بجٹ کا بخار

آپ سوچ رہے ہونگے کہ ابھی نئی حکومت نے حلف بھی نہیں اُٹھایا اور راقم السطور بجٹ کی کہانی لے کربیٹھ گیاہے۔لیکن اس میں ہماری کہیں کوئی غلطی اگر آپ کو مل جائے تو بجا ورنہ تو نئی حکومت کے لئے وقت ہی ایسا معین کیاگیاہے کہ حلف اُٹھاﺅ اور بجٹ پیش کرو۔کس قدر ناانصافی ہوگی اگر ان کا درد محسوس نہ کیاجائے۔ایسا وقت اُن کے لئے طے کیاگیاہے کہ فوری حلف اور فوری بجٹ، تاکہ عوام سے کئے گئے وعدے وعید کاکچھ ازالہ نئی حکومت ہی کرے۔اس لمحے کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ ” سر منڈھاتے ہی اولے پڑے“ خیر صاحب! جب اقتدار مل ہی گیاہے تو گھبراناکیسا۔پچھلی حکومت کے پاس امپورٹیڈ وزیرِ خزانہ تھا تونئی حکومت کے پاس بھی اسحاق ڈار اور سرتاج عزیز جیسے اعداد و شماراور ہندسوں کے ہیر پھیر کے ماہر لوگ موجودہیں۔بجٹ بناتے وقت بس یہ دھیان رہے کہ ہماری عوام بہت پِس چکی ہے اب مزید انہیں کسی امتحان میں مت ڈالیئے گاکیونکہ ہماری عوام میں اب کسی مصیبت کو جھیلنے کی سکت باقی نہیں رہی۔

ویسے تو راویانِ خوش بیانی کرنے والوں کے مطابق ملکِ پاکستان کی عوام یوں توسال میں کئی تہواراور جشن مناتے رہتے ہیں۔لیکن جون کے مہینے میں وہ جشنِ مسرت بھی مناتے ہیں اور تقریبِ غم بھی۔جشنِ مسرت اس لئے کہ بجٹ اچھا پیش ہو گیا تو مسرت ہی مسرت ہوگی ورنہ تقریبِ غم تو ہوگا ہی۔ہم نے ایک راوی سے سوال کیاکہ آخر ماہِ جون پاکستان کے عوام کے لئے اتنا اہم کیوں ہے؟ تو موصوف نے ہماری جانب ایسی نظروں سے دیکھا، جیسے کوئی عقلمند کسی عقل مند کی طرف دیکھتاہے۔بہرحال ہمیں بہ غور دیکھنے اور گھورنے کے بعدوہ یوں گویا ہوئے! ” اے ریاستِ بیوقوفاں کے باشندے!تجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ اس ماہِ مبارک یعنی جون میں ہر جمہوری یہاں تک کہ غیر جمہوری ملک میں بھی سالانہ بجٹ پیش کیا جاتاہے،جس کا عوام بے صبری سے انتظار کرتے ہیںاور اس لئے کرتے ہیں ، کیونکہ یہ بجٹ ان کی سیاسی، معاشی، سماجی، تہذیبی، تعمیری، تخریبی، طبی، مذہبی ، تعلیمی، فلمی، ادبی اور تمدنی زندگی کو متاثرکرتا ہے۔ جب تک بجٹ پیش نہیں ہوتا تب تک اس کا بخار سب پر چڑھا ہوا رہتا ہے۔“

