جب ایم کیو ایم نہیں تھی

جب ایم کیو ایم نہیں تھی اور ایم کیو ایم کے قائد محترم الطاف حسین بھائی اپنے بچپن کے دن کراچی کے جہانگیر روڈ کے سرکاری کواٹر میں گزار رہے تھے کہ محترمہ فاطمہ جناح بانی پاکستان قائداعظم کی ہمشیرہ نے جمہوری قوتوں کے بے حد اصرار فوجی سربراہ جنرل محمد ایوب خان کے مقابلے میں الیکشن لڑا تو اھل کراچی نے خصوصاََ اور سندھ کے شہری علاقوں کے باسیوں نے عموماَََ محترم فاطمہ جناح کو بڑی تعداد میں ووٹ دیے اور ان علاقوں سے قائد اعظم کی جانثار بہن کو کامیاب کرانے اور فوجی سربراہ کو ناکام کرانے کے جرم کی پاداش میں اھل کراچی پر بھرپور حملے کئے گئے یہ آج کی کٹی پہاڑی اور بنارس چوک حلانکہ اس صورت میں اس وقت نہ تھے لیکن آگ وخون کی وہ ہولی کھیلی گئی کہ الامان الحفیظ لالو کھیت آج کا لیاقت آباد خون میں نہا گیا گولیمار ظلم و بربریت کی علامت بن گیا اور چن چن کے اردو بولنے والوں کی املاک اور جانوں کو نشانہ بنایا گیا دھکتے تندوروں مین بچوں کو جھونک دیا گیا بجلی کے تاروں پر لیاقت آباد کے معروف سماجی کارکنوں کی لاشیں لٹکا دی گئی اس وقت ایم کیو ایم نہیں تھی قائد تحریک نا بالغ تھے اور آجکی جمہوریت کی چیمپین جماعت کے بانی سربراہ زوالفقار علی بھٹو فوجی سربراہ کو ڈیڈی کہتے تھے اور حکومت میں وزیر خارجہ اور جنرل کی ناک کا بال تھے پھر وقت بدلہ تو محترم زوالفقار علی بھٹو نے اپنی پارٹی بنا لی اور سازشوں اور الیکشن کے نتیجے مین مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو گیا اور مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) مین بھٹو صاحب کی حکومت قائم ہو گئی ۔

سندہ میں ذوالفقار علی بھٹو نے موروثی سیاست کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے چچا زاد بھائی ممتاز علی بھٹو کو وزیر اعلیٰ سندہ مقرر کیا اور سندہ میں سندھی قوم پرستی کا ایک طوفان آگیا قومی زبان اردو کی جگہ سندھی کی باتیں ہونے لگی ریلوے اسٹیشنوں اور سرکاری دستاویزات پر اردو کی جگہ سندھی نے لے لی اور سندہ اسمبلی نے باقاعدہ قرار داد منظور کر کے اردو کی جگہ سندھی زبان رائج کرنے کے احکامات جاری کر دئے گئے سارے سندہ میں اردو بولنے والوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا سارا سندہ فسادات کی نظر ہو گیا اندرونِ سندہ سے بڑی تعداد میں غیر سندہیوں نے شہری علاقوں میں ہجرت کی۔ وہاں انکی زمین ، جائیداد اور مکانات خریدنے کو کوئی تیار نا تھا اور کہا جاتا تھا کہ تم خود چھوڑ کر بھاگو گے تو یہ مفت میں ہماری ہو جائیں گی ہم کیوں خریدیں (جب ایم کیو ایم نہیں تھی) اس وقت یہ جو بینظیر بھٹو کی شہادت پر رد عمل سندہ میں کیا گیا آج کی نسل نے دیکھا کہ بہن بیٹیوں کی عصمتیں کیسے تار تار کی گئیں املاک کو کیونکر نذر آتش کیا گیا اور کی املاک ریلوئے ، بینکوں کو کس طرح تاراج کیا گیا یہ تو ایک ٹریلر تھا اس ظلم و بر بریت کا جو 70 کی دھائی میں سندہ میں روا رکھا گیا تھا اور جب ایم کیو ایم نہیں تھی اور قائد تحریک بھی اسکول اور کالج کے طالب علم تھے اور قائد تحریک بھی اس انوکھے ڈومیسائل سسٹم اربن ، رورل سے متاثر ہو رہے تھے جو صرف سندہ میں نافذ کیا گیا تھا (اور آج تک ہے) شہری آبادی یعنی کراچی ، حیدرآباد اور سکھر کا حصہ 2 فیصد مقرر کر دیا گیا ۔مشرقی پاکستان سے لٹ پٹ کر آنے والوں کو پاکستان سے وفاداری کے طعنے سننے پڑے اور (بہاری نہ کھپن ) کے نفرت انگیز نعروں سے پاکستان کی دیواریں رنگین کر دی گئیں اور آج تک لاکھوں جانثاران پاکستان بہاریوں کی نسلوں کو بنگلہ دیش کے کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیا گیا اس وقت ایم کیو ایم نہیں تھی اور جامعہ کراچی کے در و دیوار پر سجے مختلف نفرت انگیز نعرے دیکھ دیکھ کر قائد تحریک الطاف حسین کا دل خون کے آنسو روتا رہتا ہے کہ خدایا یہ کیا ہے ؟

