صدر زرداری نے ایف بی آر کی جانب سے ٹیکسوں میں بے تحاشا اضافہ پر مبنی منی
بجٹ مسترد کر دیا ہے اور اسے صدارتی حکمنامہ کے ذریعہ تحفظ دینے سے انکار
کر دیا ہے۔ اس منی بجٹ میں تمام اشیاءپر سیلز ٹیکس کی شرح 16فیصد سے بڑھا
کر17فیصد کردی گئی ہے اور غیر رجسٹرڈ کو مال فروخت کرنے کی صورت میں یہ
سیلز ٹیکس مزید 2فیصد اضافہ سے 19فیصد ادا کرنا ہوگا۔ منی بجٹ میں پہلی بار
شادی بیاہ کی تقریبات سے مذاکرہ، نمائشوں پر ان کے اخراجات اورآمدنی کے 5
فیصد کے مساوی ودہولڈنگ (انکم ٹیکس) عائد کیا گیا ہے، جبکہ چیکوں کے ذریعہ
بینکوں سے رقوم نکالنے پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح 0.02 فیصد سے بڑھا
کر0.03فیصد کردیا گیا ہے۔ اسی طرح لازمی ضرورت جن 284 آئٹمز پر درآمدی
ڈیوٹی نہیں جن میں ادویات، بچوں کا خشک دودھ، بجلی شامل ہے، ایک فیصد ڈیوٹی
عائد کردی گئی۔ مجوزہ منی بجٹ میں ملک میں پہلی بارکرایہ کی آمدنی پر بھی
ودہولڈنگ ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ 20لاکھ روپے سے 30لاکھ روپے تک کی کرایہ کی
سالانہ آمدنی پر یہ ودہولڈنگ ٹیکس 12.50فیصد اور30لاکھ روپے سے زائد آمدنی
پر15فیصد عائد کیا گیا ہے۔ ایف بی آر نے اس منی بجٹ کی تیاری اور منظوری
مسلم لیگ کے مجوزہ وزیر خزانہ اسحق ڈار سے لے لی تھی اور اسے سمری کے ساتھ
صدارتی حکمنامہ جاری کرنے کیلئے وزارت خزانہ کے توسط سے ایوان صدر ارسال
کردیا تھا ان اقدامات سے فاضل آمدنی کا تخمینہ ایک کھرب 52 ارب روپے لگایا
گیا ہے۔
یاد رہے کچھ روز قبل نگران حکومت اپنی آمدن بڑھانے میں ناکام ہوگئی تو اس
کی سزا عوام کو دینے کا فیصلہ کیا تھا، ایف بی آر نے ٹیکسوں میں اضافے کا
مسودہ صدر پاکستان کو بھیجا جس پر دستخط ہونے کے بعد یہ آرڈیننس بن جانا
تھالیکن عوام نے اس اضافے کے خلاف شدید احتجاج کیا۔صنعتی حلقوں نے صدارتی
حکم نامے کے ذریعے سیلز ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں مزید ایک فیصد
اضافہ کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اسے ٹیکسٹائل سیکٹر کی تباہی کا ذمہ دار
قرار دیا، صنعتی حلقوں کاکہنا تھا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر پہلے ہی توانائی بحران
اور فنڈز کی کمی کا شکار ہے، سیلز ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس میں اضافہ سے
ٹیکسٹائل صنعت مشکلات کا شکار ہوگئی ہے، ریفنڈز کی مد میں برآمدی صنعت کے
اربوں روپے پہلے ہی حکومت کے ذمہ واجب الادا ہیں۔صنعتی حلقے کہتے ہیں کہ
سیلز ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس میں اضافہ سے ان کی رقم کا بڑا حصہ ریفنڈ کی
صورت میں رک جائیگا،اس کے علاوہ صنعتی پیداواری قیمتیں بڑھیں گی،برآمدات کا
حجم کم کرنے اور غیرقانونی طریقہ سے کام کرنے اور کروانے کا سلسلہ پروان
چڑھے گا۔ موجودہ حالات میں پیداواری لاگت میں اضافہ ٹیکسٹائل سیکٹر کیلئے
بڑا مسئلہ ہے،سیلز ٹیکس زیرو ریٹنگ ختم کرنے جیسے اقدامات قومی معیشت اور
برآمدات تباہی کے دہانے پر لے جانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ
وہ ٹیکس اور برآمدی پالیسی بنانے سے پہلے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرے،تاکہ
