یہ ایک عجیب بات ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے اور وافر مقدار میں گندم
کی فصل کاشت کرنے کے باوجود بھی گندم درآمد کیا کرتا تھا۔ ہمیں وہ وقت بھی
کبھی نہیں بھولے گا ۔ جب پاکستان کے شہری اور دیہاتی جیب میں کرنسی ڈال کر
میلوں تک گندم یا آٹا تلاش کیا کرتے تھے۔ تاہم انہیں نہ تو کہیں سے گندم
ملتی اور نہ ہی آٹا۔ گندم اور آٹا کا یہ بحران ہر سال اکتوبر میں شروع ہو
جایا کرتا تھا۔ اگر کسی دکاندار یا میشن ایجنٹ کے پاس گندم پڑی بھی ہوتی تو
وہ چھپا لیتا تھا تاکہ وہ اس کے من مانے نرخ وصول کرسکے۔ جب گندم کی فصل
تیار ہوجاتی اور گندم مارکیٹ میں آجاتی تو حکومت ساری گندم برآمد کر دیتی
تھی۔ پھر جب ملک میں گندم کا بحران پیدا ہوتا تو وہی گندم پھر خرید لی جاتی
تھی۔ اس کا مقصد صرف اور صرف کمیشن کمانا ہوتا تھا۔ ہمیں وہ وقت بھی یاد ہے
جب پاکستان کے غریب اور متوسط طبقہ کے لوگ ہفتہ میں دو دن صرف روٹی پکایا
کرتے تھے۔ باقی دنوں میں وہ چاول کھاکر گزر بسر کیا کرتے تھے۔ اکثر کاشتکار
تو بوائی کیلئے رکھی گئی گندم بھی کھا جاتے تھے۔ کہ بوائی وقت دیکھی جائے
گی ابھی تو پیٹ پوجا کرلیں۔ انیس سو ستانوے میں جب مسلم لیگ نواز گروپ نے
بھاری اکثریت سے ملک بھر میں کامیابی حاصل کی تھی۔ نواز شریف نے ایک بار
پھر وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا یا تھا۔ تو اس وقت بھی ملک میں آٹا کا شدید
بحران تھا۔ لوگ میلوں آٹا تلاش کیا کرتے تھے۔ نواز شریف کو عوام کی ان
مشکلات کا اندازہ تھا۔ اس لیے انہوں نے سب سے پہلے اسی مسئلہ کی طرف توجہ
دی۔ فوری طور پر باہر سے گندم منگوائی۔ چند ہی دنوں میں مارکیٹ میں آٹا عام
ہو گیا تھا۔ اسی دور حکومت میں انہوں نے آٹھویں ترمیم ختم کرکے اسمبلی
توڑنے کا صدارتی اختیا ر ختم کر دیاتھا۔ قومی اسمبلی سے شریعت بل پاس کرایا۔
جس کی وجہ سے کہا گیا کہ نواز شریف امیر الموئمنیں بننا چاہتے ہیں۔ اسی دور
حکومت میں پی ٹی وی پر قرآن پاک کی تلاوت ترجمعہ کے ساتھ ایک گھنٹہ روزانہ
نشر ہو نا شرو ع ہوئی۔ مسلم لیگ نوازگروپ کے اس دور حکومت میں ہندوستان کے
ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکے کیے گئے۔ اس سلسلہ میں اس وقت کے
وزیر اعظم نوازشریف نے امریکہ کا ہر دباﺅ مسترد کردیا اور ہرلالچ کوپاﺅں کی
نوک پر رکھا۔ ان کا یہ فیصلہ پارٹی کیلئے نہیں ملک و قوم کیلئے تھا۔ ان کے
اس دور حکومت میں صرف ایک سال ایٹمی دھماکوں کی سالگرہ یوم تکبیر کے نام سے
منائی گئی۔ اس کے بعد ان کی حکومت ختم ہو گئی۔ اس کے بعد کسی بھی دور حکومت
میں یوم تکبیر سرکاری سطح پر نہیں منایا گیا۔ اب پھر یوم تکبیر قریب ہے۔ اس
وقت اگرچہ مسلم لیگ نوازگروپ نے بھاری اکثریت تو حاصل کر لی ہے تاہم ابھی
وہ حکومت میں نہیں آئے۔ اس سال بھی مسلم لیگ ن ہی پہلے کی طرح یوم تکبیر
