صاحب، شاید ہی ایسا کوئی اللہ کا ولی ہو جسے اوّل آنے سے خوشی نہ ملتی ہو
مگر جناب، مُشاعرہ وہ واحد جگہ ہے جہاں اوّل کلام پڑھنا کوئی بھی شاعر پسند
نہیں کرتا۔ اس کی وجہ جُملہ شُعراء کا وہ خیالِ خام ہے جس کے مُطابق ابتداء
میں کلام پڑھنے والا لازماً معمولی نوعیت کا شاعر ہوتا ہے، حالانکہ ہماری
رائے میں شعر کی بُلندی کا معیار عُروض کے قواعد، اوزان کی دُرُستگی، الفاظ
کا مُناسب چُناؤ، صحیح تلفُظ اور اعلیٰ خیال ہونا چاہیئے مگر کیا کریں کہ
ہماری تو کوئی گھر پر نہیں سُنتا باہر کیا خاک سُنے گا؟
اگر ہم سے پُوچھا جائے تو ہماری دانست میں مُشاعروں میں پہلی بے ادبی ہی یہ
ہوتی ہے کہ چھوٹے یعنی جونئیر شُعراء، بڑوں یعنی سینئیر شُعراء کی موجُودگی
میں لب کُشائی کریں، کیونکہ ہمارے مشرقی مُعاشرے میں چھوٹوں کا بڑوں کے
سامنے لب کھولنا بے ادبی سمجھا جاتا ہے مگر کیا کیجئیے کہ اہلِ ادب کی بزم
کا دستور قدرے مُختلف ہے۔
کیونکہ شعر گوئی کے بعد اگلی منزل داد کا حصول ہوتا ہے جس میں نئے شاعر
حضرات کو اہلِ ادب کے نسبتاً بے ادب رویئے کو جھیلنا پڑتا ہے اَس لئے ذیل
میں ہم اپنے “وسیع“ تجربے کی بُنیاد پر نوواردگانِ ادب کو چند مُفت مشوروں
سے نواز رہے ہیں تاکہ سَند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔
سب سے پہلی اور سب سے اہم بات تعلقاتِ عامہ ہے۔ بغیر پی آر یعنی پبلک
ریلیشن کے نہ تو آپ مُشاعروں میں درخوراعتنا سمجھے جائیں گے اور نہ علمی و
ادبی اخبارات و جرائد میں آپ کو جگہ ملے گی۔ ہمارے ایک مزاح نگار دوست اِک
مُشاعرے میں اپنا کلام سُنا کر داد کے طلبگار ہوئے تو ایک بڑے شاعر نے آواز
لگائی “ہم آپ کو داد کیوں دیں، ہمارے تو آپ سے مراسم ہی نہیں ہیں؟“ اس پہ
ہمارے مزاح نگار دوست نے اسٹیج پر سے جواب دیا “حضرت میں داد کا خواستگار
ہوں، رشتے کا نہیں، جو جان پہچان ضروری ہو“ پھر اس کے بعد وہی ہوا کہ جُملہ
فریقین نے ایک دوسرے کے خاندان بشمول اہل خانہ کے بارے میں اپنی اپنی
گرانقدر معلومات کا تبادلہ کیا اور باہم ادبی گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوئے۔
شُعراء حضرات سے تعلقات بنانے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ کسی بزعمِ خود
بڑے شاعر کے تلامذہ میں جگہ بنا لیجئے۔ مذکُورہ شاعر آپ کو مُشاعروں میں
اپنا حاشیہ بردار بنا کر لے جائے گا اور مجبوراً دیگر شعراء سے آپ کا تعارف
بھی کروائے گا۔ یوں آپ کے تعلقات میں اضافہ ہوگا۔ مُمکن ہے کہ ابتداء میں
آپ کو مُشاعروں میں پڑھنے کا موقعہ نہ ملے، اس کے لئے یہ کیجیئے کہ عین
دورانِ مُشاعرہ اپنے اُستاد کی بیاض چھُپا دیجیئے، لیکن پہلے اُستاد کی ایک
دو عُمدہ غزلیں خوشخط کر کے اپنے پاس الگ رکھ لیجئے، جب اُستادِ مُحترم
اپنی بیاض نہ پا کر جُز بُز ہورہے ہوں تب ہی چُپکے سے اُستادِ مُحترم کی
خوشخط کردہ غزلیں یہ کہہ کر اُستاد کے حوالے کیجئے کہ میں تو آپکے کلام کو
ہمیشہ سے سینے سے لگا کر رکھتا ہوں۔ اِس طرح اُستادِ مُحترم کے دل میں آپ
کے لئے جگہ اور دیگر تلامذہ کے لئے بُغض میں اضافہ ہوگا۔
اگلا مشورہ یہ ہے کہ جُملہ سینئر شعراء کا کلام کبھی غور سے نہ سُنیں
کیونکہ ایسا کرنے پہ شاید آپ کو اُن کے کلام میں موجود خامیاں، کھُل کر داد
