انتخابی عمل میں خواتین امیدواروں کےساتھ امتیازی سلوک

 اللہ اللہ کرکے پاکستان میں انتخابی عمل بغیر کسی بڑے امتحان کے مکمل ہوا ۔ یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ الیکشن کے انعقاد کی بات جس تدبیر سے شروع ہوئی ‘اسی کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچی اور تخریب کاروں کے مذموم ارادے بڑی حد تک خس وخاشاک میں مل گئے۔

الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے انتخابی عمل کو لمحہ بہ لمحہ عوام تک پہنچاکر انہیں صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے پر مجبور کردیا جس کے لئے میڈیا کو خراج تحسین پیش کیاجانا چاہئے جن کی شبانہ روز کوششوں اور کاوشوں کے ذریعے ملک کے لئے دیکھا جانے والا تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔

کہا جارہا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ 516 خواتین نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں جنرل سیٹوں پر حصہ لے کر ایک نئی تاریخ رقم کی۔قومی اسمبلی کی نشستوں کے لئے161 خواتین میدان میں آئیں جب کہ 66 خواتین نے مختلف پارٹیوں کی جانب سے اور 95 خواتین نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے ا نتخابات میں حصہ لیا۔ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں حصہ لینے والی خواتین امیدواروں کی تعداد تھی 355‘ جس میں پیپلزپارٹی ‘مسلم لیگ (ن) ‘ متحدہ قومی موومنٹ ‘تحریک انصاف ‘مسلم لیگ عوامی ‘ مسلم لیگ (ق) اور عوامی نیشنل پارٹی کی خواتین امیدوار شامل ہیں۔

11 مئی کو ہونے والے عام انتخابات کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق تادم تحریر مجموعی طور پر 14 خواتین کامیاب ہوئیں جس میں قومی اسمبلی کے لئے 5 خواتین‘ جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے لئے 9 خواتین امیدواروں نے عام نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

تادم تحریر(کیوں کہ حلقہ 250کا معاملہ التواءکا شکار ہے) قومی اسمبلی کے لئے کامیاب خواتین امیدواروں میں مسلم لیگ (ن) کی تین خواتین سمیرا ملک ‘غلام بی بی بھروانہ ‘ افضل تارڑجب کہ پاکستان کی سابقہ حکمران جماعت پیپلزپارٹی کی دو خواتین فہمیدہ مرزا اورفریال تالپور نے قومی اسمبلی کی سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔

صوبائی اسمبلیوں میں سے پنجاب اسمبلی کے لئے منتخب ہونے خواتین میں نادیہ عزیز ‘عفت معراج ‘نازیہ راحیل ‘ثمینہ نور ‘ نغمہ مشتاق ‘ریاض امانت ‘راشدہ یعقوب شامل ہیں۔

سندھ اسمبلی کے لئے منتخب ہونے والی خاتون رکن اسمبلی میں پروین عزیز اورثانیہ خان شامل ہیں جب کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا ہ اسمبلی کی رکنیت کے لئے کوئی خاتون امیدوار کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔

یادش بخیر 2008ءکے انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشستوں کے لئے 16 جب کہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لئے 10 خواتین منتخب ہوئی تھیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو حالیہ انتخابات میں زیادہ تعداد میں حصہ لینے کے باوجود خواتین کی انتہائی کم تعداد میں اسمبلیوں میں پہنچی ہے جسے مایوس کن صورتحال قرار دیاجاسکتا ہے۔

اگر حقیقت کا چشمہ لگاکر دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کے نزدیک خواتین کے ووٹ تو نہایت اہمیت کے حامل ہیں جس کے لئے وہ اپنی تقاریر میں ماﺅں اور بہنوں سے اپیلیں کرتے نظر آتے ہیں لیکن اپنی ان ہی ماﺅں اور بہنوں کو حقوق دلانے کے لئے ان کی صنف کی جنرل نشستوں پر نامزدگیاں ان کے لئے کوئی خاص معنی نہیں رکھتیں۔

اعداد و شمار کے مطابق 2002ءاور2008ءکے عام انتخابات سے اب تک کم و بیش کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی جب کہ نعرہ عورت کی مضبوطی ‘ ان کی سماج میں اہمیت ‘ مقام اور صنفی امتیاز کے خاتمے کا ‘لگایا جاتا ہے۔

مذہبی جماعتوں کی جانب سے خواتین کو نظر انداز کیاجانا تو کسی حد تک سمجھ میں آتا ہے لیکن اس ضمن میں مرکزی دھارے میں شامل سیاسی جماعتوں کا رویہ تشویشناک ہے۔

اس میں سر فہرست پاکستان پیپلزپاٹی ہے جس کی سربراہ خود ایک خاتون رہ چکی ہیں ۔ اس جمہوری پارٹی کی جانب سے سال2008ءمیں 15خواتین امیدواروں کی نامزدگیاں عمل میں آئی تھیں ۔(اگر بے نظیر بھٹو زندہ ہوتیں تو شاید یہ تعداد کئی گنا زیادہ ہوتی ) اس سال صورتحال مزید ناگفتہ بہ نظر آئی اور عام نشستوں پر 11خواتین امیدواروں کو نامزد کیاگیا ۔

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی و تجارتی شہر کی وہ نمائندہ جماعت ہے جس میں خواتین ہر سطح پر برابری کی بنیاد پر کام کرتی نظر آتی ہیں لیکن اس جماعت کی جانب سے بھی خواتین کو عام نشستوں کے لئے صرف7ٹکٹ دیئے گئے بہرکیف یہ تعداد گزشتہ دو انتخابات کے مقابلے میں زیادہ ہے۔اس جماعت کے حامی فرد کو نہیں بلکہ اپنی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں اس لئے اگر متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے صوبائی یا کم از کم کراچی کی سطح پر ہی سہی ‘50فیصد نشستوں پر بھی خواتین نامزد ہوتیں تو وہ کامیابی کے مراحل طے کرلیتیں لیکن ایسا نہیں کیا جاتا ۔

