اے ارض مقدس

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ نفرت کی ریاست اسرائیل کی بنیاد معصوم فلسطینیوں کے ساتھ ظلم و زیادتی پر رکھی گئی تھی۔ بے تحاشہ سربریت کے پہاڑ توڑ کر بے آسرا فلسطینی قوم سے ان کی سرزمین چھینی گئی۔مظلوم فلسطینیوں سے ان کا ملک چھیننے کے لیے دنیا بھر کے صیہونی منظم اور وحشیانہ طریقے سے چڑھ دوڑے۔ انہوں نے یہ تہیہ کرلیا تھا کہ جس طرح بھی ممکن ہو فلسطینیوں سے ان کا ملک چھین کر اسرائیل کو جنم دینا ہے، اس گھناﺅنے منصوبے کی تکمیل میں بہت سے ملکوں نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ ویانا کے صحافی تھیوڈور ہیرسل نے 1902ءمیں لکھا تھا: ”اگر تم چاہو تو یہ (اسرائیل کا قیام) کوئی دیو مالائی داستان نہیں ہے۔“ 2نومبر1917ءکو آرتھر جیمز سیکرٹری خارجہ برطانیہ نے ایک خط میں صیہونیوں کو اس بات کا یقین دلایا تھا کہ وہ فلسطین کی سرزمین میں ایک یہودی ریاست کے قیام میں بھر پور اور عملی مدد دیں گے۔ خط میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اس معاہدہ کی توثیق برطانوی کابینہ کے ایک خفیہ اجلاس میں 31 اکتوبر 1917ءکو ہو چکی ہے۔ لارڈ بالفور اپنی ڈائری میں لکھتا ہے: ”ہمیں فلسطین کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وہاں کے موجودہ باشندوں سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صیہونیت ہمارے لیے ان سات لاکھ عربوں کی خواہشات اور تعصبات سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے جو اس قدیم سرزمین میں اِس وقت آباد ہیں۔“

اس طرح 1917 میںچار صدیوں تک عثمانیوں کی حکمرانی میں رہنے والے اس خطے کوبرطانیہ نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ فلسطین کی جانب یہودیوں کی نقل مکانی 17 ویں صدی کے اواخر میں شروع ہو گئی تھی۔ 1917 میں یہودی آبادی جو صرف 52ہزار تھی وہ پانچ سال میں بڑھ کر 83 ہزار کے قریب ہو گئی۔1922 سے 1939 تک ان کی تعداد ساڑھے چار لاکھ تک پہنچ گئی۔ جنگ عظیم دوم کے زمانے میں یہودی ہر قانونی اور غیر قانونی طریقے سے بے تحاشہ فلسطین میں داخل ہونے لگے۔صیہونی ایجنسی نے ان کو ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں فلسطین میں گھسانا شروع کر دیا اور مسلح تنظیمیں قائم کیں، جنہوں نے ہر طرف ماڑدھاڑ کرکے عربوں کو بھگانے اور یہودیوں کو ان کی جگہ بسانے میں سفاکی کی حد کر دی۔ 1920 ، 1921 ، 1929 اور 1936 میں عربوں کی طرف سے یہودیوں کی نقل مکانی اور اِس علاقے میں ان کی آمد کے خلاف پرتشدد مظاہرے ہوئے لیکن یہودیوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ مقامی عرب اور ہمسایہ عرب ریاستوں کی فوجیں بھی مسلح یہودیوں کو فلسطینی سرزمین میں زبردستی آباد ہونے سے روکنے میں ناکام رہیں اور یہودی برطانوی نوآبادی کے کنٹرول میں فلسطینی سرزمین پر ناجائز قبضہ کرکے آباد ہوتے چلے گئے۔

1947ءمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے فلسطین کو تقسیم کر کے ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا۔ برطانیہ نے اس علاقے سے 1948ءمیں اپنی افواج واپس بلالیں اور14 مئی 1948ءکو اسرائیل کی آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ مئی 1948 اسرائیلی ریاست کے قیام کے وقت مسلح یہودیوں نے ہزاروں فلسطینیوں کو ان کے آبائی گھروں اور علاقوں سے بے دخل کرکے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا۔بعد کے برسوں میں اسرائیل نے ان کواپنے آبائی علاقوں میں واپس نہیں آنے دیا۔ وہ خیمہ بستیوں یا گنجان آباد پناہ گزین کیمپوں میں مہاجرت کی زندگی گزارنے لگے۔اسرائیلی مورخ ایلان پاپے نے لکھا ہے کہ وزارت عظمیٰ پر فائز بن گوریان نے بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ کہا تھا: ”اسرائیل ہی میں یہودی قوم نے جنم لیا تھا اور یہیں اس کے فکری، مذہبی اور سیاسی وجود کی آبیاری ہوئی،ہم یہاںاسرائیلی سرزمین پر یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کرتے ہیں، یہ ہے ریاست اسرائیل۔“ بن گوریان نے ہی دَس لاکھ فلسطینیوں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

