بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں
رہی۔ہندو چونکہ مسلمانوں کو اپنا دشمن قرار دیتے ہیں، اس لیے مسلمانوں کو
نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔آئے روز بے گناہ
مسلمانوں کو گرفتار اور قتل کیا جاتا ہے۔بھارت میں مسلمان اقلیت میں ہیں
اور وہ بھارت میں اپنا کوئی خاص اثرورسوخ بھی نہیں رکھتے اس لیے انہیں
بھارتی حکومت اور سرکاری اداروں کی جانب سے طرح طرح کے مصائب کا سامنا کرنا
پڑتا ہے۔بھارتی ہندوﺅں کی سوچ ہی یہ ہے کہ پکڑے گئے مسلمانوں کو مارنے کا
موقع ملے تو مار ڈالو۔ یہ سوچ جاہلوں کی نہیں بلکہ پڑھے لکھے، قانون داں
اور دانشوروں کی ہے اور یہ لوگ ہمیشہ ہی ماورائے عدالت مسلمانوں کے قتل کے
حامی رہے ہیں۔ یہی سوچ بھارتی پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کی بھی ہے۔ جو ایک
بار پکڑا جائے اسے ماردیا جائے، مسلمانوں کو قتل کرنا ان کے سامنے بہترین
حل ہوتا ہے۔ قاتلوں کو یہ یقین ہوتا ہے کہ قتل کرنے کے بعد ان سے نہ باز
پرس ہوگی اور نہ ہی انہیں سزا ملے گی۔اب تک بے شمار مسلم نوجوانوں کو حراست
میں قتل کیا جاچکا ہے اور اب تک کسی قاتل کا بال بیکا تک نہیں ہوا ہے ۔
اسی طرح گزشتہ چند روز قبل بھارت میں زیر حراست مولاناخالد مجاہد کو
پراسرار طریقے سے قتل کردیا گیا۔بھارتی مسلمان رہنماﺅں کے مطابق خالد مجاہد
بے گناہ تھا اور اسے جھوٹے مقدمات میں پھنسایا گیا تھا۔23 نومبر 2007 کو
اتر پردیش کے تین شہروں لکھنو، فیض آباد اور وارانسی میں سلسلہ وار دھماکے
ہوئے، ان دھماکوں میں 18 افراد ہلاک اور 21 زخمی ہوئے۔بغیر ثبوت کے ان
دھماکوں کے الزام میں طارق قاسمی کو اعظم گڑھ سے اور خالد مجاہد کوجونپور
سے اترپردیش کی ایس ٹی ایف نے اغوا کرلیا۔ 14 دسمبر 2007 کو ڈاکٹر طارق کے
اہل خانہ نے مقامی تھانے رانی سرائے میں گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی۔ 14
مارچ 2008 کو اتر پردیش کے اس وقت کے ڈی جی پی وکرم سنگھ نے چیف سیکرٹری
اترپردیش حکومت کو خط لکھ کر عدالتی تحقیقات کی درخواست کی جس کے بعد اسی
دن اترپردیش حکومت نے نوٹیفکیشن جاری کر کے ریٹائرڈ جج آر ڈی برمن نمیش
کمیشن تشکیل دے دی۔ نمیش کمیشن نے تمام واقعات اور حقائق کی جانچ کی اور 31
اگست 2012 کو جانچ رپورٹ اتر پردیش کی حکومت کو پیش بھی کر دی۔ لیکن کمیشن
کی رپورٹ کو اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا۔ مسلسل احتجاجی دباﺅ کی وجہ سے
حکومت نے ان دونوں نوجوانوں سے تمام مقدمات واپس لینے کا اعلان کردیا اور
عدالت میں درخواست بھی دے دی لیکن بھارتی عدالت نے یوپی حکومت کی درخواست
مسترد کردی۔ کیوں کہ اترپردیش حکومت کی نیت رہا کرنے کی تھی ہی نہیں، اس
لیے اس نے قانونی طریقہ اختیار نہیں کیا۔ پولیس افسران کے خلاف کارروائی کی
سفارش کی گئی تھی جو اترپردیش حکومت کسی قیمت پر نہیں کرنا چاہ رہی
تھی۔بالآخر خالد مجاہد کو پراسرا طور پر قتل کردیا گیا، جسے بھارتی پولیس
نے طبعی موت قرار دیا۔ تمام بھارتی مسلمان رہنماﺅں نے پولیس کے اس بیان کی
تردید کی اور خالد مجاہد کی موت کو قتل قراردیا۔خالد مجاہد کی موت کے بعد
بھارت بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔آل انڈیا تنظیم علماءحق کے قومی صدر
مولانا اعجاز عرفی قاسمی نے خالد مجاہد کی حراستی موت کو جمہوریت کی پیشانی
پر بدنما داغ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب نمیشن کمیشن رپورٹ نے خالد مجاہد کو
بے گناہ قرار دے دیا تو متعصب لوگوں نے رہائی کی دہلیز پر کھڑے ایک بے گناہ
شہری کو اذیت دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بھارتی حکومت کی مسلم دشمنی کا
چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سرکار انتظامیہ میں بیٹھے ہوئے
متعصب اور فرقہ پرست لوگوں نے مسلم نوجوانوں کی آزادی سلب کر کے کھلی فضا
میں سانس لینے پر بھی جھوٹے مقدمات قائم کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے
دھکیلنے کی روش اختیار کررکھی ہے۔اسلامک ڈیفینس سائبر سیل کے صدر اور مسلم
پرسنل لا بورڈ کے ترجمان نے خالد مجاہد کی اس طرح سے موت کی سخت الفاظ میں
مذمت کی اور کہا کہ خالد مجاہد کی موت حراستی قتل ہے۔ائمہ مساجد کونسل کے