لیکن حضورِ والا!بجٹ کا تعلق تو معاشی زندگی سے ہے، پھر آپ یہ کیسے فرما رہے ہیں کہ بجٹ ایک شہری کی سماجی، سیاسی، تہذیبی اور یہاں تک کہ مذہبی زندگی پر بھی اثر انداز ہوتاہے۔ہمارا سوال سن کر راوی بد زبان نے کہا: ” اے شخص! ایسا لگتا ہے کہ تو کسی کمیونسٹ یا سوشلسٹ ملک کا رہنے والاہے،کیونکہ سناہے ایسے ہی ملکوں میں بجٹ عوام کی تہذیبی ، سماجی اور سیاسی زندگی پر اثر نہیں ڈالتا،ورنہ سرمایہ دارانہ اور نیم سرمایہ دارانہ ممالک میں تو عوام اچھی طرح اس حقیقت کو جانتے اور مانتے ہیں کہ وزیرِ خزانہ جو سالانہ بجٹ پیش کرتے ہیں، وہ ان کی زندگی کے ہر پہلو کو منفی یا مثبت طورپر متاثرکرتاہے۔مثال کے طور پر ہمارے ملک پاکستان جنت نشان میں بجٹ عوامی آرزوﺅں اور توقعات کو ا سکی حد تک پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ برسرِ اقتدار پارٹی یا اتحاد کو عوام سے ووٹ لینے کے لئے بھی ہر پانچ برس بعد ان کے پاس جاناہوتاہے۔ظاہر ہے ووٹ لینے کے لئے رائے دہندگان کو بجٹ میں تھوڑی رعایتیں دینا لازمی ہو جاتاہے۔لہٰذا لفظوں اور ہندسوں کے ہیر پھیر کے ساتھ کچھ چیزوں پر ٹیکس کم کرنا ضروری امرہوتاہے۔مزدور اور کسانوں کے لئے چند فلاحی منصوبے پیش کرنا ہوتاہے ، تنخواہ دار طبقہ کے لئے آمدنی ٹیکس میں کچھ چھوٹ دیاجاتاہے اور کچھ تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا جاتاہے، اور حسبِ دستور سرمایہ داروں کے لئے تو سب کچھ کرنا ہی ہوتاہے۔اب بات دیگرہے کہ سرمایہ دار تمام تررعایتیں ملنے کے بعد بھی یہ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ سرکار انہیں پریشان کر رہی ہے،ٹیکسوں کا بوجھ بڑھا رہی ہے اور رعایتیں کم کر رہی ہے۔تاہم بات دیگر یہ ہے کہ ہندسوں کی ہیرا پھیری کرکے سالانہ بجٹ کو عوام اور متوسط طبقہ کے لئے مہنگائی کے بوجھ تلے دبادیاجاتاہے۔اب دیکھئے کہ نئی حکومت کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہے کہ جس سے غریب اور متوسط طبقہ کے لوگوں کو ریلیف مل سکے۔یہ بھی دیکھاگیاہے کہ عموماً سرکار خسارہ میں ہی رہتی ہے اور خسارہ کا ہی بجٹ پیش کرتی ہے۔کیا خسارہ کے بجٹ کی وجہ سے سرکار، وزراءاور افسران خسارے میں آ جاتے ہیں؟ یاد رکھئے سرکار ، وزرا اور افسران نہیں،بلکہ عوام ہی ہمیشہ خسارہ میں رہتے ہیں ۔کیا آپ نے کبھی بجٹ کے بعد کسی وزیر باتقدیر یا افسر با تدبیر کو معاشی طورپر کمزور ہوتے ہوئے دیکھا ہے؟ان کی دولت و املاک تو ہر بجٹ کے بعد شیطان کی آنت کی طرح بڑھ جاتی ہے، البتہ غریب مزدور اور کسان کی اُمیدیں ضرور گدھے کے سینگوں کی طرح غائب ہو جاتی ہیں۔ہربجٹ کے بعد معاشی تنگی کے باعث خود سوزی کرنے والے غریبوں کی تعداد ہر گز کم نہیں ہوتی،بلکہ بڑھ جاتی ہے۔کیا کبھی پاکستان کرپشن نشان میں کسی وزیر یا افسر نے معاشی تنگی یا مہنگائی کی وجہ سے خود کشی کی ہے؟ ہر گز نہیں جناب! شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
آدمی کا خون تو کچھ اور سستا ہوگیا
بڑھ گئی پر، دوسری چیزوں پہ مہنگائی بہت