فلسطین کے ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیلی ریاست کے قیام کے وقت اسرائیل نے 774 فلسطینی شہروں اور دیہاتوں پر قبضہ کیا ، جن میں سے 530 کو ملیامیٹ کردیا تھا۔ اسی طرح فلسطینیوں کے قتل و غارت گری کے 70 بڑے واقعات رونما ہوئے تھے۔مئی 1948ءمیں قیام اسرائیل کے موقع پر یہودی جتھوں نے فلسطینیوں پر حملے کرکے پندرہ ہزار سے زائد افراد کو شہید کیا۔ تاریخ کے اس اندوہناک سانحے کے موقع پر آٹھ لاکھ سے زائد فلسطینیوںکو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔ یہ لوگ 1948 کے تاریخی فلسطین کے 1300 دیہاتوں اور شہروں میں قیام پذیر ہوئے۔ 2012 کے آخر تک فلسطین کی کل آبادی کا 44.2 فیصد مہاجرین پر مبنی تھی۔ اس طرح اب تک اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورک ایجنسی (UNRWA) میں رجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد 53 لاکھ ہو چکی ہے جو دنیا بھر میں بسنے والے تمام فلسطینیوں کا 45.7 فیصد ہے۔59 فیصد فلسطینی مہاجرین اردن، شام اور لبنان میں رہائش پذیر ہیں، 17 فیصد مغربی کنارے اور 24 فیصد غزہ کی پٹی میں ہیں۔ مہاجرین کا 29 فیصد 58 مہاجر کیمپوں میں آباد ہے۔ ان کیمپوں میں سے دس اردن میں، نو شام میں، بارہ لبنان میں، 19 مغربی کنارے میں اور آٹھ غزہ کی پٹی میں ہیں۔ فلسطین کی آبادی 1948 میں 13 لاکھ ستر ہزار تھی جب کہ 2012 کے آخر میں یہ آبادی ایک کروڑ سولہ لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ اس طرح دنیا بھر میں موجود فلسطینیوں کی تعداد قیام اسرائیلسے لے کر اب تک ساڑھے آٹھ گنا بڑھی ہے۔ فلسطینی ادارہ شماریات کے مطابق 1948ءمیں فلسطین کے بڑے حصے پر اسرائیل کے قبضے کی وجہ سے فلسطینیوں نے غزہ کی جانب ہجرت کی اور غزہ کی پٹی دنیا کی سب سے گنجان آباد علاقہ بن گئی۔ اس طرح اس کی گنجانیت نام نہاد اسرائیل سے 11 گنا اور مغربی کنارے سے 10 گنا زیادہ ہے۔ 2012 کے آخر میں فلسطین میں فی کلومیٹر 724 افراد بستے تھے، اس میں غزہ کے ہر کلومیٹر مسافت میں 4583 جبکہ مغربی کنارے کے ہر کلومیٹر میں 475 افراد رہائش پذیر ہیں، دوسری جانب اسرائیل کی گنجانیت فی کلومیٹر 369 افراد ہے۔

1967 سے اسرائیل نے اپنی حدود میں اضافہ شروع کیا اور مغربی کنارے پر بھی قابض ہوکر یہودی بستیاں تعمیر کرنا شروع کردیں۔ 2012 کے آخر تک مغربی کنارے میں یہودی آبادیوں اور بستیوں کی تعداد 482 ہوچکی تھی، 2011 کے آخر تک مغربی کنارے میں آباد یہودیوں کی تعداد پانچ لاکھ 37 ہزار ہو چکی تھی۔ 49.8 فیصد یہودی آباد کار القدس میں بستے ہیں، ان کی تعداد 20 لاکھ 68 ہزار تک جا پہنچتی ہے۔ جن میں سے دو لاکھ یہودی آباد کار مقبوضہ مشرقی القدس میں رہائش پذیر ہیں۔ مغربی کنارے میں اس وقت ہر سو فلسطینیوں کے مقابلے میں 21 یہودی آباد ہیں۔ جبکہ القدس میں یہ نسبت ہر 100 فلسطینیوں کے مقابلے میں 68 یہودیوں کی ہے۔ یہودیوں نے تاریخی فلسطین کے 85 فیصد حصے پر قبضہ کرلیا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اسے صرف فلسطینیوں کا مسئلہ سمجھ کر چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ القدس وہ اہم ترین سرزمین ہے جس پر اسلامی دنیا کی بقا کا دارومدا ہے، اگر خدا نخواستہ فلسطین محفوظ نہیں رہتا تو باقی اسلامی ممالک کی سا لمیت بھی خطرے میں ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 639795 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.