سربراہ مولانا قمر اشرفی نے کہا کہ اترپردیش میں جنگل کا قانون چل رہا
ہے۔تقریباً ایک درجن سے زیادہ فسادات ہوچکے ہیں جن میں بے شمار مسلمان قتل
کیے جاچکے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔جمعیت علماءہند ممبئی کے
صدر مولانا عبدالسلام نے کہا کہ خالد مجاہد کا قتل پورے ملک کے لیے نقصان
دہ ہوگا۔ معروف قومی و ملی رہنما مولانا اسرار الحق قاسمی نے بھی خالد
مجاہد کی موت کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی۔جماعت اسلامی ہند کے سربراہ نے
خالد مجاہد کی موت کو انصاف کا قتل بتایا اور جمعیت علماءہند کے جنرل
سیکٹری مولانا محمود مدنی نے خالد مجاہد کی موت پر بھارتی حکومت کو خبردار
کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں نوجوانوں کے خلاف گھناﺅنا کھیل بند کیا جائے۔آل
انڈیا ملی کونسل اور مسلم مجلس مشاورت نے خالد مجاہد کی موت پر گہرے غصے کا
اظہار کیا۔خالدمجاہد کے چچا مولانا ظہیر عالم نے خالد مجاہد کی موت کے سلسے
میں پولیس افسران کے خلاف شکایت درج کروائی ہے۔جبکہ بھارت میں بے قصور
گرفتار کیے گئے مسلم نوجوانوں کو مفت قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم
جمعیة علماءمہاراشٹر (ارشد مدنی) نے پولیس افسران کی معطلی کا مطالبہ کیا
ہے۔انہوں نے کہا کہ کچھ دنوں پہلے خالد مجاہد اور اس کے ساتھی مولانا طارق
قاسمی نے خط کے ذریعے مولانا ارشد مدنی کو اپنے اوپر ہوانے والے مظالم کا
حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ پولیس ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی کارروائی
کرسکتی ہے۔ یو پی کے نمیش کمیشن کی سفارشات میں دونوں کو بے قصور بتایا گیا
تھا ، عدالت انہیں رہا ہی کرنے والی تھی کی اچانک خالد مجاہد پراسرار موت
واقع ہوگئی۔گلزار اعظمی نے کہا ہے کہ انہیںاطلاع ملی ہے کہ خالد مجاہد کو
زہریلا انجیکشن لگا کر قتل کیا گیا ہے۔شاہی امام نے خالد مجاہد کی موت کے
اسباب پر غیر جانبدارانہ انکوائری کا مطالبہ کیا اور کہا کہ سی بی آئی جب
خود سپریم کورٹ میں یہ بات تسلیم کرچکی ہے کہ سرکاری سطح پر اس پر دباو ¿
ڈالا جاتا ہے تو پھر اس کی انکوائری پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے
اعلی سطحی انکوائری ضروری کرائی جائے۔ ساتھ ہی خالد مجاہد کے گھر والوں کو
معاوضہ دیا جائے ۔ شاہی امام نے کہا کہ یو پی سرکار نے جس وقت کیس واپس
لینے کا فیصلہ کیا تھا اس کی بے گناہی ثابت ہوگئی تھی اس لئے نہ صرف گھر
والے معاوضے کے حقدار ہیں بلکہ اس کے کسی ایک عزیز کو سرکاری ملازمت بھی دی
جائے۔
مسلم نوجوانوں کو جھوٹے کیسوں میں پھنسانے کا معاملہ تو اب بالکل طشت از
بام ہو چکا ہے۔ گزشتہ دنوںبھارت میں جاری کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا
گیا تھا کہ بھارتی جیلوں میں 22 فیصد مسلمان قید ہیں اور بعض جیلوں میں تو
مسلمانوں کی تعداد 65 فیصد تک ہے۔یہ وہ واحد جگہ ہے جہاں آبادی کے تناسب
میں اقلیت مسلمان سب سے زیادہ اکثریت میں ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟مسلمانوں
کی حالت دیکھ کر اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ کتنی نا
انصافی ہوئی ہے۔نوجوان تو رہے ایک طرف ِ،بھارتی ہندﺅں کے تعصب کا اندازہ اس
بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خالد مجاہد کو قتل کرنے کے بعد اس کے وکیل محمد
شکیل پر حملہ کر کے اسے شدید زخمی کردیا۔اسی طرح 1993میں بھارت میں ہونے
والے دھماکوں کا الزام ایک خاتون زیب النسا قاضی پر لگایا گیا، انہیں دہشت
گردوں کی معاونت پر پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی ،جس میں سے تین سال
کی سزا پوری کرچکی ہیں،باقی ماندہ عدالت ان کے بڑھاپے کی وجہ سے معاف کر
چکی تھی ،لیکن اب پھر ان کے کیس کوزندہ کرکے باقی سزا پوری کرنے کے لیے جیل
بھیج دیا گیا ہے ۔پچاسی سالہ بوڑھی خاتون زیب النساءجب وہیل چیئر پر اپنے
آپ کو عدالت کے سپرد کرنے آئیں تو انہیں دیکھ کر ہر ایک کو ترس آرہا تھا
لیکن بھارتی پولیس کے دل میں ترس نام کی کوئی چیز نہ تھی۔اب انہیں ایسی جگہ
رکھا گیا ہے جہاں ان کا کوئی تیمار دار نہیں،نہ ہی علاج معالجے کا کوئی
انتظام ہے۔ |