بھرپور طریقے سے منا رہی ہے۔ ان کے اس دور حکومت میں کارگل کا واقعہ بھی
پیش آیا جس کی وجہ سے نوازشریف اور مشرف کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے۔
نواز شریف نے اپنے سابقہ دور حکومت میں سندھ میں بے زمین ہاریوں میں فی
خاندان ساڑھے بارہ ایکڑ اراضی کے حساب سے ہزاروں ایکڑ سرکاری اراضی تقسیم
کی۔ ملک میں اور بھی سیاسی جماعتیں کام کررہی ہیں ان کی لیڈرشپ کا تعلق بھی
سندھ سے ہے۔ ہم نے نہیں سنا اور نہ ہی کسی اخبار میں پڑھا ہے کہ انہوں نے
سندھ میں بے زمین ہاریوں میں مفت زمین تقسیم کی ہے۔ نواز شریف کے اسی دور
حکومت میں قومی اداروں کو پرائیویٹ کیا گیا۔ ان میں واپڈا اور پی ٹی سی ایل
جیسے اہم ادارے بھی شامل ہیں۔ ان کے ہی دور حکومت میں تعلیمی اداروں کی
نجکاری کی گئی۔ جس سے ٹیوٹا وجود میں آئی۔ وکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ بھی
اسی دور کی یاد گار ہیں۔بجلی کے بلوں سے سرچارج بھی اسی دور حکومت میں ختم
کیا گیا۔ سرکاری ملازمین پر گولڈن ہینڈشیک کا کلہاڑا بھی اسی دور میں چلایا
گیا۔ جمعہ کی چھٹی بھی اسی دور میں ختم کی گئی۔ ایٹمی دھماکوں کی پاداش میں
پاکستان کو اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ جو اس
وقت اپنے عروج پر ہے اس کا آغاز بھی اسی دور میں ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ
بھارت کو بجلی برآمد کرنے کی بات بھی چل رہی تھی۔ ہم نے مسلم لیگ ن کے اس
دور حکومت کی کچھ جھلکیاں آپ کے سامنے رکھ دی ہیں۔ کچھ لوگوں کو پرانی
باتیں جلدی بھول جاتی ہیں۔ اب بھی کسی کو ہماری باتوں پر شک ہو تو وہ اس
دور کے اخبارات کا مطالعہ کرکے ہماری باتوں کی تصدیق یا تردید کر سکتا ہے۔
بارہ اکتوبر 1999ءکو مسلم لیگ کی حکومت ختم ہوگئی۔ پرویز مشرف نے اقتدار
سنبھال لیا۔ اس دور میںجو کچھ ہوا یہ ہمارے آج کے آرٹیکل کا موضوع نہیں ہے۔
پرویز مشرف نے انتخابات کرائے جس کے نتیجہ میں مسلم لیگ ق اقتدار میں آئی۔
اس نے اس ملک میں کیا کیا کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ ہم اس کو بھی اپنی
تحریر کے احاطہ میں نہیں لانا چاہتے۔ مسلم لیگ ق کا دور حکومت ختم ہوا۔ تو
اس دوران محترمہ بینظیر بھٹوکو لیاقت باغ راوالپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ جس
کا رد عمل ق لیگ کے خلاف ابھرا۔ پیپلز پارٹی کو ہمدردی مل گئی۔ اسی ہمدردی
کے ووٹ سے اس نے مرکز میں اپنے اتحادیوں سے مل کر حکومت بنائی۔ مسلم لیگ ن
بھی اس کی سب سے بڑی حمایتی اور حکومت میں حصہ دار تھی۔ بعد میں اختلافات
کی وجہ سے اس نے کابینہ سے بھی علیحدگی اختیار کرلی اور اپوزیشن بنچوں پر
آگئی۔ مرکز سے تو وہ حکومت سے الگ ہوگئی۔ تاہم پنجاب میں اس کی اپنی حکومت
