عمران خان کلین سویپ کیوں نا کر سکے؟

عمران خان نے الیکشن میں کلین سویپ کے بہت دعوے کیے حتٰی کہ انھوں نے لکھ کے بھی دے دیا کہ انشاء اللہ تحریکِ انصاف  انتخابات میں کلین سویپ کرے گی لیکن آخر میں ایسا نہ ہو سکا۔ میری نظر میں اس کی کئی وجوہات ہیں اور وہ وجوہات اندرونی ہیں دوسرے لفظوں میں تحریکِ انصاف نے خود ہی اپنے آپ کو شکست دی۔ پاکستان کی سیاست کہ ایک طالبعلم کی حیثیت سے میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ تحریکِ انصاف ایک یقینی سویپ کی طرف جا رہی تھی۔ یہ واقعی ایک یقینی کامیابی تھی جو تحریکِ انصاف نے گنوا دی۔ میری ںطر میں اسکی کئی وجوہات ہیں.

● تیس اکتوبر کے جلسے کے بعد۔۔۔

سب جانتے ہیں کہ تیس اکتوبر تک تحریکِ انصاف میں ایک بھی بڑا سیاسی نام نہیں تھا۔ پھر کیا وجہ تھی کہ تحریکِ انصاف لاہور میں تیس اکتوبر کو پاکستان کی تاریخ کا ایک بڑا جلسہ کرے میں کامیاب ہوئی؟ اس کی وجہ تبدیلی کا وہ نعرہ تھا کہ کوئی بھی پرانا چہرہ پارٹی میں شامل نہیں ہوگا۔ پرانے لوگوں سے اکتائے ہوئے سب لوگ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہو گئے لیکن جب اس کامیاب جلسے کہ بعد لوگوں نے دیکھا کی عمران خان کے ایک طرف شاہ محمود قریشی اور دوسری طرف جاوید ہاشمی بیٹھے ہیں اور ان کے پیچھے قطار میں خورشید قصوری، جہانگیر ترین اور ایسے اور لوگ موجود ہیں تو بہت سے لوگ پارٹی سے بد دل ہو گئے۔ بیشک یہ لوگ کردار کے صاف ہیں لیکن یہ لوگ ہمیشہ سے اس نظام کو حصہ ضرور رہے ہیں جس کہ خلاف لوگ تیس اکتوبر کو جمع ہوئے تھے۔

● پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم۔۔۔

بلا شبہ عمران خان نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اسی فیصد نئے لوگوں کو ٹکٹ دیا لیکن ان میں سے بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو اپنے علاقوں میں اچھی شہرت نہیں رکھتے تھے اور بعض پر تو مقدمات بھی تھے۔ ان کی جگہ صاف کردار کے لوگوں کو ٹکٹ دیا جاتا تو زیادہ اچھے رزلٹ مل سکتے تھے۔

● انتخابی سیاست سے نا واقفیت۔۔۔

تحریکِ انصاف ایک نئی جماعت ہے اور اس کے کارکنوں کا جوش و ولولہ بہت شاندار ہے۔ لیکن اس میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو پہلی بار اپنا ووٹ ڈالنے جا رہے تھے ان میں جوش تو تھا لیکن الیکشن کے حوالے سے ان کی کوئی ٹریننگ نہیں تھی اور نہ ہی تجربہ تھا۔ اس کا بھرپور فائدہ مسلم لیگ نواز سے اٹھایا جو تیس سال سے اقتدار میں ہے اور اس کے ورکرز الیکشن کے پورے عمل سے آگاہ ہیں۔