اس بار پاکستان مسلم لیگ نے 7خواتین کو نامزد کیا ‘گزشتہ انتخابات میں ق لیگ کے ٹکٹ پر 8خواتین انتخابی میدان میں تھیں‘ اس بار صرف 4خواتین عام نشستوں پر امیدوار تھیں جب کہ عوامی نیشنل پارٹی اے این پی کے ٹکٹ پر 2خواتین امیدوار عام نشستوں پر امیدوار تھیں۔

خواتین کی نامزدگی کے حوالے سے سب سے زیادہ حیرت پاکستان تحریکِ انصاف کے کردار پر ہوئی جو”تبدیلی“ کا نعرہ لے کر انتخابات کے میدان میں اُتری۔اس کے 227امیدواروں میں سے خواتین صرف 5تھیں۔دلچسپ امر یہ ہے کہ جس وقت سے پاکستان تحریک انصاف وجود میں آئی ہے تب سے اب تک اس جماعت کو خواتین کی زبردست حمایت حاصل رہی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ تحریک انصاف کے ابتدائی ایام میں اگر عمران خان کو کسی فورم پر مدعو کیا جاتا تو ان کے ہمراہ خواتین کا ایک جھنڈ ہوتا تھا ۔ یہ صورتحال آج بھی تبدیل نہیں ہوئی ہے البتہ عمران خان کے پیروکاروں میں نوجوانوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہوچکی ہے۔ آج بھی اگر آپ تحریک انصاف کے لئے دیئے جانے والے دھرنے کا جائزہ لیں تو اس میں بڑی تعداد خواتین اور نوجوان لڑکیوں کی نظر آئے گی لیکن اس جماعت کا عمل بھی خواتین کے منافی جاتا ہی نظر آتا ہے۔

اسمبلیوں میں کامیاب ہوکر پہنچنے والی خواتین کی شرح کا جائزہ لیا جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اگر 2002ءمیں فوجی قیادت کی حامل حکومت قومی اسمبلی میں ان کے لئے 60نشستوں کا کوٹہ مختص نہیں کرتی تو ملک میں عوامی نمائندگی کے اعلیٰ ترین ایوانوں میں خواتین کی نمائندگی علامتی ہی رہتی اور افسوسناک امر یہ ہے کہ تبدیلی کے بھرپور نعروں کے باوجود اس سال بھی خواتین کو اسمبلیوں میں اپنی نمائندگی کے لئے مخصوص نشستوں کی جانب ہی دیکھنا پڑے گا۔

گزشتہ 5سالہ جمہوری دور متعدد خامیوں کا حامل رہا ‘تاہم اس دوران خواتین کے حوالے سے قابلِ غور قانون سازی کی گئی۔ یہ ایک اہم قدم تھا جس کا مقصد سماجی سطح پر خواتین کے مرتبے میں اضافہ کرنا ہے۔ سابقہ قومی اسمبلی میں ارکان کی کارکردگی کے حوالے سے اعداد وشمار پر مشتمل حقائق بیان کرتے ہیں کہ مرد ارکان کے مقابلے میں‘ خواتین ارکانِ اسمبلی نے پارلیمانی امور اور قانون سازی میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔اس امر کے پیش نظر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سیاسی جماعتیں عام نشستوں پر زیادہ خواتین امیدواروں کو نامزد کرکے ان کی صلاحیتوں سے مستفید ہونے کی سعی کرتیں لیکن ........

گو کہ اس مرتبہ ملک کے بعض پسماندہ حصوں میں کچھ خواتین نے تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہوئے بطور آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لے کر طے شدہ ذہنیت کو چیلنج کرنے کی قابل داد کوشش کی تاہم سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایسی ہمت و جرات کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے تاریخ کے اس اہم موڑ پر خواتین کو منتخب نمائندوں کی صورت میں انتقال اقتدار کے دھارے میں شامل کرنے کے بجائے ایک جانب کھڑا کردیا گیا جو یقینا تشویشناک امر ہے ۔

قومی منصوبہ سازی کے اس اہم اور تاریخی مرحلے پر سیاسی‘ بالخصوص سیکولر جماعتوں کو چاہئے تھاکہ وہ اپنی خواتین ارکان پر بھروسا کرتے ہوئے انہیں عام انتخابات کے لئے ٹکٹ جاری کرتے۔ قابل فتح نشستوں پر ٹکٹ دے کر خواتین کی حوصلہ افزائی کی جاتی لیکن صد حیف کہ کسی بھی جماعت کی جانب سے ایسا نہیں کیا گیا۔عام خیال تو یہ ہے کہ سیاست میں خواتین کو حقیقی معنوں میں صرف اُسی صورت بااختیاربنایا جاسکتا ہے جب انہیں عوام کی عدالت کا براہ راست سامنا کرنے دیا جائے لیکن ایسا لگتا ہے کہ فی الحال سیاسی جماعتوں کے کرتا دھرتاﺅں کے ”روشن ذہن“ اس عام خیال تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔بہرکیف:
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

دیکھتے ہیں کہ گزرتا وقت کس تبدیلی کا مظہر بنتا ہے اور خواتین کو خود کو منوانے کے عمل میں مزید کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔
Shazia Anwar
About the Author: Shazia Anwar Read More Articles by Shazia Anwar: 201 Articles with 307528 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.