بسم اللہ الرحمن الرّحیم
آج اسلحے کی جنگ کا دور ختم ہوچکاہے۔اسلحے کی جگہ فکری و نظریاتی لڑائی نے
لے لی ہے۔فکری جنگ دو طرح سے لڑی جاتی ہے۔کبھی لوگوں کی توجہ کسی ایک نکتے
پر مرکوز کی جاتی ہے اور کبھی فکری انتشار پیدا کر کے اصلی اور اساسی نکتے
سے توجہ ہٹائی جاتی ہے۔
مثال کے طور پراستعمار نےعرب حکمرانوں کی ساری توجہ ایران کے اسلامی انقلاب
پر متمرکزکی ہوئی ہے اور وہ عربوں کو ایران سے ڈراڈرا کر تیل لوٹ کر لے
جارہے ہیں اور عربوں کو اسلحہ فروخت کررہے ہیں۔
گزشتہ کئی سالوں سے عربوں کی ساری توجہ ایران پر لگی ہوئی ہے اور وہ اس بات
سے مکمل طور پر غافل ہیں کہ استعماری دنیا انہیں بیوقوف بناکر ان کا تیل
لوٹ رہی ہے۔اگر عرب حکمرانوں کی فکر سے استعماری پہرہ ہٹادیاجائے تو عربوں
کو صاف نظر آئے گا کہ اصل طاقت استعمار کےجنگی ہتھیار وں میں نہیں بلکہ
عربوں کے تیل میں ہے۔
استعمار کے ہاتھوں فکری طور پر مغلوب ہونے کے باعث عرب ہیرے سے زیادہ قیمتی
تیل کو نیلام کررہے ہیں اور کچرے سے زیادہ بے قیمت اسلحے کو دھڑادھڑ خرید
رہے ہیں۔
آج اکثر عرب حکمران یہ سوچنے پر بھی تیار نہیں ہیں کہ ان کی اصل دولت تو لٹ
رہی ہے،ان کے معدنی زخائر مکمل طور پر غیروں کے ہاتھوں میں ہیں،ان کے سیاسی
و اقتصادی فیصلے امریکہ اور یورپ میں ہوتے ہیں،ان کے دل میں اسرائیل کا
ناسور جنم لے چکاہے اوران کی رگِ جاں بلامبالغہ پنجہ یہود میں آچکی ہے ۔
عرب حکمرانوں کی اس فکری غلامی کے باعث اس صدی میں پوری دنیا میں عالمِ
اسلام کی وحدت کو سخت دھچکالگاہے ۔
حقیقتِ حال یہ ہے کہ استعمار سے ہم آہنگی کے طور پرعرب بادشاہوں نے اسلام
کو ایک آلے کے طور استعمال کیا ہے۔دنیا میں جتنے بھی پرتشدد واقعات ہوئے ان
میں سلفیت اور وہابیت کے چہرے کوباقاعدہ منصوبے کے طورپر سامنے
لایاگیاہے۔حالانکہ اگر دہشت پسندوں کے چہرے سےاسلام کاماسک ہٹادیاجائے تو
پیچھے خود امریکہ اور سعودی عرب کے حکمرانوں کا چہرہ نظر آتاہے۔
استعماری طاقتیں عرب حکمرانوں کو ایران سے ڈراکر ایک تو ان کے معدنی ذخائر
لوٹ رہی ہیں اور دوسرے عرب حکمرانوں کے ذریعے سلفیت اور وہابیت کو پرتشدد
کاروائیوں میں استعمال کرکے لوگوں کو اسلام سے متنفر کررہی ہیں۔
یہ ساراظلم اس لئے ہورہاہے کہ استعماری طاقتوں نے عرب حکمرانوں کو فکری طور
پر محبوس کررکھاہے۔اب ذرا پاکستان میں آجائیں اور یہاں کی صورتحال کا جائزہ
لیں۔ہمارے ہاں لوگوں کی فکر کو منتشر کر کے مقاصد حاصل کئے جاتے ہیں۔
ہر روز مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ایک طرف تو دوسری طرف کارخانوں کے بند
ہونے کی خبریں،بم دھماکوں کے ساتھ ساتھ ٹارگٹ کلنگ کا خوف،کہیں پر
سیاستدانوں کے اختلافات اور کہیں مذہبی رہنماوں کی ہاتھاپائی۔ہم سب
پکڑدھکڑ،ماردھاڑ،کرپشن ، لوٹ مار،دھونس دھاندلی اور سرکاری و غیرسرکاری
دہشت گردی میں اس قدر جکڑے ہوئے ہیں کہ ایک عام پاکستانی کو یہ سوچنے کی
فرصت ہی نہیں کہ وہ اپنے ملک کے اساسی مسائل کی طرف غوروفکرکرے۔
آپ صرف الیکشن کے مسئلے کو ہی لیجئے،انتخابات کے دوران ہمارے ہاں اس قدر
فکری انتشار عروج پررہا کہ عام لوگوں کو کچھ سجھائی ہی نہیں دے رہاتھا کہ
وہ کیا کریں اورکس کی بات مانیں ۔ایک ہی مکتب،ایک ہی فرقے اور ایک ہی مسلک
کے اندر اتنا فکری انتشار پھیلاہواتھاکہ عام پاکستانی کے لئے درست فیصلے کی
تشخیص دینا ہی تقریبا ناممکن ہوگیاتھا۔
ہمارے ہاں کئی سالوں پر محیط اس فکری انتشار کانتیجہ دیکھئے کہ اب ہمارے
سیاستدان بھی ہم سے صرف روٹی کپڑے اور مکان کی بات کرتے ہیں،کوئی ہمیں یہ
