بارے میں مثبت تاثر قائم کیا ہے جس سے یقیناہمارا کھویا ہوا وقار بحال ہوگااور امریکہ سمیت دیگر ممالک پر پاکستان کی سا لمیت کا احترام کرنے کے حوالے سے دباﺅ ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک میں پاکستان کے خلاف جو بداعتمادی اور منفی جذبات ابھرے تھے اور انہوں نے پاکستان سے تعاون کا جوہاتھ کھینچ لیا تھا امید ہے کہ نئی قیادت ان تعلقات کی بحالی میں کامیاب ہوجائے گی اور پاکستان پھر سے عالمی، علاقائی اور اسلامی دنیا میں ایک سنجیدہ کردار ادا کرنے کے قابل ہوسکے گا۔(ختم شد)

Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 63128 views Columnist/Journalist.. View More