تھی۔ جس طرح مرکز میں مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی کے ساتھ شریک اقتدار تھی ۔ اسی
طرح پنجاب میں پیپلزپارٹی مسلم لیگ ن کے ساتھ اقتدار میں شامل تھی۔ اب مسلم
لیگ ن چاہتی تھی جس طرح وہ وفاقی حکومت سے الگ ہو گئی ہے اسی طرح
پیپلزپارٹی بھی صوبائی حکومت سے علیحدہ ہوجائے۔ ایک دن اس کی یہ خواہش بھی
پوری ہوگئی۔ جس طرح آپ کے علم میں ہے اور آپ اس تحریر میں پڑھ بھی آئے ہیں
کہ ایک ایسا وقت بھی تھا جب اکتوبر کے مہینہ میں عوام گندم یا آٹا کی تلاش
کیلئے میلوں پھر اکرتے تھے مگر ان کو نہ تو کہیں سے آٹا ملتا اور نہ ہی
گندم۔ عوام نے ہفتہ میں چار پانچ دن چاول اور دو دن گندم کے آٹا سے روٹی
پکا کر کھائی ہے۔ ہم ایک دن اپنے رشتہ دار کے گھر گئے تو انہوں نے چاولوں
کی روٹی پکائی ہوئی تھی۔ ہم نے پوچھا یہ کیا ۔ تو جواب ملا کہ گندم کا آٹا
تو ملتا نہیں ہے اس لیے چاولوں کی روٹیاں پکا رہے ہیں۔ ملک میں ایک طرف
ہرسال اکتوبر میں گندم اور آٹا کا بحران پیدا ہوجاتا تھا دوسری طرف
کاشتکاری کے بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے کاشتکاروں نے اپنی زمینوں پر
محنت کرنا بھی کم کر دی تھی۔ بوائی سے لے کر کٹائی تک تمام اخراجات میں
اضافہ ہو گیا۔ کاشتکار کو اتنی بچت بھی نہیں ہوتی تھی کہ اس نے کھیتوں میں
فصل کی تیاری میں جو کام کیا ہوتا تھا اس کا ہی معاوضہ مل جاتا پھر بھی
کسان فائدے میں تھا۔ اس نے اگر کسی بھی فصل کی تیاری میں چار ماہ کام کیا
ہوتا تو اس کو ایک ماہ کی مزدوری کے پیسے بھی نہ بچتے تھے۔بلکہ اکثر تو
ایسا ہوتا کہ خسارہ برداشت کر نا پڑتا۔ شہباز شریف نے 2008ءمیں پنجاب کا
وزیر اعلیٰ بنتے ہی ایک بہت ہی اہم کام کیا جو کم از کم ہمیں نہیں بھولے گا۔
انہوں نے ان تمام مسائل کا حل بڑی خوبصورتی سے نکالا۔ انہوں نے پنجاب کے
کاشتکاروں کے درمیان مقابلہ کرایا۔ کہ جس کاشتکار کی گندم کی فصل سب سے
زیادہ ہوگی اس کو حکومت کی طرف سے انعام دیا جائے گا۔ پاکستانی قوم انعامات
کی بہت شوقین ہے۔ یہ چائے کی پتی بھی وہی استعمال کرتی ہے جس میں انعام دیا
گیاہو۔ سگریٹ کی ڈبی بھی وہی خرید کرتی ہے۔ جس میں انعام نکلنے کا امکان ہو۔
اس قوم کو جس کے بارے میں کہا جائے اس کام سے انعام ملے گا۔ انعام ملے یا
نہ ملے ہم وہ کام ضرور کرتے ہیں اسی امید پر کہ ہو سکتا ہے کہ انعام ہمارا
بھی نکل آئے۔ شہباز شریف نے بھی اسی لیے کاشتکاروں کے درمیان گندم کی
پیداوار کا مقابلہ کرایا۔ کہ جس کی گندم سب سے زیادہ ہوگی اس کو حکومت
پنجاب کی طرف سے انعام دیا جائے گا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی کاشتکاروں نے محنت
کرنا شروع کردی۔ ہر ایک اسی کوشش میں تھا کہ اس کی فصل سب سے اچھی ہو۔ ہر
کسان کی یہی تمنا تھی کی اس کی پیداوار سب سے زیادہ ہو تاکہ وہ شہباز شریف