ٹیکس وصولی کے عمل کو تقویت مل سکے۔کراچی کے ریٹیلرز اور صارف انجمن نے
اشیا پر سیلز ٹیکس کی شرح ایک فیصد بڑھا کر 17 فیصد کیے جانے کے فیصلے کی
مذمت کرتے ہوئے اسے تجارت اور صارف دشمن فیصلہ قرار دیا۔کراچی ریٹیل گراسرز
گروپ کے جنرل سیکریٹری محمد فرید قریشی کا کہنا تھا کہ حکومت مہنگائی میں
کمی کی بجائے مہنگائی میں اضافے کے اقدامات کررہی ہے جس سے تجارتی سرگرمیوں
بالخصوص ریٹیل کی سطح کا کاروبار بھی متاثر ہوگا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے
سبب صارفین کی قوت خرید جواب دے چکی ہے اور اب ماہانہ راشن کی بجائے یومیہ
اور ہفتہ وار بنیادوں پر ضرورت کی اشیا خریدنے کا رجحان بڑھ رہا ہے، اسی
طرح اشیا کی بڑی پیکنگ کی بجائے ساشے پیکنگ کی فروخت بڑھ رہی ہے، اس
صورتحال میں بجٹ سے قبل آرڈیننس کے ذریعے عوام پر مہنگائی بم گرائے جانے سے
صارفین کی رہی سہی سکت بھی ختم ہوجائیگی۔ کنزیومر رائٹس پروٹیکشن کونسل کے
چیئرمین شکیل احمد بیگ نے سیلز ٹیکس میں اضافے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے
سیلز ٹیکس کی شرح 10 فیصد تک لانے کا مطالبہ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ دنیا
بھر میں اشیا خورد و نوش کی قیمت کم مقرر کی جاتی ہے تاکہ معاشرے میں کم
آمدن والا طبقہ بھی اپنی غذائی ضروریات پوری کرسکے، اس کے برعکس پاکستان
میں کھانے پینے کی اشیا روز بہ روز مہنگی ہورہی ہیں، ایک جانب حکومت خود
اپنے مقرر کردہ سرکاری نرخ پر عمل درآمد کرانے میں ناکام ہے تودوسری جانب
سیلز ٹیکس میں شرح میں اضافے جیسا ظالمانہ فیصلہ کرکے عوام کو مہنگائی کے
سمندر میں غرق ہونے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس فیصلے سے کاروباری طبقے کی
مشکلات میں اضافہ ہوگا اور براہ راست اثر غریب طبقے پر مہنگائی کی شکل میں
مرتب ہوگا۔ آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر نے نگران حکومت کی
جانب سے جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے کے اعلان کو انتہائی مایوس کن اور
نومنتخب حکومت کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نگران حکومت کے فیصلے
مستقبل میں نومنتخب حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں ، نگران حکومت کے
فیصلوں کے پسِ پ ±شت کوئی خفیہ ہاتھ متحرک ہے۔
متعدد سیاسی رہنماﺅں نے نگران حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے منی بجٹ
پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی اور کہا کہ ٹیکس
اہداف حاصل کرنے میں ناکامی پر منی بجٹ پیش کرنا عوام کے ساتھ سراسر ظلم و
زیادتی ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔ جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 16 سے
بڑھا کر 17 فیصد کرنا عوام کا معاشی قتل عام ہے، عوام کی زندگی جو پہلے ہی
مصائب و مشکلات سے دوچار ہے، ان کے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔ سابق حکومت
کی عاقبت نااندیشانہ پالیسیوں کے نتیجے میں پہلے ہی ملک میں غربت، مہنگائی
اور بے روزگاری کا سیلاب ہے، عوام بنیادی ضروریات زندگی تک سے محروم ہیں،
مہنگائی کی شرح آسمان کو چھو رہی ہے، غریب عوام کیلیے دو وقت کی روٹی کا