●منفی الیکشن مہم۔۔۔

عمران نے جس طرح دو ہفتوں میں پچاس سے زیادہ کامیاب جلسے کیے بیشک ان کے علاوہ اور کوئی ایسا نہ کر سکتا تھا۔ نون لیگ کی الیکشن کمپین نوازشریف، شہاز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، سلمان شہباز وغیرہ نے مل کر چلائی لیکن پھر بھی عمران خان کے برار جلسے نہ کر سکے۔ لیکن میری نظر میں تحریکِ انصاف کی الیکشن مہم میں جو کمی تھی وہ یہ کہ بجائے اس کے کہ عمران اپنی پالیسیاں بتانے پہ زیادہ زور دیتے انھوں نے نون لیگ پہ تنقید پہ زیادہ وقت صرف کیا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ نون لیگ کہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی کہ عمران خان صرف ہمارے مخالف ہیں اور اگر پنجاب میں انھوں نہ ہمارا ووٹ بینک توڑ دیا تو زرداری دوبارہ اقتدار میں آجایئں گے۔ پیپلز پارٹی کہ ہاتھوں ستائے ہوئے لوگوں کہ لیے یہ ایک خوفناک بات تھی جو نون لیگ بہرحال لوگوں کہ دلوں میں بٹھانے میں کامیاب ہو گئی۔

● سندہ اور بلوچستان کو نظر انداز کرنا۔۔۔

الیکشن رزلٹس بتاتے ہیں کہ سندہ خصوصا کراچی کہ لوگ تبدیلی چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ انھیں پی پی پی اور نون لیگ کہ علاوہ کوئی چوائس ملے لیکن تحریکِ انصاف نے ان صوبوں کو یکسر نظر انداز کر دیا اور اپنی الیکشن مہم کا سارا فوکس صرف پنجاب تک محدود کردیا۔ اگر سندھ پر تھوڑی سی بھی محنت کر لی جاتی تو ١٥ سے ٢٠ یقینی سیٹیں وہاں سے جیتی جا سکتی تھیں۔

● عمران خان کا زخمی ہونا۔۔۔
بہت سے لوگوں کا اندازہ تھا کہ اس سے ہمدردی کا ووٹ ملے گا لیکن میری نظر میں اس سے الیکشن مہم کے دو انتہائی اہم دن ضائع ہو گئے کیوں کے عمران خان کے بعد پارٹی میں کوئی ایسا عہدیدار نہیں تھا جو الیکشن مہم کو چلا سکے۔ جس رات عمران خان زخمی ہوئے اس دن لاہور میں ان کے چھ جلسے تھے جو منسوخ ہو گئے۔

● دھاندلی۔۔۔

بعض حلقوں میں یقینا دھاندلی ہوئی جس کہ ثبوت بھی موجوہ ہیں اور اس سے تحریکِ انصاف کو دس سے پندرہ نشستوں کا نقصان ہوا لیکن مجموعی طور پر صرف دھاندلی کو ہی شکست کی وجہ قرار دینا درست نہیں ہوگا۔ کیوں کہ ہار کے بعد جیت کی طرف پہلا قدم یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنی غلطیوں کی نشاندہی کرکے انھیں تسلیم کریں اور آئندہ کا لائحہ عمل تیار کریں۔

● مستقبل کا لائحہ عمل۔۔۔

یہ خوشی کی بات ہے کہ تحریکِ انصاف خیبر پختونخواہ میں حکومت بنانے جارہی ہے لیکن یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ حکومت چلانے کہ حوالے سے یہ پاکستان کا مشکل ترین صوبہ ہے جہاں سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے۔ یہ ایک دو دھاری تلوار ہے اگر تحریکِ انصاف وہاں ایک کامیاب حکومت دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو مستقبل میں وفاق کا انتظام بھی تحریکِ انصاف کے پاس ہوگا لیکن اگر ایسا نہ ہو سکا تو تحریکِ انصاف بہت مشکلات سے دو چار ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں پہلے الیکشن کون سی پارٹی کم بری ہے کی بنیاد پہ ہوتے تھے لیکن آئندہ الیکشن مکمل طور پر کارکردگی کی بنیاد پر ہوں گے کیوں کہ پنجاب اور مرکز میں نون لیگ کی حکومت ہے، سندھ میں پیپلز پارٹی اور خیبر پختونخواہ میں تحریکِ انصاف۔ ان میں سے جس پارٹی کی کارکردگی سب سے بہتر ہوئی اگلا الیکشن جیتنا اس کے لیے آسان ہو جائے گا اور سب سے خراب کارکردگی والی پارٹی کا حال موجودہ پیپلز پارٹی کہ حال سے بھی برا ہوگا۔

Muhammad Tahseen
About the Author: Muhammad Tahseen Read More Articles by Muhammad Tahseen: 11 Articles with 12293 views Muhammad Tahseen (MBA, HRM).. View More