ہمارے ملک میں عموماً ہربجٹ کے بعد غریبی،بے روزگاری،مہنگائی،بے گھری اور بدعنوانی میں اضافہ ہوجاتاہے،جبکہ دیانت داری، فرض شناسی اور وطن پرستی میں کمی آجا تی ہے۔ایسا محسوس ہوتاہے کہ ضرور بجٹ اور کرپشن کا چولی دامن کا ساتھ رہاہے۔ ویسے تو یہ بھی دیکھا گیاہے کہ ہمارے ملک میں جتنے بھی گھپلے کے کیس ہوئے ہیں وہ عام طور پر بجٹ کے بعد ہی ہوئے ہیں۔غرض یہ کہ کرپشن کے بیشتر معاملات بجٹ کے بعد ہی طشت ازبام ہوئے۔جب بجٹ پر عام غریبوں اور متوسط طبقوں کے درمیان بحث چھڑجاتی ہے تو کوئی ذی شعور ایسابھی ہوتاہے جو یہ کہتاہے کہ اے علمِ معاشیات سے بے بہرہ انسان!تجھے اعداد کا ہیر پھیر سمجھ نہیں آئے گاکیونکہ یہ کھیل صرف اقتدار والوں کا ہی کام ہے۔ورنہ تُو ایسا بے تُکا سوال نہ کرتا۔ارے بھئی! بجٹ سے ہی تو مختلف وزارتوں، اداروں اور شعبوں کے لئے بڑی بڑی رقوم مختص کی جاتی ہیں اور انہیں رقوم سے چھوٹے بڑے گھپلے (کرپشن) کئے جاتے ہیں۔یاد رکھئے کہ رقم کے بغیر کسی قسم کا کرپشن منظرِ عام پر نہیں آسکتا۔

مہربان! یہ سب تو آپ کو سمجھ میں آگیاہوگا مگر پاکستان کے عوام پر چڑھا ہوا بجٹ کا یہ بخارتو ظاہرہے کہ بجٹ پیش ہونے کے بعد ہی اُترے گا۔اس سال ہماری عوام کو وزیرِ خرانہ اور بجٹ سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔پہلی توقع تو یہ ہے کہ سرکار اس بار سرمایہ داروں کے علاوہ غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کا بھی خیال کرے گی،نیز نئے ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کا بوجھ بھی غریبوں کے کاندھوں پر نہیں ڈالے گی۔عوام کو بجٹ سے دوسری اُمید یہ ہے کہ وزیرِ خزانہ مہنگائی کو کم کرنے کے لئے کوئی کارگر قدم اٹھائیں گے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ عمل میں لائے گی۔اور سب سے بڑھ کر بے روزگاروں کو روزگار فراہم کرنے کے لئے ٹھوس حکمتِ عملی وضع کی جائے گی تاکہ ہمارے نوجوان جو ڈگریاں حاصل توکر لیتے ہیں مگر نوکری ان سے کوسوں دور ہوتی ہے جس کی وجہ سے انہیں اپنے گھر والوں کی کفالت میں بڑی دشواریوں کا سامنارہتاہے۔بجٹ ایسا ہونا چاہیئے جو عوام کو راحت ضرور دے ۔لوگ کہہ رہے ہیں کہ مہنگائی اور کرپشن کو کم نیز عوام کو ہر سطح پر ریلیف دینے والا بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔جہاں تک بجٹ بخار کے اُترنے کا سوال ہے تو یہ ابھی نہیں اُترسکتا جب تک کہ بجٹ پیش نہ ہو جائے۔میڈیا کی خبروں اور تجزیوں سے بہتوں کو کبھی تیز بخار ہوجاتاہے تو کبھی بخار کم ہو جاتاہے مگر رہتا ضرور ہے۔سب سے زیادہ پریشان مڈل کلاس کے لوگ ہیں اور بجٹ کے بخار میں بری طرح مبتلا ہیں۔ایک کہنہ مشق شاعر نے بھی بجٹ کے حوالے سے کیا خوب کہا ہے کہ:
چڑھا ہوا ہے بجٹ کا بخار عوام پر
خدا کرے کہ اُتر جائے بارِ مہنگائی
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 368009 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.