ُپنجابی سٹودنٹس فیڈرشن ، پختون سٹودنٹس فیڈرشن ، سرائیکی سٹودنٹس مومنٹ ، سندھی سٹودنٹس فیڈرشن ، جی اے سندہ سٹودنٹس آرگنائزیشن ، این ایس ایف ، جمعیت ، اے ٹی آئی غرضیکہ قومیت اور مذہبی تعصب کی بنیاد پر ہر طرح کی طلباء تنظیمیں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نہ صرف اپنا وجود رکھتی تھیں بلکہ اپنا آپ منوانے کے لئے بدمعاشیاں ، ھاسٹلون سے طلبہ کی بدخلی ، مار پیٹ یعنی ہر طرح کی دہونس دھاندلی کھلے عام کرتی پھرتی تھیں لیکن اس وقت ایم کیو ایم نہیں تھی۔

میرے والد بتاتے ہیں کہ میر پور خاص میں 1972 میں ہونے والا میٹرک اردو کا پرچہ سندہی قوم پرستوں نے امتحانی مرکز میں داخل ہو کر پھاڑ دیا تھا اور حیدرآباد بورڈ نے اوسط نمبروں سے سارے بورڈ کے طالبعلموں کو اردو کے پرچے میں پاس کیا گیا تھا ۔سندہ یونیورسٹی کی حالت بہت ہی ابتر تھی ، غیر سندہی اساتزہ ہوں یا طالبعلم یونیورسٹی میں داخل ہونے کا تصور نہیں کر سکتے تھے اغوا ، مار پیٹ ، دھونس دھاندلی عام تھی حتا کہ جامشورو کا پُل پار کرتے ہی سندہی قوم پرست طالبعلم تنظیموں کے ارکان غیر سندہی طالبعلموں کو بس کی سیٹوں سے کھڑا کر کے خود بیٹھ جاتے اور غیر سندہی طالبعلموں کو تضحیک اور تشدد کا نشانہ بناتے حتیٰ کہ سندہ کے گورنر کو بھی تھپڑ مارنے سے بھی بعض نہ آتے اور سندہ یونیورسٹی کا وائس چانسلر گورنر سندہ قوم پرست تنظیموں کی اجازت کے بغیر یونیورسٹی کنونشن میں بھی شریک نہ ہو سکتا تھا عبدالحفیظ پیر زادہ ، مرحوم رسول بخش تالپور یس وقت ایم کیو ایم نہیں تھی اور قائد تحریک الطاف حسین غور و فکر میں ڈوبے رہتے کہ درسی کتابوں میں بھی چار فوٹو نظر آتے ہیں یہ پنجابی بچہ پنجابی لباس میں ، یہ سندہی بچہ سندہی لباس میں ، یہ پٹھان بچہ پٹھانی لباس میں اور یہ بلوچی بچہ بلوچی لباس میں ۔ قائد تحریک سوچتے ان چاروں لباسوں اور چاروں قومیتوں میں میں کہاں ہوں پانچواں صوبہ تو مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بن گیا اور وطن کی خاطر اپنی جانوں اور اپنی ماؤں بہنوں کی عصمتوں کے نزرانے پیش کرنے والوں کو تو اس پاکستان میں داخل ہونے پر پابندی (بہاری نہ کھپیں ) کی صورت میں موجود ، طلباء تنظیمیں ہر قومیت کی موجود ، مزہبی اجارہ دار طلباء تنظیمیں اپنی پوری دھشت و بربریت کے ساتھ حاضر لیکن ہم پاکستان کی خاطر ہجرت کرنے دینے والوں اور جانوں کے نذرانے کو (بھیا)، (تلیر)، (مٹروہ)، (مہاجر) اور نہ جانے کن کن ناموں سے شناخت کیا جاتا ہے تو کیوں نہ اپنی ایک شناخت بنا لی جائے لہذا پاکستان سوچ کے ساتھ آل پاکستان مہاجر سٹودنٹس آرگنائزیشن کی بنیاد خالصتاَََ ڈالی گئی ۔یہ آل پاکستان کا لفظ اس بات کا ثبوت ہے کہ قائدتحریک کی سوچ اس ظلم و ستم کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں شمعَ محبت و خلوص سارے پاکستان کے لئے روشن کر رہے تھے اور انکی شعوری آنکھ میں دیکھ لیا تھا کہ ایک دن سارے پاکستان کو اسکی ضرورت ہو گی لیکن اس کا آغاز سب سے پہلے اپنے گھر اور اپنے قبیلے (مہاجر) سے کرنا نبیﷺ کی سنت کی پیروی بھی ہو گی اور کامیابی کی ضمانت بھی کیونکہ اسی طرح عملی مظاہروں سے اپنی سچائی ثابت کی جا سکتی ہے۔ اس پس منظر میں جامعہ کراچی سے اے پی ایم ایس او کے سفر کا آغاز ہوا تو استحصالی اور استعماری قوتوں نے حق وصداقت کے اس بڑھتے طوفا نِ حق پرستی کی راہ مین ظلم و جبر کے پھاڑ کھڑے کے دئے طرح طرح کے الزامات اور پر تشدد کاروائیاں کی گئیں حتا کہ قائد تحریک الطاف حسین بھائی کو جامعہ کراچی کے ہاسٹل سے بے دخل کے دیا گیا ،سامان کمرے سے نکال کر جمیعت کے غنڈون نے باہر پھینک دیا لیکن ان کی یہ بیدخلی کی حرکت اپنا کام کرگئی اﷲ نے الطاف بھائی سے بڑا کام لینا تھا جب جامعہ کراچی کے دروازے بند کئے گئے تو اﷲ نے سارے سندہ کے دروازے حق پرستوں پر کھول دئے ۔صرف طلبا کے درمیان کام کرنے کی تمنا رکھنے والے الطاف حسین نے عوام الناس میں کام کرنے کا عزم کر لیا اور اس طرح 18 مارچ 1984 کو ایم کیو ایم کی بنیاد رکھ دی گئی قائد تحریک نے اپنی فکر انگیز (فکری نشستوں) کے ذریعے ایک عظیم انقلاب برپا کر دیا اور اس طرح ابتدا میں بلدیاتی انتخابات اور پھر قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں ایم کیو ایم نے روایتی سیاست کے بڑے بڑے بتوں کو سجدہ ریز کر دیا اورسارے پاکستان کے عوام کو یہ پیغام دیا کہ یہ ہے اصل طرز سیاست کہ ایک گنے کی مشین پر شربت فروخت کرنے والا غریب کا بچہ بھی ایم این اے بن سکتا ہے اور ایک غریب و متوسط خاندان کا کم عمر نوجوان کراچی جیسے شہر کا مئیر بن سکتا ہے اگر عوام اپنے ووٹ کا درست استعمال کریں اپنے اندر سے قیادت لائیں تو ہم اس ملک مین حقیقی عوامی انقلاب لا کر غریب عوام کی قسمت بدل سکتے ہیں ۔ لیکن جاگیرداروں ، سرمایہ داروں اور استحصالی طبقات سے یہ عوامی تبدیلی برداشت نہ ہو سکی انھوں نے اسٹیبلیشمنت لے گٹھ جوڑ سے الزامات در الزامات ، آپریشن در آپریشن اور سازش در سازش کے ذریعے ایم کیو ایم کو توڑنے جھکنے اور بکنے کے لاکھ جتن کئے قائد تحریک نے اپنے خاندان کے افراد کی جانوں کے نزرانے پیش کرنا گوارا کر لیا لیکن اپنے مقصد عظیم یعنی پاکستان میں 98 فیصد حقیقی عوام کی حکومت کے عزم سے دست بردار نہ ہوئے اور جب یہی چراغ جلے تو روشنی ہوئی اور سارے ملک میں حق پرستی کی شمع روشن ہوئی تو مہاجر قومی مومنٹ کی شکل اختیار کر لی اب اﷲ کے فضل و کرم سے پاکستان کے ہر قصبے میں ایم کیو ایم کے یونٹ موجود ہیں قائد تحریک ہواؤں کا رخ بدلنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے تھے ۔پاکستانی عوام بیدار ہو رھے ہیں شعور بڑھ رھا ہے لوگ جوک در جوک ایم کیو ایم مین شامل ہو رھے ہیں اور قائد تحریک الطاف حسین کو ملک کا واحد نجات دھندہ سمجھتے ہیں جو نہ ڈرتا ہے ، نہ بکتا ہے ، نہ جھکتا ہے صرف حق اور سچ کہتا ہے اور حکومت سے عوامی مطالبے منوا کے عوام کو ریلیف فراھم کرتا ہے کبھی سیلز ٹیکس سے بچا کر اور کبھی تیل کی قیمتوں میں کمی کروا کر ۔

لیکن آج بھی چند ملک دشمن ایجنٹ جب یہ کھتے ہیں کہ بہت سی برائیاں ایم کیو ایم کے آنے کے بعد ہوئی ہیں تو اینھیں سوچنا چاہئے کہ جب ایم کیو ایم نہیں تھی تو کیا تھا؟

Rao Mansoor
About the Author: Rao Mansoor Read More Articles by Rao Mansoor: 3 Articles with 4328 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.