یقین دلاتاہے کہ میں سعودی عرب کو ہر حال میں خوش کروں گا اور کوئی ہمیں یہ
پیغام دیتاہے کہ میں ایران کی گود سے نہیں نکلوں گا اور کوئی ہمیں یہ
کہتاہے کہ میں امریکہ اور یورپ کا اصلی پٹھو ہوں لہذا میں ہی سارے مسائل کا
مشکلکشاءہوں۔
ہم انہی فرعی اور مصنوعی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اور ہمارے ہاں کے معدنی
ذخائر بھی اس وقت غیرملکی کمپنیاں دیمک کی طرح چاٹنے میں مصروف ہیں ،ہمارے
بہترین طالب علموں کو امریکہ اور یورپ ملازمتیں دے کر ان سے فائدہ اٹھارہے
ہیں لیکن ہمیں اس کااحساس ہی نہیں،ہم نے اپنی شہ رگ کشمیر کو فراموش
کردیاہے اور اب ہماری نئی نسل کے حافظے سے یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے محو
ہوتاجارہاہے لیکن ہمارے پاس اس مسئلے کے حل کے لئے سوچنے کی فرصت ہی
نہیں۔ہمیں نظریہ پاکستان کو بھولے ہوئے ایک عرصہ ہوگیاہے اور اب ہمارے پاس
اسے دہرانے کا وقت ہی نہیں۔
اس وقت پوری دنیا میں اس فکری جنگ کا بہترین ہتھیار میڈیاہے۔میڈیا صرف ٹیلی
ویژن ،ریڈیو،اخبار یا ویب سائٹ ہی نہیں بلکہ ہماری اپنی گفتگو اور کردار و
رفتاربھی ایک میڈیاہے۔البتہ تیز ترین اورموثرترین میڈیا الیکٹرانک میڈیاہی
ہے۔آپ الیکٹرانک میڈیا کا جائزہ لے کردیکھیں کہ استعماری قوتیں مختلف نیٹ
ورکس کے ذریعے پوری امت مسلمہ کی فکر پرکیسے منظم طریقے سےکام کررہی
ہیں۔لوگوں کے دماغوں میں یہ بیج بویاجارہاہے کہ مسلمان علماء اور اسلام سے
نفرت کریں یعنی یہ کوشش کی جارہی ہے کہ مستقبل کا مسلمان نام کا تو مسلمان
ہو لیکن اسلام کو ضابطہ حیات نہ سمجھے اورفکری طور پر کیمونسٹ یا سیکولر بن
جائے ۔اس وقت اس منصوبے پر عمل در آمد کے لئےدنیائے اسلام میں فرقہ واریت
اورشدت پسندی کو مختلف طریقوں سے راسخ کیاجارہاہے جبکہ اس کے مقابلے میں
میڈیا کی دنیامیں عالمِ اسلام کی طرف سے اسلام کادفاع کرنے والےلوگ ۵
گروہوں میں تقسیم ہیں۔
پہلا گروہ وہ ہے جو میڈیا کے اندر موجودہے لیکن اسلامی نظریات و افکار سے
آشنا نہیں ہے۔
دوسرا گروہ وہ ہے جو اسلامی نظریات و افکار پر مسلط ہے لیکن میڈیاکے اسرار
و رموز سے آگاہ نہیں ہے۔
تیسراگروہ وہ ہے جو اسلامی نظریات و افکار پر بھی مسلط ہے اور میڈیا کے
اسرارورموز سے بھی آگاہ ہے لیکن اس میں دین کا اس طرح سے درد نہیں ہے جیسے
ہوناچاہیے۔
چوتھا گروہ وہ ہے جس کے پاس اسلامی نظریات و افکار،میڈیا کے اسرارورموز اور
دین کادرد سب کچھ موجود ہے لیکن وسائل نہیں ہیں یا محدود ہیں۔
پانچواں گروہ وہ ہے جس کے پاس اسلامی نظریات و افکار،میڈیا کے اسرارورموز،
دین کادرد اور وسائل سب کچھ موجود ہے لیکن یہ گروہ مختلف اکائیوں میں تقسیم
ہے۔
عالمِ اسلام کو موجودہ بحرانات سے نجات دلانے کے لئے اس فکری آتش فشاں کو
قابوکرنابہت ضروری ہے۔عالمِ اسلام کی باہمی غلط فہمیوں کو دور کرنے اور
عالمِ کفر کی چالوں کو سمجھنے کے لئے ایک عالمی اسلامی میڈیائی نیٹ ورک کی
ضرورت ہے۔ایک ایسا نیٹ ورک جوممالک اور مسالک کی تفریق سے بالاتر ہو اور
امت مسلمہ کی نظریاتی و فکری رہنمائی کرے۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ فکری جنگ
میں کبھی تو لوگوں کی فکر کو کسی ایک نکتے پر لگاکراور کبھی منتشر کرکے
اپنے مقاصد حاصل کئے جاتے ہیں اوراگر یہ سلسہ جاری رہا تو مسلمانوں کے ہاں
نام کے مسلمان لیکن فکر کے دہشت گرد ،کیمونسٹ اور سوشلسٹ مسلسل جنم لیتے
رہیں گے۔ غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کے اس دور میں اس فکری آتش فشاں کو قابو
کرنے کی تگ و دو کرنا ہم سب کی دینی و ملّی ذمہ داری ہے۔ |