حصول ناممکن ہوگیا ہے۔ ایسے میں منی بجٹ پیش کرنا اورجنرل سیلز ٹیکس میں
اضافہ کرنا عوام کو مشتعل کرنے کی کوشش ہے۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن
پنجاب زون کے چیرمین ریاض قدیر بٹ نے جنرل سیلز ٹیکس کو 17فیصد کی سطح تک
لے جانے کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔
دوسری جانب نئی حکومت کی آمد سے قبل مہنگائی کا جن بے قابو، رواں ہفتے کے
دوران گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں کم آمدنی والے افراد کے گروپ کیلئے قیمتوں
کے حساس اشاریے (ایس بی آئی) میں 0.06 فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔ ادارہ برائے
شماریات پاکستان (پی بی ایس ) کے جمعہ کو جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق
دوران ہفتہ 8 اشیاءکی قیمتوں میں کمی جبکہ 28 اشیاءکی قیمتوں میں استحکام
اور 17 اشیائے ضروریہ کی قیمتو ں میں اضافہ ریکارڈ کیاگیا ہے ۔ رپورٹ کے
مطابق گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں رواں ہفتے کے دوران پیاز‘ لہسن ‘ انڈوں اور
سرخ مرچ وغیرہ کی قیمتوں میں کمی جبکہ چاول‘ روٹی ‘ خشک دودھ ‘ گوشت اور
کوکنگ آئل سمیت مختلف 28 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں استحکام اور ٹماٹر ‘
کیلے ‘ آلو‘ چائے‘ چینی اورگڑ وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے ۔ پی
بی ایس کی رپورٹ کے مطابق دوران ہفتے 8 تا 12 ہزار روپے، 12 تا 18 ہزار
روپے، 18 تا 35 ہزارروپے اور 35 ہزارسے زاید آمدنی والے افراد کے گروپوں
کیلئے ایس پی آئی میں بالترتیب 0.12 , 0.11 , 0.1 اور 0.13 فیصد کا اضافہ
ریکارڈ کیاگیا ہے۔
عوام کا کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب نئی حکومت حلف اٹھانے والی ہے
والی ہے نگران حکومت کی جانب سے ٹیکس اہداف حاصل نہ کر سکنے پہ تین ماہ
کیلئے منی بجٹ کا لانا ناقابل فہم ہے، منی بجٹ کے تحت سیلز ٹیکس کی شرح میں
ایک فیصد اضافہ کرتے ہوئے زیروریٹنگ کی سہولت ختم کردی گئی ہے چینی پر سیلز
ٹیکس کا استثنیٰ بھی واپس لے لیاگیا ہے اگرچہ جی ایس ٹی کی شرح میں حالیہ
اضافے سے ایف بی آر کو80 سے100 ارب روپے کا اضافی ریونیو ملے گا تاہم اس کے
نتیجے میں عوام پر بھی 100ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ منی بجٹ پہلے سے
مشکلات کے شکار عوام کی زندگیوں کو مزید اجیرن بنانے کا یہ اقدام انتہائی
نامناسب اور عوام کے ساتھ بدترین ظلم و زیادتی کے مترادف ہے۔عوام کا کہنا
تھا کہ ہمیشہ ٹیکس سے غریب کا چولہا ہی بجھتا ہے،تمام ٹیکس غریب دشمن ثابت
ہوئے ہیں۔امیر لوگ ٹیکس ادا نہیں کرتے جس کا سارا بوجھ غریب عوام پر پڑتا
ہے۔بڑے بڑے سرمایہ دار اپنی غریبوں کے جمع شدہ مال سے اپنا کاروبار کرتے
ہیں اور قیمت خرچ سے کئی گنا غریب سے حاصل کرنے کے لیے اشیا کی قیمتیں
بڑھادیتے ہیں،غریب عوام کو قیمتوں کی مہنگائی کی صورت میں متعدد ٹیکس ادا
کرنے پڑتے ہیں۔جبکہ امیر نہ تو ٹیکس ڈا کرتے ہیں اور نہ ان سے کوئی پوچھتا
ہے۔جتنا ٹیکس بڑھتا ہے سرمایہ دار اپنی پروڈکٹس کی قیمتوں میں اضافہ کرکے
عوام سے لے لیتے ہیں ، جس کا سارا بوجھ عوام پر پڑتا ہے۔ |