سے انعام لے سکے۔ گندم کی فصل کو بہتر سے بہتر کرنے کیلئے کسان جو کچھ کر
سکتے تھے انہوں نے وہی کچھ کیا۔ کہتے ہیں اتفاق میں برکت ہے۔ جب پوری قوم
مقابلہ اور اتفاق کی ملی جلی کیفیت میں کام کرے اس کے کیا نتائج سامنے آتے
ہیں۔ یہ ہم دیکھ چکے ہیں۔ اتفاق اس بات میں تھا کہ سب محنت کر رہے تھے اور
مقابلہ یہ تھا کہ ہر کسان چاہتا تھا کہ اس کی پیداوار سب سے زیادہ ہو۔ اب
کسانوں کی یہ اجتماعی محنت رنگ لے آئی۔ مقابلہ کی اس فضا نے گندم کی فصل کی
پیداوار بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس سال ریکارڈ گندم کاشت بھی ہوئی
اور اس کی پیداوار بھی ریکارڈ ہوئی۔ شہباز شریف وعدہ کے مطابق ان کا
شتکاروں کو انعامات بھی دیے جن کی فصلیں زیادہ پیداوار دے چکی تھیں۔ شہباز
شریف کی اس انعامی سکیم سے کئی فائدے حاصل ہوئے۔ ایسے کا شتکار جو اخراجات
میں اضافہ کی وجہ سے کاشتکاری ترک کرنے پر تیار ہوگئے تھے ان کو ایک نیا
حوصلہ ملا۔ کاشتکاروں نے انعام حاصل کرنے کیلئے اپنے کھیتوں میں اور بھی
زیادہ محنت سے کام کیا۔ جس سے پیداوار میں اضافہ ہوا۔ اللہ پاک نے کسانوں
کی اس محنت کو رنگ لگایا۔ اس سے پہلے ہر سال گندم مارکیٹ میں آتے ہی باہر
بھیج دی جاتی تھی۔ جس سے ملک میں گندم اور آٹا کا بحران پیدا ہوجاتا تھا۔
انہوں نے یہ پالیسی بھی تبدیل کر لی۔ملک میں گندم کی ایک سال تک موجودگی کو
لازمی قرار دے دیا گیا۔ کہ ایک سال گندم کی جو فصل ہوگی وہ ایک سال ملک میں
موجود رہے گی۔ سال بعد جب نئی فصل تیار ہوگی اور نئی گندم مارکیٹ میں آئے
گی تو پرانی گندم فروخت کر دی جائے گی۔ شہباز شریف کی ان پالیسیوں کا فائدہ
یہ ہوا کہ جس طرح پہلے گندم اور آٹا کا بحران پیدا ہوجاتا تھا ان کے ان
اقدامات کے بعد ملک میں ایسا بحران پیدا نہیں ہوا۔ قیمتوں اضافہ ضرور ہوا
ہے۔ تاہم آٹا کی شارٹیج نہیں ہوئی۔ عوام جو اس کی تلاش میں میلوں سفر کیا
کرتے تھے اس سے ان کو نجات مل گئی ہے۔ شہباز شریف نے ایک اور اچھا کام کیا
کہ انہوں نے طلباءاور طالبات میں پڑھنے اور لکھنے کے شوق کو اجاگر کیا۔
انہوں نے تعلیمی اداروں کے طلباءاور طالبات کے درمیان تحریری اورتقریری
مقابلے کرائے۔ان کے اس اقدام سے کالم نویسی کی اہمیت میں بھی اضافہ ہو
گیا۔جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ لکھنا پڑھنا فضول کام ہیں۔ ان کو ایک بار
سوچنا پڑا کہ یہ کام فضول ہوتے تو خادم اعلیٰ یہ مقابلے نہ کراتے۔اس مقابلہ
کی وجہ سے طلباءاور طالبات میں لکھنے اور پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ اس سے
پہلے طلباءاور طالبات میں کھیلوں کے مقابلے کرائے جاتے تھے۔ شہباز شریف نے
ایک نئی روایت کا آغاز کیا۔ اب پھر ان کی ہی حکومت بننے جارہی ہے ہم امید
کرتے ہیں وہ یہ مقابلے جاری رکھیں گے۔ غیر نصابی سرگرمیوں سے طلباءطالبات