نہ دینے دیں۔ ہمیشہ سینئر شُعراء کو اُچھل اُچھل کر، دل اور منہ کھول کھول
کر داد دیجئے، اَس طرح ایک تو آپ کے ذوقِ ادب کی تصدیق ہو جائے گی دُوسرے
مُروتاً سینئر شُعراء بھی اگلی بار آپ کے کلام پر داد ضرور دیں گے۔
جب بھی کلام سُنائیں، اُونگھتے ہوئے سینئر شُعراء کو نام سے مُخاطب کر کے
کوئی نہ کوئی شعر اُن کی نذر کریں، اور ساتھ ہی ساتھ اُن کے ادبی ذوق کی
تعریف بھی کریں اس طرح ایک تو دیگر شُعراء آپ کا کلام غور سے سُنیں گے اور
اگر غور سے نہ بھی سُنیں تو کم سے کم داد ضرور دیں گے اور آپ شاعر یا شاعرہ
بنے ہی داد لینے کے لئے ہیں ورنہ کوئی پان کی دُکان یا مُحلے میں کمیٹی کا
سلسلہ نہ شروع کردیتے؟
اپنا کلام لکھا ہوا نہ پڑھیں بلکہ ہم تو یہ کہیں گے کہ کلام بے شک کسی اور
سے لکھوا لیں مگر سُنائیں زبانی، ورنہ لوگ یہی سمجھیں گے کہ اُن کی طرح
ہمارا مطلب ہے کچھ شعراء کی طرح آپ نے بھی کسی اور سے کلام لکھوایا ہے۔ شعر
بے شک اخلاق سے گر جائیں لیکن وزن سے ہرگز نہ گریں۔ زیادہ مُناسب ہے کہ
شباب، وصل اور دیگر خلوتی واردات کا تذکرہ “وارداتیئے“ انداز میں کریں تاکہ
سُننے اور پڑھنے والے احباب کی ذہنی عیاشی کا سامان بھی مُہیا ہو سکے۔
اپنے چند مُنتخب اشعار اور غزلوں کو اتنی بار دُوہرائیے کہ سُننے والے آپ
کے کلام کو بخوبی یاد کرلیں۔ اب ہر بار نئی تخلیق کا تَکلّف تو وہ کرے جس
کے لئے ہر بار نئے حاضرین ہوں۔ مختصر یہ کہ ہر بار ایسے کلام سُنائیے جیسے
پہلی بار سُنا رہے ہوں اور ہر بار ایسے داد سمیٹئیے جیسے آخری بار داد سمیٹ
رہے ہوں۔
غالب، میر اور دیگر بُلند مرتبہ شُعراء کا تذکرہ حقارت آمیز انداز میں
کیجئے۔ یقین جانئے کہ وہ تمام شُعراء محض اِس لئے اساتذہ کہلائے کہ وہ آپ
کے دور سے پہلے پیدا ہوئے تھے وگرنہ آپ کی تبحّرِ علمی اُن تمام شُعراء کو
آپ کا نقشِ کفِ پا بننے پر مجبور کردیتی۔
جیسے جیسے آپ مشہور ہوتے جائیں، سینئر شُعراء کے کلام پر بھی داد دینا کم
کردیجئے (جونئر شعراء کو تو آپ پہلے ہی انسانوں کی گنتی سے خارج کر چُکے
ہوں گے) اگر کبھی کسی شعر پہ داد دینے کو طبیعت بہت زیادہ مچل ہی جائے تو
ایک لمبی سی ہوں کر دیجئے اس سے احباب کو لگے گا کہ آپ شعر کے معانی و
مطالب پہ غور و تفکّر کر رہے ہیں۔ آنکھیں بند کر کے مراقبہ کا پوز بنائیے
اور ایک نیند لے کر اُٹھ جایئے، جتنی دیر میں آپ نیند سے بیدار ہوکر تازہ
دم ہوں گے، کئی ایک نوواردگانِ ادب بھُگتائے جا چُکے ہوں گے۔
اب آپ اچھے خاصے مشہور ہو چُکے ہیں اِس لئے مُشاعروں میں قدرے دیر سے جائیے
اور اپنے ساتھ تلامذہ کی ایک فوجِ ظفر موج لے کر جائیے۔ اس فوج کا اصل کام
یہ ہوگا کہ آپ کے کلام کے دوران کسی کو بھی سونے نہ دے اور گلا پھاڑ پھاڑ
کر وقتاً فوقتاً داد کے نام پر شور شرابہ کرتی رہے۔ اس کے علاوہ آپ کی فوج
مخالف شُعراء پہ ہُوٹنگ کرنے اور دیگر شُعراء کا مذاق اُڑانے کا فریضہ بھی
انجام دے گی تاکہ کوئی شاعر اپنا زیادہ کلام نہ سُنا سکے اور مُبادہ آپ سے
زیادہ داد نہ سمیٹ لے۔
نوٹ::اگر مذکُورہ بالا تراکیب کسی دوست کے لئے باعثِ نفع ثابت ہوں تو ہمیں
ضرور مُطلع کیجئے گا تاکہ ہم بھی ان تراکیب پہ عمل کر کے بڑے شاعر بن سکیں۔ |