میں چھپی ہوئی صلاحیتیں ظاہر ہوجاتی ہیں۔ مضمون نویسی اور تقریری مقابلوں
سے بھی طلباءاور طالبات کے درمیان اس سلسلہ میں چھپی ہوئی صلاحیتیں ظاہر
ہوئیں ایسے ایسے طلباءنے انعام وصول کیے جن کے بارے میں کسی کو توقع بھی نہ
تھی کہ یہ بھی کسی میدان میں نمبر لے جائیں گے۔ مہنگائی کے اس دور میں دو
وقت کا کھانا کھانا بھی مشکل ہو گیا۔ اب جو لوگ کہتے رہے کہ شہباز شریف نے
لیپ ٹاپ تقسیم کیے۔ لیپ ٹاپ سے پیٹ کی آگ نہیں بجھتی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ
اس سے پیٹ کی آگ بجھتی ہے اگر کسی کو بجھانا آتی ہوتو۔ شہباز شریف نے پیٹ
کی آگ بجھانے کیلئے دو پروگرام شروع کیے تھے ۔ ایک سستی روٹی سکیم تھا
اورفوڈ سپورٹ پروگرام تھا۔ سستی روٹی سکیم میں سو گرام کی روٹی دو روپے میں
دی جاتی تھی۔ اس سکیم کو عوام نے ہی ناکام بنایا وہ اس طرح کہ حکومت سے آٹا
بٹورنے کے چکر میں جعلی سستے تنور بنائے گئے۔ ایسی ایسی جگہوں پر تنو ر
بانئے گئے جہاں ان کا کوئی جواز ہی نہیںن بنتا تھا ایسی جگہوں پر نہ تو اس
سکیم سے پہلے کوئی تنور تھا اور نہ ہی اس سکیم کے بعد کوئی تنور نظر آیا۔
سستے دسترخوان بھی لگائے گئے۔ جن میں پندرہ روپے خوراک ملا کرتی تھی۔ اب جو
لوگ پچاس روپے ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے ۔وہ پندرہ روپے سے پیٹ پوجا
کر لیا کرتے تھے۔ اور دو روپے کی دو روٹیاں لے کر بھی بھوک مٹا ئی جاسکتی
تھی۔ اور کچھ نہ ملے پیاز سے بھی روٹی کھائی جاسکتی ہے۔ فوڈ سپورٹ پروگرام
میں غریب اور بیروزگار افراد کو ہزار روپیہ ماہانہ دیا جاتا تھا اس کے خلاف
بھی شور مچایا گیا کہ قوم کو بھکاری بنایا جا رہا ہے۔ یہ سسٹم بند کیا جائے۔
اب انکم سپورٹ پروگرام میں بھی ہزار روپیہ ماہانہ دیا جارہا ہے اور فوڈ
سپورٹ پروگرام میں بھی ہزار روپیہ ماہانہ دیا جاتا تھا۔ اس سے یہ انکشاف
سامنے آیا کہ شہباز شریف کی حکومت غریب عوام کی مدد کرے تو اس سے قوم کے
بھکاری ہونے کا خدشہ تھا اور پیپلز پارٹی یہی کام کسی اور نام سے کرلے تو
اس سے قوم کے بھکاری بننے کا کوئی خدشہ نہیں ۔ شہباز شریف اب پھر وزیر اعلیٰ
بننے جارہے ہیں ۔ہم ان صفحات میں ان سے کہیں گے کہ وہ سستی روٹی سکیم اور
فوڈ سپورٹ پروگرام پھر شروع کریں۔ اور مظلوم عوام کی دعائیں لیں ۔ اس بارے
کون کیا کہتا ہے اس پر توجہ نہ دیں ہاں ان پروگراموں کی شفافیت یقینی
بنائیں۔ ہم اس موضوع پر الیکشن کے دوران بھی لکھ سکتے تھے اس لیے نہیں لکھا
کہا جاتا کہ اس پارٹی کی حمایت کی جارہی ہے۔ میرا گمان ہے کہ عوام نے انہی
پالیسیوں کی وجہ سے مسلم لیگ ن کو اعتماد سے نوازا ہے وہ چاہتی ہے کہ اب یہ
پروگرام اوراقدامات پنجاب کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں اٹھائے جائیں۔ تاکہ ملک
بھر کی عوام ان سے فائدہ اٹھا سکے۔ |